بدھ، 17 دسمبر، 2014

میرا قلم لہو لہو میری زباں لہو لہو

4 comments

43 برس بعد 16دسمبر نے ایک بار پھر سے لہو لہودسمبر کی یاد تازہ کر دی،پشاورمیں آرمی پبلک سکول میں132بچوں سمیت 142 افراد کی شہادت سےدل ودماغ قابو میں نہیں ملک کے طول وعرض میں صفِ ماتم بچھی ہےہر فرد رنجیدہ ہے، اور تو اور ایسے حادثات میں زخمیوں اور شہیدوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے والے رضاکار بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں، آج صبح بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے ہوئے میں نے معصوم بچوں کے چہروں  کو دیکھا جو آج خلافِ معمول سر جھکائے شرارتوں کی بجائے سنجیدہ سنجیدہ اپنے مادرِ علمی کی جانب رواں دواں تھے،کل صبح آرمی سکول پشاور کے وہ طلبہ بھی ایسے ہی یونیفارم پہنے اپنے اپنے سکولوں کی طرف رواں دواں ہوں گے، لیکن گھروں سے سکول روانہ کرتے ہوئے والدین کو معلوم نہ تھا کہ وہ انہیں آخری بار پیار کر رہے ہیں۔ دہشت گردی نے میرے ملک کو لہو لہان کر دیا ہے مرنے والے معصوم اپنے پیاروں کو غم واندوہ میں ڈوبا چھوڑ کے منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں تو کتنے ہی زخموں سے چور،حکومت کی طرف سے زخمیوں اور شہداء کیلئے معاوضوں کا اعلان کیا جاچکا لیکن دلوں کے زخموں پہ مرحم کون رکھے گا، ہر سال سقوطِ ڈھاکہ کے زخم کے ساتھ ایک اورزخم کا اضافہ ہوگیا،ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیںبأَيِّ ذَنبٍ قتِلَت (تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا)۔ ان معصوموں کی کہانیوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر، کوئی وکیل تو کوئی تاجر۔بہت سے ایسے تھےجو بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ اور کئی ایک تو والدین کی واحد اولاد،ان والدین پر ٹوٹی قیامت کی ترجمانی کسی صورت ممکن نہیں۔ سبزکوٹ اور سویٹر پہنے کشاں کشاں سکول جانے والے ننھے منے فرشتہ سیرت یہ بچے سفید کفن اوڑھے لہو سے غسل کرکے اپنے ابدی سفر کو روانہ ہو گئے کئی ایک کے جنازے پڑھے جاچکے تو کئی ایک کیلئے تیاری آخری مراحل میں ہےقبروں پر پھول چڑھا کر فاتحہ پڑھ کرسبھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے،دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکےعزم کا اعادہ کیا جائے گا،شہداء کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور "آمدن، نشستنِ ،خوردن، برخواستن" کے مصداق اجلاس ختم ہو جائیں گے۔ اور پھر زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ یہ حادثہ دیگر حادثوں کی طرح وقت کی گرد میں کہیں گم ہو جائے گا،ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان ہوا ہے،لیکن کیا ایسے واقعات پر صرف سوگ منا لینا کافی ہے؟؟؟؟ کیا ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا ؟؟؟؟؟ اگر حملہ آوروں کا پتہ چلا لیا گیا وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے، تو کیا ان تک پہنچنے اور بے نقاب کرنے کی کوئی سعی بار آور ہوگی ؟؟؟؟ یا پھر یوں ہی میری ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی
اجاڑ رستے،عجیب منظر،
ویران گلیاں ، یہ بند بازار
کہاں کی خوشیاں کہاں کی محفل،
شہر تو میرا لہو لہو ہے۔
وہ روتی مائیں،
بےہوش بہنیں لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں۔
اے پیارے بھیا ،
سفید کُرتا تھا سرخ کیوں ہے ؟؟؟

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

محبّت جیت جاتی ہے

10 comments

پرائمری سکول میں ٹاٹ پربیٹھےتختی لکھنے کے دوران میں دوسروں کی دوات سےقلم کا"ڈوبہ" لگانا سب سے بڑی شرارت تصورکی جاتی تووہیں خوبصورت تختی لکھنا ایک اعزاز گردانا جاتا،جب اساتذہ تعلیم کو پروفیشن نہیں فرض سمجھتے تھے اور "مار نہیں پیار" کا فلسفہ تو ابھی دور کہیں بہت بلکہ دور تھا لیکن "پولیس اور تھانہ" اس وقت بھی خوف کی علامت اور صرف خون ہی نہیں بلکہ "طالب علموں کی تختیاں" خشک کرنے کی علامت بھی تھا :) ۔انہی دنوں کی بات ہے "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کی گردان کرتا میں گیلی تختی کو خشک کرنے کی ناکام سعی میں مصروف تھا لیکن تختی تھی کہ تھانے کا نام سن کر بھی سوکھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سردیوں کی اس دوپہر میں جب سکول کی بریک ٹائم ختم ہونے میں ابھی چند منٹ ہی باقی تھے کہ مجھے یاد آیاکہ "پکڑن پکڑائی" کھیلنے کی دھن میں کل کی لکھی تختی تو میں نے دھوئی ہی نہیں اورپھر میں بھاگم بھاگ تختی دھو لایا، تختی دھو تو لایا لیکن آج سورج انکل بھی کہیں دور جا چھپے تھے اورمیں ماسٹرجی کے خوف سے گول گول گھومتا سکول کے گراؤنڈ میں تختی کو سکھانے کیلئے چکر لگاتا اسے سنائے جا رہا تھا "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کہ شاید تھانے کا خوف اسے خشک ہونے پر مجبور کردے کہ دفعتاً رمضان میاں نہ جانے کہاں سے آٹپکے اورتختی سوکھنے کی بجائےرمضان میاں کے ماتھے پر ایک بڑا سا زخم چھوڑ گئی،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھااور ادھر میرا خوف کے مارے خون خشک ہوچلا تھا،بات ہیڈماسٹرصاحب تک پہنچی اورانہوں نے "کمال محبّت" سے میری "چھترول" کرکے مجھے کل اپنا والد صاحب کو ساتھ لانے کا کہ کرسکول سے نکال دیااور یوں میری "اَن سوکھی" تختی سکول میں رہ گئی اور میں گھر آگیا شام میں ابا حضور کے سامنے بات رکھی گئی اور دوسرے دن ابا جان میرے ساتھ سکول آئے ، مجھے معافی مل گئی اور میں ہنسی خوشی اپنی کلاس میں پہنچ گیا۔لیکن یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب آخری پیریڈ میں ماسٹر صاحب نے تمام طلبہ کو اپنی اپنی تختیاں نکالنے کو کہا، اور جنہوں نے تختیاں نہیں لکھی تھیں ان کی شامت آگئی میری سوکھی تختی میرا منہ چڑا رہی تھی گویا مجھے کہ رہی ہو کل تو مجھے نہ سوکھنے پر تھانے لے جانے کی دھمکی دے رہا تھالیکن آج خود خوب پھنسا ہے ناں۔ ماسٹر صاحب نے ان تمام چھ طلبہ کو مرغا بن جانے کا آرڈردیاجوتختی نہیں لکھ کےلائے تھے،جھجھکتے جھجھکتے سب مرغا بن گئے اور اس سے پہلے کہ پٹائی شروع ہوتی ایک طالب علم نے دوڑ لگا دی اور کلاس سے فرار ہو گیا ماسٹر صاحب نے سب کو کھڑا کیا اور ایک سرے سے مارنا شروع کیا پہلی باری میری ہی تھی میرے ہاتھوں پہ دس ڈنڈے برس چکے تھے کہ دفعتاً چھٹی کی گھنٹی بج گئی، ماسٹر صاحب نے باقی لڑکوں کو چھوڑتے ہوئے کہا کہ جاؤ نامخولو( غیر معقول آدمی) کل تختیاں لکھ کے لانا۔ میں جو دس ڈنڈے کھا کر بھی بے شرموں کی طرح کھڑا تھا اس ناانصافی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ دن گزرتے گئے پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج سے ہوتے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا لیکن وہ واقعہ کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی تازہ ہو جاتا ، ماسٹر صاحب کی نا انصافی کے خلاف ایک گانٹھ میرے دل میں موجود تھی، عملی زندگی میں قدم رکھے برس گزر گئے بچپن کے دوست معلوم نہیں کہاں تھے کہ ایک دن میرے کچھ مہمان آئے بیٹھے تھے،اور میں کلینک میں مریضوں کے بنچوں پر بیٹھا تھا والد صاحب مریضوں کا چیک اپ کر رہے تھے کہ ایک لمبے قد کے بزرگ کلینک میں داخل ہوئے کچھ دیر میری طرف غور سے دیکھنے کے بعد ابا جان کی طرف بڑھ گئے ان کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی،آپ کا ایک بیٹا میرے پاس پڑھا کرتا تھا اور آپ اکثر اس کی خبر گیری کیلئے سکول آتے تھے آج میرا دل چاہا کہ اس سے ملوں، ان کی آواز سن کے میں بے اختیار اندر کی جانب لپکاسفید داڑھی اور خوبصورت چہرے والے ماسٹر اقبال صاحب آج 26سالوں بعد میرے سامنے تھے جو محبّت سے مجھے ملنے آئے تھے،ان کی محبتوں کے سامنے ان کے خلاف دل میں بن جانے والی گانٹھ، ان کے خلاف سارے گلے شکوے کہیں دور گم ہو گئے تھے۔ میں ہار گیا ان کی محبت جیت گئی اس لئے کہ نفرتوں کے مقابلے میں "محبّت جیت جاتی ہے"

منگل، 25 نومبر، 2014

ایک خوبصورت دن

10 comments
جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ عام میں شرکت کا پروگرام بنا تو بہت سے دوستوں کے ساتھ ملاقات کا پروگرام بھی ساتھ میں ہی ترتیب پا گیا،لاہور پہنچتے ساتھ ہی جو لاگ ان ہوا تو پہلا پیغام محترم بھائی مصطفٰی ملک کا موصول ہوا مجھے کال کیجئے آپ کا نمبر نہیں مل رہا اور پھر جونہی میں نہ کال ملائی اور یوں تھوڑی دیر بعد ہی ملک صاحب سے سوشل میڈیا کیمپ میں ملاقات ہو گئی۔
 
ملک صاحب بار بار بتا رہے تھے"یار او بلال آریا وا" اور میں سمجھ  نہیں پا رہا تھاکہ ملک صاحب کس "بلال" کا ذکر کررہے ہیں۔لیکن مغرب کے بعد جب سفید رنگ کی "نگوں والے بٹن" لگی قمیض شلوار میں ملبوس نوجوان کی قیادت میں اردو بلاگرز کا ایک گروپ سوشل میڈیا کیمپ میں داخل ہوا اورجومیں آگے بڑھ کر ملا تو ملک صاحب نے تعارف کا فریضہ سرانجام دیا
یہایم بلال ہیں اور پھر میں تو گویا خوشی کے مارے اچھل ہی پڑا پاک اردوانسٹالر کے موجد ایم بلال ایم میرے سامنے تھے ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں تھے میرے پاس کہ ان کی بدولت ہمیں کمپیوٹر پر ہر جگہ اردو لکھنے کی سہولت میسر آئی،ان کے ساتھ ملنسار اورہنس مکھ سے کاشف نصیرہیں۔ اور ارے میں نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں مجھے ملتے ہی آنکھوں میں شرارت سجائےکہنے لگے دیکھنا باوا بھی یہیں لاہور میں ہوتا ہے جی ہاں تو یہ ہیں کراچی سے تشریف لائے وقار اعظم ۔اور یہ "ننھا منّا" سا لڑکا جوکبھی "غیث المعرفہ" ہوتا ہے تو کبھی غلام اصغر ساجد بلاشبہ قابلِ قدر بھی ہے توایک اچھا لکھاری بھی، اور یہ بانکا سجیلا جوان مفکروں کی طرح ناک پہ چشمہ ٹکائے کون ہے بھلا معلوم نہیں اب نظر کی کمزوری ہے یا مفکر نظر آنے کا شوق لیکن چشمہ تو بہر حال خوب سجا  :)  محمد عبداللہ ہیں یہ .تصویر بنواتے وقت جھٹ سے کرسی پہ "دولہا میاں" بنے بیٹھے یہ ہیں عاطف بٹ۔ اوریہ نٹ کھٹ سا نوجوان اپنے آپ کو رضی اللہ خان بتاتا ہے، اور یہ ہیں محمداسد اسلم جنہوں نے یہ فوٹو پوسٹ کرنے کے بعد مجھے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی جو ابھی ابھی میں نے قبول بھی کرلی ۔غرض یہ ایک شاندار دن تھا جب بہت سے بلاگر مل بیٹھے۔ ملک صاحب نے تو خدمت سے معذرت کر لی کہ اب یہاں کہاں سے چائے پانی آئے لیکن جماعت اسلامی کے مرکزی ناظم آئی ٹی شمس الدین امجد اور ناظم آئی ٹی پنجاب میاں محمد زمان نے کمال محبت سے تمام بلاگرز کیلئے ریفریشمٹ کا اہتمام کیا اور جو میں وہاں سے اٹھ کے محترم بھائی فیض اللہ خان کے پاس آیا تو کسی نے میرے حصّے کی ریفریشمنٹ بھی ہضم کرلی ظالموجس نے بھی وہ کھایاہے ناں مجھے معلوم ہے وہ اگر نام بتا دیا ناں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

نمازِجنازہ

2 comments

بلدیاتی الیکشن کی گہما گہمی تھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے جاچکے تھے ،امیدوار اپنی اپنی مہم چلا رہے تھے شادی بیاہ کی تقریبات میں حاضری ،جنازوں میں شریک ہونا لازم ہو گیا تھا،کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا دن تھاسبھی امیدوار ریٹرننگ آفیسر کے آفس پہنچ چکے تھے لیکن ایک امیدوار ابھی تک غیر حاضر تھا کاغذات کی پڑتال کا عمل شروع ہو گیا،امیدواروں سے مختلف سوالات ہو رہے تھے کسی سے سورہ اخلاص تو کسی سے دعائے قنوت سنی جارہی تھی آدھ گھنٹہ گزرا تو وہ امیدوار بھی آموجود ہوا، ریٹرننگ  آفیسر نے استفسار کیا آپ دیر سے کیوں آئے۔جواب ملاایک جنازہ پڑھنے کیلئےچلا گیا تھا اس لئے دیر ہوگئی،ریٹرننگ آفیسر نے ان سے جو نمازِجنازہ سنانے کیلئے کہا تو انہیں چپ لگ گئی آفیسر کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور کہنے لگا یہ لوگ آپ کی نمازِجنازہ پڑھیں گے،کمرہ عدالت زعفرانِ زاربن گیا۔کاغذاتِ نامزدگی کی پڑتال ہو گئی،الیکشن بھی ہوگیا جیتنے والے جیت گئے اور ہارنے والے اگلے الیکشن سےامیدیں لگائے سرگرم ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو ہم میں سے کسی کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ جائے
آئیے دیکھتے ہیں نمازِجنازہ کیسے ادا ہوتی ہے اور اس میں کیا پڑھتے ہیں
جنازہ کی نماز میں دو فرض ہیں۔ (۱) تکبیراتِ اربعہ۔ (۲) قیام
اس کیلئے وہی شرائط ہیں جو فرض نماز کیلئے ہیں،نمازِجنازہ میں نہ قراءتِ قرآن ہے اور نہ رکوع و سجود و تشہد ہے،نیّت کرنے کے بعد امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہتا ہے اور مقتدی بھی پہلی تکبیر کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھاتےہیں اورنماز کی طرح سینے پر ہاتھ باندھ لیتےہیں اس کے بعد ثناء پڑھتےہیں
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ
اس کےبعدامام ہاتھوں کوکانوں تک اٹھائے بغیردوسری تکبیر کہتاہےدوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھاجاتا ہے 
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ وَسَلَّمْتَ وَبَارَکْتَ وَرَحِمْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اگر یہ والا درود شریف نہ آتا ہو تو نماز والا درودِابراہیمی بھی پڑھا جا سکتا ہے
درود شریف کے بعد تیسری تکبیراوراس کےبعد تمام مومن مردوخواتین کیلئے دعائےمغفرت کی جاتی ہے،
اَللّٰھُمَّ اغفِرلِحَیِّنَاوَمَیِّتِنَاوَشَاھِدِنَاوَغَائِبِنَاوَصَغِیرِنَاوَکَبِیرِنَاوَذَکَرِنَاوَاُنثَانَااللّٰھُمَّ مَن اَحیَیطَہُ مِنَّافَاحیِہِ عَلَی الاِسلَامِ وَمَن تَوَفَّیتَہُ مِنَا فَتَوفَّہُ عَلَی الاِیمَانِ"
اگریہ دعا یادنہ ہوتو جودعایادہووہی پڑھی جا سکتی ہے لیکن وہ دعاجوآخرت سے متعلق ہو اگر کوئی یاد نہ ہو تو یہ پڑھ لینا کافی ہے
"اللّٰھُمَّ الغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ"
اگر میّتنابالغ لڑکےکی ہوتومذکورہ بالا دعا کے بجائے یہ دعا پڑھی جاتی ہے
" اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلہُ لَنَا اَجراً وَّذُخراًوَّاجعَلہُ لَنَا شَافِعا وَّ مُشَفَّعاً "
اوراگر میّت نابالغ لڑکی کی ہو تو اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّاجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً پڑھی جائے گی اس کے بعد امام صاحب چوتھی تکبیر کہتےہیں اوراس کےبعد دونوں طرفاَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُﷲِ کہتے ہوئے سلام پھیراجاتا ہے بالکل جیسے نمازمیں سلام پھیرتے ہیں

پیر، 6 اکتوبر، 2014

جمرات کی کنکریوں کا معمہ

2 comments
بچپن میں جب حاجی حج سے واپس آتے تو کھجوروں اور زم زم کے شوق میں ہم بھی بڑوں کی طرح ان سے ملنے چلے چلتے،حج کے تذکرے ہوتے، ہم نے اتنا سفر پیدل کیا،،ایسے طواف کیا ، ایسے شیطانوں کو کنکریاں ماریں تو دل میں ایک نقشہ سا بن جاتا کہ شاید وہاں کوئی شیطان کھڑے ہوتے ہوں گے جنہیں یہ حاجی صآحبان کنکریاں مار کے آتے ہیں،پھر حاجی یہ بھی بتاتے کہ جن لوگوں کا حج اللہ پاک قبول کر لیتے ہیں ناں ان کی کنکریاں وہاں سے راتوں رات غائب ہو جاتی ہیں،اور جن کا حج قبول نہیں ہو تا ان کی ماری گئی کنکریاں ایسے ہی پڑی رہ جاتی ہیں،ہم بھی بڑوں کی طرح سبحان اللہ سبحان اللہ کہے جاتے۔جن کا حج قبول نہیں ہوتا ان کیلئے دل سے افسوس ہوتا ہم حاجی صاحب کی لائی کھجوریں اور آبِ زمزم نوشِ جاں کرتے اور گھروں کو لوٹ آتے۔
وقت گزرتا رہا لیکن شیطان کو ماری جانے والی کنکریوں کا سوال تشنہ جواب ہی رہا، لیکن اس حوالے سے "العربیہ ٹی وی" کی ایک رپورٹ نے اس سوال کا جواب دے دیا۔

وادی منیٰ میں سعودی حکومت کے تعمیر کردہ الجمرات پل کا پندرہ میٹر زیر زمین تہ خانہ ہے جہاں خودکار مشینوں کے ذریعے تینوں شیطانوں کو ماری گئی کنکریاں خود بخود الگ الگ ہو کر جمع ہوتی رہتی ہیں اور پھر انھیں ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔
العربیہ کے نمائندے کو جمرات پُل کے تہ خانے میں جانے اور وہاں اس نظام کو ملاحظہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ نظام الیکٹرنک ڈورز کی طرح کام کرتا ہے۔ اور یہ جمرات کے تہ خانے میں جمع ہونے والی کنکریاں کو بڑی تیزی سے ہٹا دیتا ہے۔جمرات کے تہ خانے میں ''دو مشینی نظام'' کام کرتے ہیں اور وہ دونوں کنکریوں کو زمینی سطح سے مختلف رفتار سے منتقل کرتے ہیں۔ اس نظام کے دروازوں، ان کی طرف آنے والی کنکریوں کی مقدار اور انھیں جمع کرنے کے نظام کو برقی رو سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس میں کنکریوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سنسر بھی لگے ہوئے ہیں۔ حج کے دنوں کے بعد جب کنکریوں کی مقدار ایک ہزار ٹن تک پہنچ جاتی ہے تو حجاج کے مشاعر سے روانہ ہونے کے بعد ان کنکریوں کو مخصوص مقامات کی جانب بھیج دیا جاتا ہے۔گذشتہ برسوں کے تجربات کی روشنی میں جمرات پل پر استعمال شدہ کنکریوں کی مقدار تین سو ٹن تک پہنچ جاتی ہے۔ جمرات پل کی ہر منزل پر برقی گیٹ لگے ہوئے ہیں اور یہ الیکٹرانک نظام انھی برقی دروازوں کے ذریعے کام کرتا ہے۔ یہ گیٹ کنکریوں کو پل کے نیچے لگے کمپریسرز کی جانب بھیج دیتے ہیں۔ الجمرات پُل کے تہ خانے میں نگرانی کے لیے کیمرے نصب ہیں اور وہاں تحفظ کے لیے دوسرے عمومی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
العربیہ ٹی وی کی اس رپورٹ نے برسوں کا معمہ حل کردیا، ویڈیو دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں 

ہفتہ، 30 اگست، 2014

حکمتِ ربانی

3 comments

ٹھنڈی آہیں بھرتی ، ہائی بلڈ پریشر اور بے خوابی کا شکار یہ مریضہ آج جب دوسری بار میرے کلینک میں آئی تو پہلی بار کی نسبت قدرے بہتر تھی،اور آج اتفاق سے جس وقت وہ آئی میرے کلینک میں اس وقت کوئی مریض بھی نہ تھا،اس کا بلڈ پریشر بھی پہلے سے کم تھا او رکچھ وقت کیلئے اب نیند بھی آجاتی تھی اس کے ساتھ آنے والی اس کی بیٹی علاج سے مطمئن تھی۔آج میں نے اس کے مرض کی تہ تک پہنچنے کی ٹھان لی ،میرے اس سوال پر کہ باجی یہ تکلیف شروع کیسے ہوئی وہ خاتون پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور ایک عجیب بات کہی کہ میں نے خدا سے مقابلہ کیا ناں ،سو مجھے اس کی سزا مل رہی ہے،ڈاکٹر صاحب دعا اکیجئے میرا مولا مجھے معاف کر دے میں نے اس کو کھل کر رونے دیااور اس کیلئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس منگوایا،پانی پی چکنے کے بعد کچھ پرسکون ہوئی تو میں نے اس سے سوال کیاکہ آخر آپ نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے مدمقابل پاتی ہیں ۔اس نے ایک گہرا سانس لیا کچھ دیر تک سوچتی رہی اور پھر سر اٹھا کر یوں مخاطب ہوئی




ڈاکٹر صاحب میری شادی کو 10برس بیت چکے تھے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا گھر میں ہر طرح کی آسائشیں موجود تھیں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کی وجہ سے ہر وقت گھر میں رونق رہتی، لیکن میں تھی کے بیٹے کی خواہش میں پاگل ہوئی جاتی تھی لیکن جب ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی توبیٹے کی خواہش مزید بڑھ جاتی، میرا خاوند اس حال میں بھی خوش تھا لیکن میں نے اپنا بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کسی اور کا بیٹا گود لینے کا فیصلہ کر لیا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک طلاق یافتہ خاتون شادی ہو کر ہمارے محلّے میں آگئی جس کا پہلی شادی سے ایک نومولود بچہ تھاجسے دوسرے خاوند نے پرورش کرنے سے انکار کر دیا جب میں نے یہ سنا تو اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے اس کے ہاں جا پہنچی اس خاتون کی منّت سماجت کی کہ وہ بچہ مجھے دے دو میں اسے اپنا بیٹا سمجھ کے پالوں گی،میری باتیں سن کر تو گویا اس خاتون کیلئے بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداقخوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہااور اپنا بچہ میرے حوالے کرنے پر تیّار ہوگئی۔ میں نے اس سے بچہ لیا اور خوش خوش اپنے گھر کو لوٹ آئی،اب وہ بچہ میری آنکھوں کا تارا تھا میں اس کے لاڈ اٹھاتے نہ تھکتی،بیٹیوں کو بھی گلہ رہنے لگا کہ آپ اب ہمیں کم پیار کرتی ہیں لیکن میں جو بچہ مل جانے پرخوشی سے اتراتی پھرتی تھی مجھے کس کی پرواہ تھی ۔وہ بڑا ہوا تو اسے اچھے سکول میں داخل کروایا اس کی ہر خواہش پوری کی وقت تیزی سے گزرتا رہاتاآنکہ اس نے میٹرک کر لیامیں نے بہت کوشش کی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے لیکن اس نے کہا کہ وہ اپنے باپ کے کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے گا میں خوش تھی کہ بڑھاپے میں میرے خاوند کو سہارا مل گیا۔لیکن ابھی میری اصل آزمائش باقی تھی میرے خاوند نے اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئیکاروبار اس کے نام کردیا اور اسے ایک گاڑی بھی خرید دے تاکہ کاروباری سلسلے میں دوسرے شہر جانے میں اسے مشکل نہ پیش آئے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس بیٹے کا اٹھنا بیٹھنا غلط سوسائٹی میں ہو گیا ہمیں معلوم ہوا تو سمجھانے کی کوشش پر گلے پڑنے کو آگیا،کچھ ہی عرصہ بعد اپنے محلّے ہی کے ایک دوست کو معمولی تلخ کلامی پر قتل کر ڈالا اور ہماری نیک نامی پر ایک اور دھبہ لگا کر آج کل جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے،ڈاکٹر صاحب میں نے خدا کا مقابلہ کیا اس نے مجھے بیٹا نہیں دیا ناں تو میں نے کسی اور کے بچے کو اپنا بیٹا بنا کر اس کی ولدیت کے خانے میں اپنے خاوند اور خود کو اس کی ماں کہلوا کر فخر کا اظہار کیا تو خدا نے مجھے دنیا میں ایسی سزا دے دی کہ اب بیٹا کال کوٹھڑی میں سزا کا منتظر ہے محلّے میں سر اٹھا کے جینے کے قابل نہیں رہے اور بیٹے کی محبّت دل ہلائے دیتی ہے معلوم نہیں اس کا کیا بنے گااورانہیں سوچوں میں راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں
وہ خاتون دوا لینے کے بعد اپنے گھر لوٹ گئی لیکن مجھےقرآن مجید کی سورہ شورٰی کی ان  آیات  کی تفسیر سمجھا گئی گئی  جن میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
 لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا(سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 49 ،50)
اللہ فرماتے ہیں کہ میں زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہوں پیدا کرتا ہوں جو چیز چاہتا ہوں جس کو چاہتاہوں بیٹیاں عطا کرتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں بیٹے ۔ چاہوں تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دوں اور میں مالک ہوں چاہوں تو کچھ بھی نہ دوں ۔

منگل، 19 اگست، 2014

بچپن کی یادیں،سائیکل والا رنگیلااور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 comments

یہ90 کی دہائی کا تذکرہ ہے جب میں نے گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس دور میں گلی کے کسی ایک گھر میں ٹیلی ویژن ہوتاتھا جہاں شام کے وقت ہم جا کے ڈرامہ دیکھا کرتے اور جب"گلی ڈنڈا" اور "بنٹے کھیلنا" مشہور زمانہ کھیل تھے تو "پولکا آئس کریم" کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ اسی دور کی بات ہے سال چھ مہینے گزرتے تو ایک سائیکل والا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ  شہر میں وارد ہوتا سکول کے راستے میں بنے "ڈاک بنگلے" کے گراؤنڈ میں ڈیرہ لگاتا ایک دائرہ میں گھاس پھونس صاف کرتااور درمیان میں شامیانہ لگ جاتا اور ساتھ میں لاؤڈ سپیکر پر گانے بجنے لگ جاتے اس سائیکل سوار اور اس کے ساتھیوں کو لوگ "رنگیلا" کے نام سے پکارتے بس جی گراؤنڈ تیار ہونے کی دیر ہوتی رنگیلا صاحب اپنی سائیکل پر بیٹھتے اور سائیکل دائرے میں گھمانے لگ جاتے سپیکر پر اعلان شروع ہوجاتے کہ "رنگیلا ایک بار پھر آپ کے شہر میں" رنگیلا دن کے اوقات میں مختلف کرتب دکھاتا جو سکول ٹائم کے بعد ہماری واحد تفریح ہوتی، رنگیلا سائیکل پر رنگ برنگے کرتب دکھاتا،سائیکل پر ہی نہاتا، کپڑے بدلتا اور میوزک کی تال پر خود بھی جھومتا گاتا اور سائیکل کو بھی نچاتا پھرتا، اکٹھے ہونے والے لوگ اسے داد دیتے کوئی 2 اور کوئی ایک روپیہ اسے انعام دیتا،عام طور پر یہ کھیل دو سے تین دن جاری رہتا اور پھر مقامی انجمن تاجران کے کوئی "حاجی صاحب" یا پھر کوئی "نونی خان" ٹائپ مقامی کونسلر آتا اور سو پچاس روپے انعام میں دے کر اسے سائیکل سے اتارنے کی رسم ادا کر دیتا۔علاقے کا ایک سردار مقامی ایم پی اے تھا رنگیلے نے اعلان کیا کہ اب کی بار اس وقت تک سائیکل سے نہیں اترے گا جب تک "سردار صاحب" بنفسِ نفیس تشریف نہیں لاتے اور اسے انعام میں 5000 روپے دے کر سائیکل سے نہیں اتارتے وہ سائیکل چلاتا رہے گا اور بالکل بھی نیچے نہیں اترے گا، لوگوں کو معلوم تھا سردار صاحب جو کبھی الیکشن کے بعد نظر نہیں آتے "رنگیلے" کی رسمِ اترائی" ادا کرنے کب آئیں گے رنگیلے کی ضد سن کر اس سے پہلے آنے والے حاجی صاحب اور نونی خان بھی نہ آئے اور سردار صاحب نے تو آنا ہی نہ تھا۔ رنگیلے کا سائیکل چلا چلا کے برا حال تھا 72 گھنٹے گزر گئے تو کچھ لوگوں نے شہر کے مشہور چائے فروش "بشیرے" کو سو روپے دئیے اور اس نے جاکے رنگیلے کی"سائیکل اترائی"کی رسم ادا کر دی
گزشتہ چند روز سے ٹیلی ویژن سکرین دیکھتے دیکھتےرنگیلا بہت یاد آرہا ہے اورسوچ رہا ہوں دیکھوکب کوئی"بشیرا"جاتاہےاوران جھومتےگاتے "رنگیلوں" کو سائیکل سے اتارنے کی رسم ادا کرتا ہے۔

جمعرات، 7 اگست، 2014

سِکھوں کے گنے،طالب علم اور فیس بک کا لائک

1 comments
لوگوں کے سکھوں کے بارے میں لطیفے سن سن کر اور سکھوں کے بے وقوف ہونے کی باتیں کرتے دیکھ کر سکھ برادری سر جوڑ کے بیٹھی اور اس بات  پر سوچ بچار شروع ہوئی کہ کوئی ایسا کام یا کارنامہ سرانجام دیا جائے کہ لوگوں پر عقل مند ہونے کی دھاک بیٹھ جائے، برادری کے سرپنچوں نے طرح طرح کے مشورے دئیے، کافی بحث ومباحثہ ہوا اور طے یہ پایا کہ علاقے کے لوگوں کی بہتری کیلئے ایک سکول بنایا جائے جہاں بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست ہو مشورہ دینے والے کی خوب واہ واہ ہوئی اور اس سے پہلے کہ اجلاس برخواست ہوتا ایک "عقلمند سکھ" نے سوال کر ڈالا یہ سکول بنے گا آخر کہاں اور پھر یہ بات بھی طے ہوگئی کے علاقے کے ایک تگڑے "زمیندار سکھ" نے سکول کیلئے زمین دینے کا اعلان کر دیا ابھی اجلاس ختم ہوا ہی تھا اور سردارلوگ اپنے گھروں کو روانہ ہونے ہی کو تھے کہ ایک اور سرپنچ کے ذہن میں معلوم نہیں کیسے یہ بات آگئی کہ آخر زمین بھی مل ہی جائے گی لیکن سکول کی بلڈنگ بنانے کیلئے ایک اچھی خاصی رقم درکار ہو گی تو یہ بندوبست بھی کر کے ہی جایا جائے اور بالآخر سردار آپس میں سر جوڑے سکول کی تعمیر کیلئے فنڈ کے انتظامات کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے کہ درمیان میں ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا، گاؤں کے ایک بااثر سکھ نے دہائی دی کہ سردارو تم سکول تو بنا ہی لو گے لیکن دریا کے اس پار جو ہمارے مخالفین کا گاؤں ہے ناں ان کے بچے بھی اس سکول میں لازمی ایڈمشن لیں گے کیونکہ ہم سکول میں کسی کو بھی داخلہ لینے سے منع کرنے سے تو رہے اور اگر وہ یہاں سکول میں پڑھنے آئیں گے ناں تو تو واپسی پر ہمارے کماد کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے گنے ضرور توڑ کے لے جائیں گے اور اس طرح ہماری فصل کا تو ستیا ناس ہو جائے گا سرپنچوں کے سربراہ نے فیصلہ دیا کہ سکول بنانے سے پہلے اس گاؤں کے بچوں سے نمٹ لیا جائے جو ہماری فصلوں کے دشمن بن کر ان کی تباہی کا سامان کریں ان کی خوب ٹھکائی ہونی چاہئیے۔ تمام سکھ کرپانیں سجائےدریا پار کے گاؤں پر حملہ آور ہوئے اور بچوں کا مار مار کر بھرکس نکال دیا جو بچانے کو آئے تو ان کو بھی خوب پھینٹی لگائی عورتوں نے ہاتھ جوڑے کہ آخر بتاؤ تو سہی ہم سے کیا غلطی ہو گئی  تو سکھوں کے لیڈر نے ترنگ میں آکر کرپان لہرائی اور کہا
 " ہور چوپو گنے"

بس جی ہم بھی فیس بک پر ایک سٹیٹس کو لائک کر کے "گنے چوپنے" کا مزہ کیا لے بیٹھے کہ اب "سرداروں" سے ہماری چھترل ہو رہی ہے، اور یار لوگ ہمیں دیکھتے ہی کہتے ہیں "ہور چوپو گنے"
نوٹ:اس پوسٹ کو کسی خاص پسِ منظر میں ہرگزنہ لیاجائے،ایسا کرنے والا نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا
پنجابی سے اردو ترجمہ ہو چوپو (اور چوسو) ـــــــــــ گنے (گنڈیری)

بدھ، 25 جون، 2014

ماہِ مبارک

3 comments

اس کے قدموں کی چاپ دل کی دھڑکن کی طرح ٹھک ٹھک کرتی قریب سے قریب تر ہورہی ہے، وہ جو گزشتہ برس "دکھی" ہو کے چلا گیا تھا ایک بار پھر سے اپنی "رحمتوں" کے جام لڈھانے آرہا ہے،محبت سے پکارتے ہوئے، ایک آس لئے، اپنے بھرے دامن کے ساتھ ، بہت کچھ لٹانے کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دکھ تو اس بات کا ہے کہ وہ جنہیں بہت کچھ دینے کو آتا ہے وہ منہ لپیٹے پڑے رہتے ہیں اور وہ جو بہت کچھ لٹانے آتا ہےوہ سب کچھ لئے پھر سے لوٹ جاتا ہے، وہ جو ہر سال آتا ہےاس سال بھی قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہےآئیے اس کی دستک کی آواز کو سنیں، اس کی صدا پر لبیک کہیں،اس لئے کہ اگر ہم نے اب بھی اس کی آواز کونہ سنا اس کی پکار پر لبیک نہ کہا تو کون جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اگلے برس جب یہ ماہ مبارک آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں نہ پائے
زندگی کے کس قدر قیمتی لمحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی مبارک ساعتیں
جب ہر آن اسی کا دھیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بولنا اسی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب خاموشی بھی اسی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اضطراب میں تسکین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بے چینی میں چین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بھوک اور پیاس بھی عبادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب منہ سے اٹھنے والی بدبو مشک وعنبر سے بھی قیمتی ٹھہرے
ہاں ایسے ہی مبارک لمحات کہ سنبھلنے والے کیلئے سنبھالنے والاخود اللہ رب العزت ہو
لیکن
ایسے میں باعثِ افسوس ہے اس کیلئے جس کیلئے رمضان کا چاند کچھ بھی نہ لایا،جس کیلئے سورج کا طلوع وغروب روزانہ کی روٹین ہی رہی، جو اپنے آپ کو چرتے پھرتے جانوروں سے الگ نہ کر پایا،جو اپنے اور ان کے درمیان کوئی فرق،کوئی امتیاز نہ کر سکا، نہ جس کے دن بدلے نہ دل بدلا، اور ایسی رحمتوں کی موسلا دھار بارش میں بھی جو اپنے دامن کو بھر نہ سکا
یہ ہمارا طرزِ عمل ہے جو ہمارے اور ہماری بھلائی کے درمیان حائل ہے، یہ ہم ہی ہیں جو رحمتوں سے اپنا دامن بھر نہیں پاتے،یہ ہمارے اعمال ہیں جو ہمیں ڈبو دیتے ہیں،ہماری کشتیوں میں پڑنے والے شگاف کسی اورکی نہیں ہماری اپنی غلطی کے باعث ہیں،الہامی ہدایات کے فانوس کو خاطر میں نہ لانے پر منظر سے پسِ منظر تک بس حیرانی ہی حیرانی اور وجود سے لپٹی تنہائی ہی رہ جاتی ہے۔ اصل کامیابی ان لوگوں کیلئے ہی ہے جو ٹھٹک کر رک نہیں جاتے،اکڑ کر تن نہیں جاتے بلکہ سراج منیر کی طرف پلٹ آتے ہیں، ان کا نام کچھ بھی ہو وہ کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتے ہوں کامیابی انہیں کا مقدّر بنتی ہے
رمضان مبارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً مبارک مگر کس کیلئے
ذرا رکئے اور سوچئے ہمارا شمار کن لوگوں میں ہو رہا ہے

جمعرات، 19 جون، 2014

ایک سال بیت گیا

5 comments
دن ہفتوں ،مہینوں اور مہینوں کو سالوں میں ڈھلتے دیر ہی بھلا کتنی لگتی ہے،19 جون 2013 سے 19 جون 2014 میرے بلاگ کو ایک سال مکمل ہوا
ابھی کل ہی کی تو بات ہےدوسروں کو بلاگنگ کرتے ہر طرف بلاگنگ کا شور سنتے ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہ جائیں ،سو ہم نے بھی شغل ہی شغل میں بلاگ بنا ڈالا، بلاگ بناتے وقت یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ "گلے کا ڈھول" بھی بن جائے گا جسے "بجانا" بھی پڑے گا لیکن اب کیا کیا جائے جب "ڈھول" گلے میں لٹکا ہی لیا تو پھر شرمانا کیسا سو ہم بھی لگے رہے ڈھول بجتا رہا اور اس کی "تھاپ" پہ "بھنگڑا" ڈالنے والے امڈ امڈ کے ہماری حوصلہ افزائی کوآتے رہے۔ بھنگڑا ڈالنے والوں کو دیکھتے، دل خوشی کے مارے بلیوں اچھلتا اور ہم مست ہو کے ڈھول بجاتے چلے گئے۔
19 جون 2013 کو بلاگ بنایا 20 جون کو پہلی پوسٹ ڈالی اور پھر تو یہ سلسلہ چلتا ہی چلا گیا۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا، مطالعے کا شوق بڑھا، نئے دوست بنے ، عزت اور پہچان ملی۔
ایک سال میں ان سبھی 12583 افراد کا شکریہ جو میرے بلاگ پر تشریف لائے، ان 230محترم ہستیوں کیلئے سلامِ تشکر کہ جنہوں نے میری 38 بلاگ پوسٹس پر اپنے قیمتی کمنٹس کے ذریعے میری حوصلہ افزائی کی۔اسی دوراناردومنظر نامہنےایک بلاگر کی حیثیّت سے میرا انٹرویوشائع کیا جو بلاشبہ میرے لئے ایک اعزاز تھا۔
ایک سال پہلے بلاگ بناتے وقت یہ خیال دور دور تک بھی نہیں تھا کہ کبھی ایک سال بعد بلاگ کی سالگرہ کے حوالے سے کوئی تحریر لکھ رہا ہوں گا،ایک سال مکمل ہوا جو دل میں آیا لکھا پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی نے مزید لکھنے کا حوصلہ دیا اور آج جب ایک سال بعد یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو بلاشبہ یہ آپ کی محبّت ہی ہے جو میں اس قابل ہوا سو آپ سب کا شکریہ
 یہ "تحریر" آپ سب کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے اگلے برس بھی انشاءاللہ لکھنے اور پڑھنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا

منگل، 3 جون، 2014

پہاڑی کا چراغ

3 comments
ایک ایسے دور میں جب لوگ کہیں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کی بجائے اس کی فوٹیج بنانے، کسی ڈوبتے کو بچانے کی بجائے اس کی ویڈیو بنانے اور گرتی نعشوں کو سنبھالا دینے کی بجائے ان کی تصویریں بناتے پھرتے ہوں تو ایسے میں اگر کوئی شخص ایک بچے کو بچانےکیلئے اپنے آپ کو دریا کی موجوں کے حوالے کر دے تو یقیناً یہ بات اس پر صادق آتی ہے کہ وہ شخص تو "پہاڑی کا چراغ" ہے جو خود تو جلتا ہے اور جلتے جلتے اس کی زندگی تمام ہوجاتی ہے لیکن دوسروں کیلئے نشانِ منزل چھوڑ جاتا ہے
میں نے مظفر آباد میں دو نوجوانوں کو دریائے نیلم کی تندوتیز بپھری ہوئی موجوں میں گم ہوتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جسم میں ایک سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھلتی کودتی راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست ونابود کرتی بپھری موجیں 
اور دریائے کنہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ان دنوں اس قدر بپھرتا ہے کہ سینکڑوں جانیں اس کا لقمہ بن جاتی ہیں میں نے اس کی طغیانی بھی دیکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا سکوت بھی 
کراچی ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں وہی جو کبھی روشنیوں کا شہرتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کراچی سے تعلق رکھنے والا شاہین صفت نصراللہ شجیح جو یقیناً "پہاڑی کا چراغ" تھا جو خود تو جلتا ہے لیکن دوسروں کو راستہ دکھاتا ہے۔

ذرا دیکھئے تو کس قدر اعتماد ہے اس ماں کے لہجے میں جس نے اپنے بیٹے کو نصراللہ شجیح کے حوالے کر دیا،یقیناً وہ اسی اعتماد کے قابل تھا 
"میں ارسل کو کبھی نہ جانے دیتی میں نے تو کبھی اسے گھر سے مارکیٹ تک نہیں بھیجا تھا تو اتنی دور ٹور پر کیسے جانے دیتی مگر جب اس نے آکر بتایا ماما ہمارے ساتھ سر نصراللہ جارہے ہیں تو میں ایک لمحہ کو بھی انکار نہ کرپائی کہ اب انکار کوئی جواز ہی نهیں بچا تھا وہ جو ایک باپ سے زیادہ حفاظت کرنے والے وہ جو بچوں پر شیر کی سی نگاہ رکھنےکے باوجود ان کے لیے سراپا محبت تھے اب میں بھلا کیسے انکار کرتی اور ارسل کے جانے تیاری کرنے لگی ۔۔۔ میں اکثر ارسل کی شرارتوں پر اسے دھمکی دیتی کہ کل ہی میں آتی ہوں اسکول شجیع بھائی کو بتاتی ہوں اور ارسل وہیں ایک دم ڈھیر ہوجاتا مما نہیں بس سر نصراللہ کو نہیں بس انکو نہیں شکایت کیجیے گا مما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ !!
جانے والا اپنے پیچھے کیسی یادیں چھوڑ گیا 
لیکن وہ گیا ہی کب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا
کہ وہ جو یادوں میں بس جاتے ہیں
کب جاتے ہیں
ہر آن ہمارے درمیان موجود
اسی طرح مصروفِ عمل
وہی پہلے کی طرح بھلائیاں بانٹتے ہوئے
ہم ان سے راہنمائی پاتے ہیں
ہم ان کی باتیں سنتے ہیں
انہی کی باتیں کرتے ہیں
ان کا زندگی بھر کا کام ہمیں زندگی بھر یاد دلاتا ہے کہ 
زندگی تو اسے کہتے ہیں
دنیا انہیں نگاہوں سے اوجھل پاتی ہے
لیکن
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں
ہمارے دکھ سکھ میں شریک
ہم تو ان کی ایک مسکراہٹ نہیں بھول سکتے
زندگی بھر کا احسان کیسے بھلایا جا سکتا ہے
وہ جو اپنا سب کچھ ہمیں سونپ گئے
اور پھر بھی خالی ہاتھ نہیں
ان کا زادِ راہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا اثاثہ
ہمسفری کی یہ جانی پہچانی روایت
قافلہ چل رہا ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے
کہ کسی کا سنگِ میل  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کسی کی منزل 

منگل، 27 مئی، 2014

دوتصویریں معاشرے کے البم سے

7 comments
پینٹ شرٹ میں ملبوس،آنکھوں پر Ray-ban کا چشمہ لگائے،کلین شیو، 50 کے پیٹے کا وہ آدمی میرے کلینک میں داخل ہوا تو پہلی نظر دیکھنے میں لبرل قسم کا آدمی لگا۔ یہ میری اور اس کی پہلی ملاقات تھی دو دن پہلے ہی میں نے اسے فون کیا تھا اس نے میری میز پر 50000 روپے رکھے اور بتایا یہ عشر کی رقم ہے میں نے "پھلائی" کچھ درخت
بیچےتوسوچااس کا عشر آپ کودےآؤں.میں(کہ جو"داڑھی" رکھ کر اپنے آپ کو بہت دین دارسمجھنے لگ گیا تھا)حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا، میری حیرانگی کو بھانپتے ہوئے کہنے لگےدرخت بھی زمین سے حاصل ہونے والی فصل ہی کی تو مانند ہوتے ہیں ناں اس لئے اس فصل پر بھی عشر لاگو ہوتا ہے اس لئے میری اس فصل کا عشر50000روپے بنتا ہے جو آپ "آغوش" کیلئے رکھ لیں میں نے ان کے نام کی رسید کاٹی اور ان کے حوالے کر کے شکریہ اداکیا تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی
ڈاکٹر صاحب شکریہ کیسا یہ تو ایک فرض تھا جو ادا کیا گیا
شکریہ تو آپ کا جو ہمیں اس فرض کی ادائیگی کا موقع فراہم کرتے ہیں
اوروہ جانے کیلئے کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اوراپنے لئے بے پناہ احترام چھوڑ گئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حاجی صاحب اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایک طویل عرصے سے میرے پاس علاج معالجے کیلئے تشریف لاتے ہیں علاقے کے ایک بڑے زمیندار ہیں،میں نے سوال کیا کتنی گدم ہو جاتی ہو گی آپ کی فرمانے لگے کوئی دو ہزار بوری سے تو زائد ہی ہو جاتی ہوگی، میں نے عشر کے حوالے سے ایک بروشر ان کے پوتے کے ذریعے ان تک پہنچایا اور کچھ فیڈ بیک کیلئے ان سے رابطہ کیا تو فرمانے لگے جی ایک بیگ تو ہم پہلے ہی بھجوا چکے ہیں چلیں دیکھتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ آپ کیلئے بھی کوئی گنجائش نکل آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کہاں تو درختوں کی پیداوار پر بھی عشر کی رقم اٹھائے مستحق تلاش کرتے لوگ اور کہاں دوہزار بوری سے زائد گندم پر بھی عشر کی ادائیگی میں پس وپیش
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ ہی عرصہ بعد مجھے ایک  نواحی دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا تو جنگل میں منگل کا سماں دیکھا دور تک پھیلی ہوئی چار دیواری کے ساتھ ساتھ میری گاڑی دیر تک محوِ سفر رہی پوچھنے پر معلوم ہوا یہ انہیں خان صاحب کی ملکیّتی زمین ہے جو میرے پاس کچھ عرصہ پہلے عشر کی رقم لے کے آئے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور آج جب میں نے حاجی صاحب سے ان کی فصلوں کی صورتحال کی بابت پوچھا تو فرمانے لگے بس جی ڈاکٹر صاحب اب کی بار تو حالات بہت خراب ہو گئے بارشوں سے کٹائی شدہ گندم تباہ ہوگئی بھوسہ سیاہ ہو گیا اور مشکل ہے کہ اخراجات بھی پورے ہو پائیں
بے شک سچ فرمایا اللہ رب العزت نے کہ
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے7 بالیں نکلیں اور ہر بال میں 100دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی سورہ بقرہ آیت261

اتوار، 11 مئی، 2014

مبارکباد یا تعزیت

12 comments

موبائل کی مسلسل "ٹنٹناتی" ہوئی میسج ٹون نے مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیا تھا دیکھا تو رات کے سوا بارہ بج رہے تھے اور موبائل کی سکرین پر ایک سو سے زائد پیغامات اپنی آمد کا اعلان کر رہے تھے ان باکس کھولا تو معلوم ہوا آج میں اپنی عمرِ عزیز کے 39 سال پورے کر چکا ہوں مدّت سے سالگرہ منانا ہمارے معاشرے کی ایک اہم رسم بنتی جا رہی ہے، ذاتی طور پرمیں نے کبھی زندگی میں سالگرہ نہیں منائی نہ کبھی اس دن کو کوئی خاص ایکٹیویٹی پیشِ نظر رہی۔ میری تاریخ پیدائش11 مئی1975ہے۔ پوری زندگی میں ہر سال یہ دن آتا اور گزر جاتا، جس طرح سال کے باقی تمام ایام گزرتے ہیں نہ کبھی یہ خیال گزرا کہ سالگرہ کا دن آیا ہے ، نہ کبھی کسی نے یاد دہانی کرائی پہلی بار شاید میری بیگم نے مجھے شادی سے پہلے" سالگرہ مبارک" کا کارڈ بھیجا تھا لیکن اب توسالگرہ منانا  معاشرے میں ایک وائرس کی طرح پھیل گیا ہے آج   جب میری عمر39 برس ہو چلی تو کل سے دوستوں نے پیار بھرے پیغامات کا ڈھیر لگا دیا ہے کہ "مبارک ہو" میرے دوست احباب نے جس محبت و اپنائیت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیاوہ بلاشبہ باعث تشکر ہے،
صاحبو۔۔۔۔۔۔۔!!!!! ایک چھوٹا بچہ جب ایک سال یا دو سال کا ہوتا ہے تو فطری طور پر والدین کو ایک حسین سا احساس ہوتا ہے کہ نرم و نازک کلی، جس کے مرجھا جانے کے سو خطرات تھے، ایک پھول بن کر بہار دکھلا رہی ہے، تاہم اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ سرمایہءحیات جو ایک برف کی سِل کے مترادف ہے۔ مسلسل گھلتا اور پگھلتا چلا جا رہا ہے۔ ہر گھڑی منادی ہو جاتی ہے کہ مہلت عمل گھٹ رہی ہے بقولَ شاعر
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
 ذاتی طور پر کبھی سالگرہ منائی اور نہ ہی منانا پسند کی ،اسکی شرعی حیثیت پرتو اہلِ علم ہی زیادہ بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں،بہرحال زمانے کا چلن جو بن جاتا ہے، اچھے ، بُرے سبھی لوگ اس کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ یہی ہوتی ہے تہذیبی یلغار! سکولوں میں بچے اور بچیاں دیکھتے ہیں کہ ان کے دوست اور سہیلیاں برتھ ڈے مناتے ہیں تو اس دن کو نہ منانا وہ اپنی سُبکی سمجھتے ہیں اور اگر والدین اس رسم کے عادی نہیں ہوتے تو عموماً ان کے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ چلتی ہوا کے رُخ پر وہ بھی چلیں۔ ہاں وہ بچے جن کی اٹھان ہی اسلامی تہذیب کے اندر ہوئی ہو، گھر کے ماحول میں اسلامی طرزِ زندگی اور قرآن و سنت کی معاشرت کا چرچا ہو، صحابہؓ و صحابیاتؓ اور سلف صالحین کے واقعات سے نو خیز کلیوں اور غنچوں کو سیراب کیا جاتا رہے تو وہ کبھی احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وہ وقت کے دھاروں کے ساتھ بہہ جانے کی بجائے اپنے اندر وقت کا دھارا موڑ دینے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں، ہماری قومی تاریخ میں کسی عظیم شخصیت نے نہ سالگرہ منائی، نہ اسے ایک تقریب بنایا، کیک کاٹنا اور دیگر سارے نخرے مغربی تہذیب کی نقالی سے زیادہ کچھ نہیں کہ سالگرہ کی خوشی منائی جاتی ہے، چراغاں، رنگارنگ تقریبات اور بے شمار لغویات اس کے لازمی حصے ہوتے ہیںمغرب سے جہاں بہت سی فضولیات ہم نے وصولی سالگرہ انہی میں سے ایک ہے،بہرحال اب ہم "مومن" تو ہیں نہیں کہ ہر وقت"موت" کو یاد کرتے پھریں ،منافق ہیں اس لئے سال گرتے اور دوستوں کے پیغامات یاد دلاتے ہیں "موت" کی منزل مزید قریب ہوئی ،ہم جیسوں کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی لیکن "سود وزیاں" پر غور کرنے کا موقع مل جاتا ہے ،اپنے حالات پر غور کرو تو دین کے رہے نہ دنیا  کے ،دنیا منہ سے چھوٹی نہیں اور جنّت کے "خواب" دن میں بھی دیکھتے پھرتےہیں ،سو ایسے کسی بھی موقع پر یاد دہانی سے کم از کم "گریبان" میں جھانکنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے ،تو انکا شکریہ جنہوں نے دعاؤں میں یاد رکھا نیک تمنائیں دیں!!!!!!!
اور ان کا بھی " شکریہ" جو اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد نیک تمناؤں کا اظہار کریں گے !!!!! 
اور آخر میں بس ایک بات کہیہ زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ ایک سال گزرنے پر معلوم نہیں، ہم مبارکباد کے مستحق ہوتے ہیں یا تعزیت کے! اس کا حساب تو ہر شخص خود ہی کر سکتا ہے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟

منگل، 6 مئی، 2014

کیسا مسیحا

9 comments
وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھی زاروقطار روتے ہوئے ڈاکٹر کو بددعائیں دئیے جارہی تھی اس کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ساری طفل تسلیاں بے کار تھیں ساتھ آنے والی خاتون الگ سے پریشان تھی۔
چند دن پہلے ہی وہ خاتون میرے پاس گردے میں اٹھنے والے شدید درد کی دوا لینے آئی تھی دوا دینے سے درد تو وقتی طور پر ٹھیک ہو گیا لیکن مرض کی بہتر تشخیص کیلئے میں نے اسے چند ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا کیونکہ اس کے بقول یہ درد اس سے پہلے بھی اکثر بہت شدّت کے ساتھ ہوتا رہا تھا اور دس سال قبل تو ایک نیفرالوجسٹ کے مشورے پر ایک گردے میں پتھری کا آپریشن بھی کروا چکی تھی، اس لئے میں نے اسے Sonography اور KUB X.Ray کیلئے ایک اچھی شہرت کے حامل ڈائگنوسٹک سنٹر ریفر کر دیا۔دوسرے ہی دن مریضہ نے فون کرکے آنے کا وقت طے کر لیا۔اس کی رپورٹس میرے سامنے رکھی تھیں دائیں گردے میں پتھری کی نشاندہی کی گئی تھی

لیکن ساتھ ہی ایک عجیب بات تھی اس رپورٹ میں
Left Kidney absent

ڈائیگنوسٹک سنٹر کال کرکے متعلقہ سونالوجسٹ سے بات کرنے پر معلوم ہواکہ اس خاتون کا ایک گردہ آپریشن کے ذریعے نکال دیا گیا ہے، جب میں نے اس خاتون سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹرنے یہی کہا تھا کہ گردے میں پتھری بن گئی ہے اور اس کا حل آپریشن کے سوا کچھ بھی نہیں اس نے ہمیں پتھری کے بارے میں اتنا خوفزدہ کیا کہ ہم مجبوراً آپریشن پر تیار ہوگئے


اور اس نے آپریشن کے بعد گردے سے نکلنے والی بتھری بھی ہمیں دکھائی


لیکن جب میں نے اسے بتایا کہ ڈاکٹر نے بذریعہ آپریشن پتھری نکالنے کی بجائے تمہارا گردہ ہی نکال دیا ہے تو اس نے زاروقطار رونا شروع کر دیا
 خاتون رو رہی تھی اور اس ڈاکٹر کو بددعائیں دے رہی تھی کہ میں نے اسے کسی وکیل سے مشورے کے بعداس ڈاکٹرکے خلاف مقدمہ کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ کچھ عرصہ قبل ہی ٹریفک کے ایک حادثے میں اس ڈاکٹرکی گاڑی کو آگ لگ گئی اور جل کر راکھ ہوگیا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس ڈاکٹر نے متعدد مریضوں کی پتھری کو آپریشن کے ذریعے نکالنے کے بہانے ان کا ایک گردہ نکال لیا۔
اپنی عارضی خوشیوں کیلئے لوگوں کی زندگیوں کو جہنّم بنا دینے والا ناجائز طور پر کمائی جانے والی اپنی ساری دولت دنیا میں ہی چھوڑ کر اس دنیا میں ہی جہنم واصل ہو گیا

منگل، 29 اپریل، 2014

بے حسی موت ہے بیدار زمانے کیلئے

4 comments


اس تصویر کی کاٹ کتنی گہری ہے ایک بوڑھی خاتون اپنے بچوں کے باپ کیلئے دربدر کی ٹھوکریں  کھا رہی ہے یہی نہیں بلکہ وہ گمشدہ افراد  کے لواحقین کیلئے ایک سہارا اور ان  کیلئے اٹھنے والی ایک توانا آواز بھی ہے۔ دکھوں اور تکالیف کی ماری اس کمزورخاتون کی آواز سے خوفزدہ حکمران یہ بات نہیں جانتے کہ مظلوم کی آہ اور رب کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا
آمنہ مسعود جنجوعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کبھی اس سے ملا نہیں، میں نے کبھی اس سے دیکھا نہیں، شاید ایک آدھ بار کبھی اس سے فون پر بات ہوئی  تھی، غیر قانونی طورپر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہو جانے والے افراد کیلئے، اپنا دکھ بھلائے دوسروں کیلئے انصاف کے حصول کیلئے کوشاں، گلی گلی ،شہر شہر ان کیلئے آواز بلند کرتی پھرتی ہے ، اسلام آباد کے مضبوط قلعوں میں بلند حکمران اس کمزور سی خاتون کی آواز اور جدوجہد سے اس قدر پریشان ہیں کہ اسلام آباد کی فضاؤں نے کل وہ منظر دیکھا کہ ہر دردِدل رکھنے والا شخص اپنے دل میں ایک چبھن محسوس کئے بغیر  نہ رہ سکا،آمنہ مسعود جنجوعہ  اور اس کے ساتھیوں پر تشدد کی انتہا کر دی گئی، لاٹھیوں اور مکوں  سے زدو کوب کرتے ہوئے انہیں سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا ،تف ہے ایسے حکمرانوں اور ان کے چیلوں چانٹوں پر جو اپنے حقوق کیلئے اٹھنے والی ایک کمزور آواز بھی برداشت نہیں کر سکتے
ظلم وتشدّد اور اس کمزور خاتون کو اٹھا کر پولیس گاڑی میں ڈالنے کی تصویریں دیکھ کر مجھے تاریخ کے جھروکوں سے ایک حکمران یاد آرہا ہے، عین حالت جنگ میں جب ہر روز سینکڑوں شہ سوار موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور ہر لشکر اپنی فتح کیلئے دوسرے کو تہ تیغ کر دینے کیلئے کمر بستہ تھا۔ایک عیسائی عورت روتی پیٹتی ہوئی سلطان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے کہ جنگ زدہ ماحول اور دھول اڑاتے لشکروں کے درمیان اس کا لخت جگر کہیں کھو گیا ہے۔یہ بات بجا کی فریاد کرنے والی دشمن قوم سے تعلق رکھتی تھی لیکن وہ ایک ماں تھی اور یہ فرزند ہی اس کی کل متاع تھی۔
سبز آنکھوں والے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ اردگرد کی تمام آبادیوں کا احاطہ کرلیا جائے اور اس عورت کا بچہ تلاش کر کے لایا جائے۔
اور پھر ۔۔۔۔
ابھی ایک پہر بھی نہیں گزرا تھا کہ مغرب سے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہونے والوں میں شامل اس خاتون کا لخت جگر تلاش کر لیا گیا،وہ خوشی سے دیوانہ وار آگے بڑھی اور سلطان کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔
نہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان کی آواز فضاء میں گونجی  
یہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا گیا۔اب تم اپنے لوگوں میں واپس لوٹ جاؤ۔
وہ عظیم الشان حکمران جسے دنیا  "سلطان صلاح الدین ایوبیؒ " کے نام سے جانتی ہے یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ
"معاشرے امن وانصاف میں زندہ رہتے ہیں ،ناانصافی اور بدامنی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے"

ہے کوئی ایسا شخص جو ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ بات بتا دے۔
زندگی نام ہے احساس کی بیداری کا 
بے حسی موت ہے بیدار زمانے کیلئے

جمعہ، 25 اپریل، 2014

صدقہ جاریہ

11 comments
 مدینہ منوّرہ کی میونسپلٹی میں یہ باغ حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پررجسٹرڈ ہے یہی نہیں بلکہ مدینہ منوّرہ کےایک بنک میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پرباقاعدہ ایک کرنٹ بنک اکاؤنٹ بھی موجود ہے جس اکاؤنٹ میں اس باغ کی آمدن جمع ہوتی ہے اوریہ بات جان کربھی آپ حیران ہوں گےکہ حضرت عثمان بن عفانؓ کےنام پرآج بھی پانی اوربجلی کابل آتاہے۔آج ساڑھے چودہ سوسال کاعرصہ گزرنےکے بعد بھی حضرت عثمان بن عفانؓ کا نام مدینہ کی فضاؤں ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں روشن ہے
آئیے تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں.مدینہ کی اس بستی میں پینے کا پانی نایاب ہے لے دے کےمحض ایک ہی میٹھےپانی کا کنواں ہےجوایک یہودی کی ملکیّت ہےجہاںوہ اپنی من مانی قیمت پر پانی فروخت کرتاہے،مسلمانوں کی اس تکلیف کی خبر نبی مہربان ﷺ تک پہنچتی ہے۔تو آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کون ہے جو اس کنویں کو خرید کر اللہ کیلئے وقف کردے جس کے بدلے میں اللہ تعالٰی اسےجنّت میں ایک چشمہ عطا کرے گا,یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن عفانؓ اس یہودی کے پاس پہنچتے ہیں اوراس کنویں کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں،کنواں چونکہ منافع بخش آمدن کا ذریعہ تھا اس لئے یہودی اسے فروخت کرنے سے انکار کردیتا ہے،اب جنابِ عثمانؓ ایک اور تدبیر کرتے ہیں کہ اچھا پورا کنواں نہ سہی تو آدھا ہی میرے ہاتھ فروخت کر دو،ایک دن کا پانی تمہارا ہو گا ایک دن کا میرا،یہ سن کے یہودی اپنی فطری لالچ کے ہوتھوں مجبور ہوجاتا ہےاورسوچتا ہےکہ شاید عثمانؓ اپنی رقم کو پوراکرنےاورزیادہ منافع کمانے کے لالچ میں پانی مہنگا فروخت کریں گے اور یوں میرے گاہکوں میں کوئی کمی نہ آئے گی اور اس طرح مزید منافع کمانے کا موقع میسّر آئے گا، آدھا کنواں حضرت عثمانؓ کےہاتھوں فروخت کردیا۔حضرت عثمانؓ نے اپنی باری کے دن مسلمانوں کیلئے مفت پانی کے حصول کا اعلان کردیا تولوگ انؓ کی باری کے روز اگلے دن کیلئے بھی پانی ذخیرہ کر لیتے اور یوں یہودی اپنی باری کے روز منہ دیکھتا رہ جاتا اور کوئی گاہک اس کے کنویں کا رخ نہ کرتابس اسی بناء پر کنویں کا باقی حصّہ بھی حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں فروخت کردیااس دوران ایک آدمی نے آپؓ سے تین گنا منافع پر یہ کنواں خریدنا چاہا تو آپؓ نے فرمایامجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیشکش ہے اس آدمی نے کہا میں چار گنا منافع دوں گاتو آپؓ نے فرمایا مجھے اس سے بھی زیادہ کی پیشکش ہے تو اس آدمی نے کہا آخر وہ کون ہے جو تمہیں اس سے زیادہ دے گا تو آپؓ نے فرمایا میرا رب جو مجھے ایک نیکی پر دس گنااجر دینے کی پیشکش کرتا ہے۔وقت تیز رفتاری سے اپنی منازل طے کرتا رہا اور مسلمان اس کنویں سے اپنی پیاس بجھاتے رہے سیّدنا عثمانؓ کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں،کنویں کے گراگرد کھجوروں کا ایک باغ بن گیا،مدینہ میں عثمانی سلطنت قائم ہوئی تو اس باغ کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوئی اور یہ باغ پھلنے پھولنے لگا،بعد ازاں سعودی حکومت کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد1550ہوگئی،مدینہ کی میونسپلٹی میں یہ باغ بعد ازاں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر رجسٹرڈ ہوا،سعودی وزارتِ زراعت یہاں کی کھجور مارکیٹ میں فروخت کرتی اور اس باغ کی آمدن کو حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پربنک میں جمع کرتی ہے اور اس کا ایک حصّہ غرباء اور مساکین میں تقسیم ہوتا ہے، اب اس اکاؤنٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ خرید لیا گیا جہاں "فندق عثمان بن عفانؓ" کے نام سے ایک ہوٹل کی تعمیرکا منصوبہ بنایا گیاجس کی سالانہ50ملین ریال آمدن متوقع تھی جس کا آدھا حصّہ غرباء اور مساکین میں تقسیم ہوتا لیکن حرم کی توسیع کے منصوبہ کے پیشِ نظر جہاں دیگر تعمیراتی کام روک دئے گئے ہیں وہیں اس ہوٹل کی تعمیر بھی روک دی گئی۔
بے شک سچ فرمایا اللہ رب العزت نے کہ
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالے نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، بڑھا دیتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ہے۔(سورۃالبقرہ۔آیۃ 261)
اللہ تعالٰی حضرت عثمان بن عفانؓ کی قبر کو نور سے منوّر کر دے کہ ان کی قربانی کو اس اندازمیں برکت عطا کی گئی قیامت تک کیلئے ان کیلئے صدقہ جاریہ کا انتظام ہو گیا
برادرِبزرگ ابو احمد مدنی حاجی محمد اقبال مغل کی وساطت سےچند اشعار حضرت عثمان بن عفانؓ کی نذر
اللہ غنی حد نہیں انعام و عطا کی 

وہ فیض پہ دربار ہے عُثمان غنیکا
جو دل کو ضیاء دے جو مقدرکوجلاء دے

وہ جلوہ دیدار ہے عثمان غنی کا
جس آئینہ میں نوُر الہی نظر آئے

وہ آئینہ رُخسار ہے عُثمان غنی کا

ہفتہ، 19 اپریل، 2014

لکھ پتی بھکاری

4 comments
میں نے پانچ لاکھ روپے اکٹھے کرکے بابا کو دئیے کہ کہیں کوئی سر چھپانے کی جگہ کوئی گھر بنانے کا سامان کرولیکن بابا نے گھر بنانے کی بجائے اپنا گھر بسا لیا ............... شاہ صاحب اپنی بات کہ رہے تھے اور میں حیران ہوا جا رہا تھا
شاہ جی میرے پرانے مریض ہیں، بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ میں ان کا فیملی ڈاکٹر ہوں اوراب تو یہ رشتہ دوستی میں ڈھل چکا ہے،اگرچہ "پیر"ہیں لیکن پیروں جیسا مزاج نہیں رکھتے بہت "کھلے ڈلّے" آدمی ہیں۔آج سہ پہر جب وہ بیٹے کی میڈیسن لینے میرے پاس آئے بیٹھے تھے کہ اسی اثناء میں ایک مانگنے والا ہاتھ پھیلائے آپہنچامیں نے اس سے جان چھڑانے کےلئے اس کے پھیلے ہاتھ پر ریزگاری رکھ دی۔

 شاہ جی کہنے لگے ان لوگوں کو تو بالکل بھی کچھ دینا نہیں چاہئے، جب میں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے ایسے لوگ حقداروں کا حق مارتے ہیں۔ پھر خود ہی اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ سنایا کہتے ہیں ایک مانگنے والا اکثر میرے گھر کے باہر صدا لگایا کرتا تھا اور میں اسے کچھ نہ کچھ دے دیتا کہ غریب آدمی ہے دعا کرے گا ایک عرصہ بیت گیا اور اس سے میری دوستی ہو گئی ایک دن میں نے باتوں ہی باتوں میں میں نے اس سے سوال کیا کہ تم جوان آدمی ہو کوئی محنت مزدوری کرو اور جھگیوں میں رہنے کی بجائے کہیں اپنا گھر بناؤ اور عزت کی زندگی بسر کرو کہنے لگا شاہ جی میں نے پانچ لاکھ روپے اکٹھے کرکے بابا کو دئیے کہ کہیں کوئی سر چھپانے کی جگہ کوئی گھر بنانے کا سامان کرولیکن بابا نے گھر بنانے کی بجائے اپنا گھر بسا لیا اور پڑوس کے جھگی نشینوں کی لڑکی بھگا لے گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹّا کٹّا شخص ہاتھوں میں ڈنڈا اٹھائے کلینک میں داخل ہوا اور اپنا کشکول آگے بڑھا دیا، جوان آدمی ہو تم کوئی محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
صاحب کوئی کام نہیں ملتا اورکوئی بھی مجھے کام پر رکھتا ہی نہیں،
اگر کوئی کام ملے تو کرو گے
ملے گا تو کیوں نہیں کروں گا جی

اچھا ٹھیک ہے پھرکل آجاؤ،گاؤں میں ہماراایک رہٹ ہے بس وہاں پربیٹھ کر ڈیوٹی کرنی ہے کہ بیل چلتا رہے تاکہ کھیتوں کو مسلسل پانی کی فراہمی میں کوئی کمی نہ آنے پائے
کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی یہ کام تو مجھ سے نہ ہو سکے گا
اچھا توآئندہ یہاں نظر آئے ناں تو پھر تمہاری خیر نہیں
ایک طویل عرصہ بعد جب میں نے کلینک شفٹ کیا تو ابھی صبح صبح کلینک کھولا ہی تھا کہ جانی پہچانی آواز ابھری "اللہ پاک کرم کرے جی" ،،،،،،،،،،،،،،،
اوئے تو پھر آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا تے ڈاکٹر صاحب تسی اتھے آگئے او(اچھا تو ڈاکٹر صاحب آپ یہاں آگئے ہیں) 
اور پھر میں یہ سن کر تو حیران ہی رہ گیا کہ وہ اب دو ٹرکوں کا مالک ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 1 اپریل، 2014

قائد ایسے ہوتے ہیں

7 comments
میں مسجد کی پہلی صف میں موجود تھا جب میں نے نماز پڑھتے ہوئے سادہ لباس میں ملبوس درویش صفت اس شخص کی جیب سے گرنے والے "ڈالر" کے اس "قلم" کو دیکھا جس کے ساتھ لکھنا ہم بھی معیوب سمجھتے ہیں کہ لکھا ہی جائے تو "پارکر" کے قلم سے،کہاں ایک صوبے کا سینئر وزیر اور اس کی سادگی کا یہ عالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اسے سلامت رکھے 
سراج الحق یقیناً آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی قرونِ اولٰی کی یاد تازہ کئے ہوئےہیں
میں میٹرک کا طالب علم تھا جب اس سے پہلی بار میری ملاقات ہوئی، سرخ وسفید چہرہ "گلابی اردو" لیکن اسے دیکھتے ہی نوجوانوں کے والہانہ نعرے 
ہمّت والا،جرات والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناظمِ اعلٰی ناظم اعلٰی
اس سے ان کی محبت کا پتہ دے رہے تھے پھر بارہا اس سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا، اور آج وہ جب خیبر پختونخواہ کا سینئر وزیر ہے اس کی سیاہ داڑھی سفید ہو کر بزرگوں کی صف میں داخل ہوجانے کا اعلان کر رہی ہے تو اس سے ملتے ہوئے ایک بار پھر وہی 23 سال پہلےکا منظر میری نگاہوں میں گھوم گیا،وہی23 سال پہلے والا سراج الحق
فرق تھا تو اتنا کہ اب اس کی اردو اتنی "گلابی" نہ تھی جتنی 23 برس پہلے تھی۔
اور وہ منظر تھا 23 برس پہلے کاجامعہ پنجاب کا یونیورسٹی گراؤنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی جمعیّت طلبہ پاکستان کا اجتماعِ عام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس اجتماع کا آخری روز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ارکان جمعیّت نے اپنے تنظیمی دستور کے مطابق اگلے پانچ برسوں کیلئے سراج الحق کو ناظمِ اعلٰی منتخب کیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنسوؤں میں بھیگا چہرہ، سسکیاں اور آہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذمّہ داری کا بوجھ نہ اٹھا سکنے کا خوف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنسوؤں سے بوجھل آواز میں کارکنان سے مخاطب ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ شخص کیا بات کرے جسے الٹی چھری سے ذبح کر دیا گیا ہو،اور پھر سراج الحق کی قیادت میں اسلامی جمعیّت طلبہ کا قافلہءِ سخت جاں اپنی منزل کی جانب بڑھتا چلا گیا

اور آج 23 برس بعد ایک بار پھر میرا ناظمِ اعلٰی جماعت اسلامی کی امارت کی بھاری ذمہ داری کا اہل ٹھہرا ہے، بتانے والے بتاتے ہیں کہ جب جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سیّد منوّر حسن نے اسے نئی ذمہ داریوں کی خبر دی تووہ ایک بار ھر زارو قظار رو دیا اور اس کے آنسوتھے کہ تھمنے کو نہیں آرہے تھے، اور بار بار یہ الفاظ دہرا رہا تھا کہ
"اتنی بڑی ذمہ داری کیسے اٹھاؤں گا"
اللہ تعالٰی سراج الحق کو استقامت دے کہ ایسے ہی درویش صفت قائدین کی قیادت میں ہی اسلامی تحریکیں اپنے منزل کی طرف گامزن اور انقلاب کی نوید بنا کرتی  ہیں

................................................................................

................................................................................
.