ہفتہ، 23 نومبر، 2013

سو جوتے بھی اور سو پیاز بھی

3 comments



ایک کے بعد ایک اور حملہ 
امریکہ نے ہنگو میں ڈرون حملہ کر کے زخمی مذاکرات کا کام تمام کر دیا
ایک دن پہلے ہی مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کا بیان اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کی چیختی چنگھاڑتی خبروں کی زینت بنا کہ امریکہ نے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کروادی۔
لیکن ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ امریکہ نے کچھ آگے بڑھ کر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ہنگو میں ایک مدرسے کو نشانہ بنا ڈالا۔ جس کے نتیجے میں پانچ افراد کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔گویا امریکہ نے سر تاج عزیز کے منہ پر "طمانچہ" رسید کر کے "رسید" لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے
 وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم رسمی احتجاج کرنے والے دوغلے لوگ نہیں اور یہ بات امریکہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت ایسی نہیں کہ کہے کچھ اور کرے کچھ۔ ہم ڈرون حملے بند کرنے کی بات دل سے کرتے ہیں،میاں صاحب نے کہاکہ ہم نے اوباما سے اس کے سامنے بیٹھ کر ڈرون حملوں کے خلاف بات کی کہ ڈرون حملے کسی صورت قابل قبول نہیں یہ حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔
لیکن اصل حقیقت یہ ہے سلالہ چیک پوسٹ سے ایبٹ آباد آپریشن اور وزیرستان میں طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود پر ڈرون اٹیک سے ہنگو حملے تک ہم وہ لوگ ہیں جو سو پیاز بھی کھاتے ہیں اور سوجوتے بھی۔

جمعرات، 14 نومبر، 2013

یوم عاشورہ کی فضیلت احادیث اور تاریخ کے آئینے میں

4 comments

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ‌ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ‌ شَهرً‌ا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ
 مِنها أَر‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ ۚ ذ‌ٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم.﴿٣٦ ﴾ سورة التوبة
"بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداءِ آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں بارہ ہے ۔ ان میں چارحرمت کے مہینے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں(قتالِ ناحق) سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو" 
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق میں مقامِ منیٰ میں حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو، سال میں بارہ مہینے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں، وہ ہیں : ذوالقعدہ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب ۔"
حضرت قتادہ نے فرمایا: "ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم وزیادتی بہت بڑا گناہ ہے ۔"
ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کے متعلق اگرچہ عمومی طور پر صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خصوصی طور پر 'یومِ عاشوراء' یعنی دس محرم کے روزے کے متعلق کثرت سے اَحادیث آئی ہیں جن سے اس دن کے روزہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں وارد احادیث ملاحظہ فرمائیں :
ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ کی فضلیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ "اس سے ایک سالِ گذشتہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔" (مسلم : ج۱ ،ص ۳۶۸)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قومِ یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جناب رسالت ِمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑاعظیم دن ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کوغرق کیا تھا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام اس دن شکر کا روزہ رکھا پس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ کے زیادہ قریب اورحقدارہیں۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا"۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:۱۸۰
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ" یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔ تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو"۔
یوم عاشورہ یعنی دس محرم کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں مثلاً
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ادریس  کو بلند درجات عطا فرمائے۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات دی۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت نوح کو کشتی پر سے اتارا۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت موسی پر تورات نازل کی ۔
یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے اسمٰعیل  کو ذبح کرنے کی بجائے دنبے کا فدیہ دیا تھا۔
اس دن اللہ نے حضرت یوسف  کو جیل سے چھٹکارا دلایا تھا۔
اسی دن اللہ نے حضرت یعقوب  کو ان کی قوتِ بینائی واپس کی تھی۔
 اس دن اللہ نے حضرت ایوب سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی تھیں۔
اسی دن اللہ نے حضرت یونس  کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا۔
اسی دن اللہ نے دریاکو چیر کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ بنایا تھا۔
اسی دن حضرت موسی نے دریائے نیل عبور کیا تھا۔
اسی دن حضرت یونس کی قوم کو توبہ کرنے کی توفیق ہوئی تھی۔

 لیکن یہ سب باتیں کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں سوائے اس کے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کوفرعون کے ظلم وستم سے نجات ملی۔
سیّدنا حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کو شہادت کیلئےایک ایسا دن نصیب ہواجوتاریخِ عالم میں پہلے ہی سے مقدس اور بابرکت گردانا جاتا تھا۔

بدھ، 6 نومبر، 2013

نیا سال مبارک

1 comments

اسلامی کیلنڈر کے 1434 برسوں میں جہاں طائف کے بازار اور شعبِ ابی طالب کی گھاٹیاں ہیں ، وہیں بدر و احد کے معرکے بھی ہیں اور حدیبیہ کی صلح و مکہ کی فتح بھی
غرناطہ کا سقوط اور ڈھاکہ کے رستے زخم بھی ہیں تو اعلائے کلمۃ اللہ کی تحریکوں کا عروج بھی،
دشمنوں کی سازشوں کے جال بھی ہیں تو اپنوں کی باہمی چپقلش سے کھنڈرات میں تبدیل ہوتی آبادیاں بھی،
کہیں عرب بہار کے خوشگوار جھونکے ہیں تو کہیں میدان الرابعہ میں بہنے والا معصوم لہو
کہیں مایوسی کے گہرے بادل ہیں تو کہیں امید وبیم کی رم جھم بارش
لیکن
عروج وزوال کی اسی داستان کا نام زندگی ہے
آئیے رب کے حضور دعاؤں کیلئے اپنے ہاتھوں کو بلند کیجئے
اے ہمارے رب 1435ھ کو امّت مسلمہ کیلئے عروج ،اقتدار اور خوشحالی کا سال بنا دے آمین
آپ سب کو میری طرف سے نیا اسلامی سال مبارک

منگل، 5 نومبر، 2013

مرادِ رسول ﷺ

2 comments

نبی اکرم ﷺ بیت اللہ کے طواف کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچے تو دیکھا حضرت عمر فاروقؓ سر جھکائے کچھ سوچ رہے ہیں، قائد ﷺ نے اپنے جان نثارؓ پوچھا کیا سوچتے ہو عمرؓ !

جواب ملا جب میں طوافِ کعبہ کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچتا ہوں تو مجھے براہیمی سجدوں کی یاد آنے لگتی ہے اور میرا بھی جی چاہتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیروی میں سجدہ ریز ہو جاؤں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تو چاہتا ہے عمرؓ تو کیا میرا جی نہیں چاہتا ۔۔۔۔ ! میرے تو دادا تھے ابراہیم ،جس طرح میں نے تجھے اپنے رب سے مانگا اسی طرح میرے دادا نے مجھے اپنے رب سے مانگا تھا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا آپ ﷺ بھی اگر یہی چاہتے ہیں تو پھر یہ قانون بن گیا ناں۔۔! آپ ﷺ نے فرمایا نہیں عمرؓ قانون فرش پر نہیں عرش پر بنا کرتے ہیں۔ اور پھر عرش سے جواب آیا 
وإذ جعلنا البيت مثابة للناس وأمنا واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى
اے پیغمبر قیامت تک اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دے دیجئے کہ جو بھی زائرِ حرم میرے گھر کے طواف کو آئے میرے عمر کے شوقِ عبادت کی تکمیل کیلئے مقامِ ابراہیم کو اپنی سجدہ گاہ بنا لے۔ اس وقت سے سجدے شروع ہیں آج بھی ہو رہے ہیں اور اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک زائرینِ حرم بیت اللہ کے طواف کو آتے رہیں گے۔ 
سیّدنا عمرؓ جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے رب سے مانگا تھا خلیفہ دوم کے طور پر ایسا طرزِ حکمرانی قائم کیا کہ تاریخ جس کی مثال دینے سے  قاصر ہے
ایک رات وہ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور انہیں آگ جلتی نظر آئی، یہ سوچ کر کہ شاید کوئی قافلہ ہے جس نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اس کی خبر گیری کیلئے الاؤ کی جانب چل پڑے قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ایک خیمہ ہے اور اس کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی ہے قریب ہی خیمے کے باہر ایک  شخص ضروریاتِ زندگی کا سامان کرنے کیلئے آگ جلائے ہوئے ہے۔ سلام کے بعد اس شخص سے پوچھا کہ بھلے مانس تم کون ہو اور یہ خیمے کے اندر سے آنے والی آواز کا کیا ماجرا ہے۔اس نے بتایا کہ ایک غریب الدیار شخص ہوں اور امیر المؤمنین  کی سخاوت کا چرچا سن کر مدینہ آرہا تھا کہ رات ہوگئی اور میری بیوی جو حمل سے تھی اسے دردِ زہ شروع ہوگیا آپ نے اس کی بات سن کر پوچھا کیا تمہاری بیوی کے پاس کوئی دوسری عورت موجود ہے؟
 جواب ملا کوئی نہیں
آپ  فوراً گھر لوٹے اور اپنی بیوی حضرت امّ کلثوم بنت علی  کو ساتھ لے کر واپس اس شخص کے ہاں پہنچے اپنی بیوی کو اس عورت کے پاس اندر خیمے میں بھجوایا اور خود اس شخص کے پاس بیٹھ کر آگ جلانے اور اپنے گھر سے لائے ہوئے سامان سے کھانا پکانے میں مشغول ہو گئے۔ اب وہ شخص سخت غصّے میں امیرالمؤمنین  کو برا بھلا کہ رہا تھا کہ رات کو قافلے شہر میں داخل نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے اسے اور اس کی بیوی کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔اسی اثناء میں خیمے سے بچے کے رونے کی آواز نئے مہمان کی آمد کا اعلان کرتی ہے اور سیّدہ امّ کلثوم  خیمے سےآواز دے کر کہتی ہیں امیرالمؤمنین  اپنے بھائی کو بیٹے کی خوشخبری دیجئے۔
اور اب وہ شخص کہ جو تھوڑی دیر پہلےامیر المؤمنین کو سخت سست کہ رہا تھا اسےجب معلوم ہوا کہ اس کے پاس بیٹھا ہوا شخص کوئی اور نہیں خود خلیفۃالمسلمین  ہیں تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ امیر المؤمنین نے مسافر کی پریشانی کو دیکھ کر تسلی دی کہ میں تمھارا خادم ہوں، پریشان کیوں ہوتے ہو؟ اطمینان رکھو۔ امیر المؤمنین نے دیگچی اٹھائی اور دروازہ کے قریب آ کر رکھ دی ،اپنی اہلیہ کو آواز دی کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بہن کو کھلاؤ۔
سیدنا عمر فاروق  تاریخ اسلام بلکہ تاریخِ انسانی کا وہ روشن کردار ہیں جن کی مثال رہتی دنیا تک پیش نہ کی جاسکے گی 

جن کے بارے میں جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔" [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]
صحابی رسول ﷺ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسیغلام تھاجس کا نام ابو لولو فیروز تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپکو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد یکم محرم الحرام 23ھ کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اور نبی اکرم ﷺ اور خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق  کے پہلو میں دفن ہوئیے

سلامتی ہو عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ پر کہ جن کی مثال تاریخ کبھی پیش نہ کر سکے گی




ہفتہ، 2 نومبر، 2013

مکہ کا شہزادہ

8 comments

جنگ ختم ہو چکی تھی مسلمان فتح سے ہمکنار ہو چکے تھے قیدیوں کو گرفتار کر کے ان کی مشکیں کسی جارہی تھیں کہ ان کا گزراپنےبھائی کے پاس سے ہوا جو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ایک مسلمان انہیں باندھ رہا تھا اسےمخاطب کرکے فرمایادیکھواسےاچھی طرح باندھنا اس کی ماں بڑی مالدارعورت ہے اس کی رہائی کے بدلے میں اچھی خاصی دولت ملے گی۔ جب بھائی نے سنا تو کہنے لگا تم کیسے بھائی ہو جو ایسی باتیں کر رہے ہو فرمایا میرے بھائی تم نہیں بلکہ وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے 
اپنے بھائی سےاس انداز میں بات کرنے والی یہ عظیم شخصیت کون ہیں آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں 
مکے میں کوئی شخص ان سے زیادہ حسین و خوش پوشاک اور نازو سے نعمت سے نہیں پلا تھا۔ ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اپنے مال ودولت کے بل بوتے پر اپنے جگر گوشے کو بہت ناز و نعم سے پالا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے امراء کے زیر استعمال حضرمی جوتا جو اس زمانے میں صرف امراء کے لئے مخصوص تھا وہ ان کے روزمرہ کے کام آتا تھا اور ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں بسر ہوتا۔ وہ جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی
اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں اتنی نعمتوں سے نوازا تھا وہاں ان کے دل کو بھی نہایت صاف و شفاف بنایا تھا جس پر توحید کا ایک عکس پڑنے کی دیر تھی اور پھر توحید کا جھنڈا اس انداز میں تھاما کہ اس نے انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر دیا اور وہ زندگی کے حقیقی مقصد کو جان کر اس کے حصول میں لگ گئے اور اب حال یہ تھا کہ نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی۔ انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے، نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا اور دنیاوی عیش وعشرت سے بے نیاز ہو گئے۔ اب ان کے سامنےصرف ایک ہی مقصد تھا۔ یہ وہ مقصد تھا جسے جلوۂ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پرواکر دیا تھا۔
 جب ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ان کی والدہ اور ان کے اہلِ خاندان کو ہوئی۔ توپھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی، سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم توحید‘‘ کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ اہل خاندان کے ظلم وستم سے تنگ آکر جناب رسالت مآب ﷺ کےحکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی، ہجرت کے مصائب نے ان کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا۔ اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا، حبشہ میں کچھ ہی دنوں بعد اہلِ مکہ کی اسلام قبول کرنے کی افواہ سن کر وطن کو واپس لوٹ آئے۔
اسی اثنا میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مکہ سے نکل کریثرب کی وادی میں پہنچ چکی تھیں اور وہاں کا ایک معزز طبقہ دائرہِ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔وہاں کے مسلمانوں نے  دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے اس درخواست کے جواب میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتخاب فرمایا اور ضروری ہدایات دے کر انہیں یثرب کی طرف روانہ کر دیا،جہاں انہوں نےتعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں جو بیش بہا خدمت انجام دیں اور جس حسن و خوبی کے ساتھ وہاں کی فضاء کو اسلام کے لئے ہموار کیا وہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی دعوت وتحریک اور محنت کے نتیجےمیں نبی کریمﷺ نےمکہ سے ہجرت کر کے یثرب کو اپنا مسکن بنایا جس کی بناء پریثرب کو مدینۃ النبی ﷺ  کا بلند مقام عطا ہوا۔
2 ہجری کو بدر کا میدان کارزارگرم ہوا تو میدانِ فصاحت کی طرح یہاں بھی آپ اس شان سے نکلے کہ مہاجرین کی جماعت کا سب سے بڑا پرچم ان کے ہاتھ میں تھا، ان کے بھائی کی گرفتاری کا معاملہ اسی غزوۂ بدر میں پیش آیا تھا۔
بدر کے بعد احد کے میدان میں جب داد شجاعت دینے کی باری آئی تو ایک بار پھرعلم جہاد آپ ہی کے ہاتھ میں تھا۔اور اس علم کو اس انداز میں سربلند رکھا کہ جب  مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۂ نےتلوار کے وار سےآپ کا داہنا ہاتھ شہید کر دیا تو  فوراً بائیں ہاتھ میں علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔ 

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۔۔۔۔۔۔۔ (آل عمران)  

اور پھر جب بایاں ہاتھ کٹ گیا تو دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر پرچم کو تھام لیا اور اسے سرنگوں نہ ہونے دیا اور جب دشمن کے نیزے کے وار سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھائی ابو الدومؓ بن عمیر آگے بڑھے اور علم کو سنبھالا دے کر پہلے کی طرح بلند رکھا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔
مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ قبولِ اسلام سے قبل جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی،وہی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ آج اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے تھے کہ ان کے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر تھی۔ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے، پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا بالآخر اس حال میں دفن ہوئے کہ  سر ڈھانپ دیا گیا  اور پاؤں پر گھاس پھونس ڈال دی گئی۔
 آنحضرت ﷺ حضرت مصعبؓ کی لاش کے قریب تشریف لائےاور یہ آیت تلاوت فرمائی:۔

 مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ 

(اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا)
پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ بے شک اللہ کا رسولﷺگواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے۔‘‘ 
رضی اللہ عنھم ورضو عنہ
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے

................................................................................

................................................................................
.