منگل، 21 جنوری، 2014

ایک ٹکٹ میں دو مزے

7 comments
میں نے فیس بک کا ستعمال اس وقت شروع کیا جب پاکستان میں ابھی براڈ بینڈ کا نام و نشان تک نہ تھا اور بات ابھی  56k موڈیم سے کچھ آگے نکل کروی فون تک ہی پہنچی تھی ملکوں ملکوں کے لوگوں کو اپنی فرینڈز لسٹ میں شامل کرتا گیا۔ اس لسٹ میں جاننے والے بھی تھے اور نہ جاننے والے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عموماً ایسا ہوتا کہ میں آنے والی ہر فرینڈ ریکوسٹ قبول کئے جاتا اور پھر ایک وقت آیا کہ میلز کے ساتھ ساتھ فیمیلز کی ریکوسٹ بھی آنے لگیں اور ہم انہیں بھی " قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے " کہہ کر قبول کرتے چلے گئے۔


اور ابھی کچھ عرصے سے چہرے پر "چیری بلاسم " کا میک اپ کئے "رنگ برنگی" غیر ملکی خواتین کے Love Letters بھی آنا شروع ہو گئے ہیں کہ جی میں نے آپ کی پروفائل کو دیکھا اور آپ تو مجھے بہت ہی اچھے لگے اور مجھے بے اختیار آپ سے "پیار" ہو گیا ۔Lolllllllllllllllllzzzzzzzzzzzzzzzz

لیکن ساتھ میں ہم سے پیار کرنے والی یہ "بیبیاں" یہ بھی کہتی ہیں کہ فیس بک پر تو دوستی کرنی نہیں اس لئے آپ ایسا کریں کہ فٹا فٹ ہمیں پرائیویٹ ای میل کر دیں تاکہ ہم آپ کو اپنے بارے میں بتا سکیں اور آپ تک اپنی تازہ ترین تصاویر بھجوا سکیں۔ اب پتہ نہیں یہ "چیری بلاسم" کی طرح لش پش کرتی "زنانیاں" ہماری کس خوبی کی بناء پر ہم پر عاشق ہو گئیں۔ ان کی "شکل مبارک" پر ایک بار تو نظر پڑتے ہی جھٹ سے "فٹے منہ" کہنے کو دل کرتا ہے لیکن دل پر جبر کرکے بلکہ ان کی "دولت" کے ہاتھوں مجبور ہو کے اور کسی Exclusive کے چکر میں ہم نے ایک میل آئی ڈی بنا ڈالی اور ان سب کو ایک ایک میل ارسال کردی جس کا دوسرے ہی دن جواب موصول ہو گیا۔ اب معلوم ہوا کہ یہ سب کی سب "بیچاریاں"کوئی تو کسی افریقی ملک کے وزیر کی بیٹی ہے اور کوئی کسی بڑے بزنس مین کی اور باپ کی وفات کے بعد وہاں کے مخدوش حالات کے پیشِ نظر کوئی تو کنیڈا میں مقیم ہےاور کوئی یو۔کے میں اور ہر ایک اپنے آپ کو اپنے باپ کی دولت کی" واحد وارث " اور کسی ایسے شخص کی متلاشی ہے جو انہیں "سچا "پیار دے سکے۔ اور اس بھری پری دنیا میں، میں ہی ایک واحد شخص انہیں ایسا نظر آیا ہوں کہ جس پر وہ اعتماد کر کے اپنی آدھی دولت میرے نام کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔ سو دوستو میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ "ان" مظلوم خواتین کی آواز پر "لبیک" کہوں اور کسی ایک آدھ سے "ویاہ" رچا کے کنیڈین شہریّت کے مزے لوٹوں پیچھے بچ جانے"والیوں" کے معاملے میں یقیناً آپ جیسا کوئی "صاحبِ دل" ضرور غور کرے اور ایک "ٹکٹ" میں "دو مزے" لینے کو تیار ہو جائے۔
"ویاہ دا ویاہ تے موجاں دیاں موجاں"

منگل، 14 جنوری، 2014

کاش کوئی انہیں بتاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

7 comments

میلاد کے جلوس میں تھوڑی دیر کیلئے شریک ہونے کا موقع ملا
اور پھر مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا
نماز کے فوراً بعد جب دوبارہ وہاں حاضری ہوئی تو دیکھا کچھ لوگ تو نماز کی ادئیگی کیلئے چلے گئے 
لیکن
۔
۔
۔
 نوجوانوں کی ایک بڑی تعدا ادھر ادھر گھومتی نظر آئی :(
ایک نوجوان سے جب میں نے نماز کا پوچھا تو کہنے لگا وہ جی ہم نے تو صبح ہی پڑھ لی تھی :(
کاش میری امّت کے ان نوجوانوں کو کوئی یہ بھی بتاتا کہ یہ نعتیں پڑھنا، نبی کریم ﷺ سے عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنا اور ان کی غلامی کے نعرے لگانا
نبی اکرمﷺ کی آمد کا مقصد ہر گز نہ تھا
بلکہ اللہ کے رسولﷺ تو جو دین لے کر آئے وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے 
اور 
رہی نماز 
تو وہ تو دین کا بنیادی ستون ہے
اور جو کفر او ر اسلام کے درمیان اتیاز کرنے والی ہے
سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’کفر اور اسلام میں حد فاصل (نماز) ہے۔‘‘لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور اپنے کریم رب کو راضی کرلیں۔ پھر زندگی میں خوشیاں اور سکون نصیب ہوگا، رحمت خداوندی کی برسات ہوگی، روح کو تسکین ملے گی، تفکرات اور آلام کو دور کردیا جائے گا اور اُخروی زندگی میں بھی قرار نصیب ہوگا۔نماز عملی عبادات میں سرفہرست ہے جو بظاہر ایک عمل ہے مگر حقیقتاً نماز میں ہی پورا دین سمٹا ہوا ہے۔دوسرے لفظوں میں نماز دین کی اصل و اساس ہے، اور جس نبی ﷺ کی مدحت میں سارادن یہ نوجوان گلیوں میں پھرتے ہوئے نعتیں پڑھتے رہے انہی  حضور اقدس ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’اﷲ جل شانہ نے میری امت پر نماز فرض کی ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا ہی سوال ہوگا۔‘‘ 
کاش کوئی ان نوجوانوں کو یہ بھی بتاتا کہ نماز تو دین کاوہ ستون ہے کہ جس پر اسلام کی مضبوط عمارت کھڑی ہے



ہفتہ، 4 جنوری، 2014

میرے راہنماﷺتیرا شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8 comments

ربیع الاوّل کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف درودوسلام کی بہار آجاتی ہے، کہیں سیرت کے جلسے منعقد ہو تے ہیں تو کہیں محافلِ نعت کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اور پھر ربیع الاوّل کے رخصت ہونے کے ساتھ ہی یہ ساری باتیں ہوامیں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ سیرتِ رسولﷺ کے جلسے ہوں ، نعت رسولﷺکی پر نور محافل ہوں یا سیرت رسولﷺکانفرسوں کا انعقاد ان سب کی اہمیّت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ محض ایک مہینہ یا کچھ دنوں کیلئے سیرت رسول ﷺکی محافلوں کا انعقاد کر کے، نعت رسول ﷺکی محافل سجا کے یا عشقِ رسولﷺکے نعرے لگا کر جناب نبی کریمﷺکی قربانیوں اور محنتوں کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ انﷺکی قربانیوں کو یاد کیجئے ،آج ہم 1500 سال بعد ہزاروں میل دور مسلمان ہیں تو اللہ کے فضل کے بعد آپﷺکی قربانیوں کی نتیجے میں ہیں۔ ذراچشمِ تصوّر میں وہ منظر لائیے کہ لوگوں کو دعوت وتبلیغ سے دن بھر کے تھکے ہارے جناب نبی اکرمﷺگھر لوٹتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ایک قافلہ مکہ میں آکر ٹھہرا ہے، تو اسی وقت پھر اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ کہیں رات میں وہ قافلہ کہیں آگے کو کوچ نہ کر جائے اور دینِ اسلام کی دعوت سے محروم نہ رہ جائے، ذرا سوچئے ممکن ہے ہم تک اسلام کی یہ دعوت اسی قافلے کے کسی فرد کے ذریعے پہنچی ہو جس کو آپﷺنے دن بھر کی تھکان کے باوجود جا کر دعوت دی،اپنے اندر اس احساس کو پیدا کیجئے کہ نبی اکرم ﷺنے جتنی قربانیاں دیں ان کا ڈائریکٹ احسان ہم پر ہے، اب اس احسان کے بدلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟؟؟؟
حضورﷺسے محبت ہمارے ایمان کا جز ہے اور محبت کی منجملہ علامات میں سے یہ ہے کہ تمام معاملات میں حضورﷺ کی اتباع کی جائے، قرآن کریم سے محبت ، تلاوت ،اور اس کا فہم حاصل کیا جائے، آپ ﷺکی احادیث کا مطالعہ کیا جائے، آپﷺ کی سنت اور طریقہ پر عمل کیا جائے، آپ ﷺکی سیرت اور شمائل کو اپنایا جائے، آپﷺسے ملنے کا اشتیاق ہو، آپ ﷺکا ذکر خیر کثرت سے کیا جائے، آپﷺپر درود پڑھا جائے آپﷺکو تو جو اجر ملنا ہے وہ تو ملنے والا ہے ہی لیکن اگر ہم ان ﷺپر درود وسلام بھیجتے ہیں تو اس کا ثواب بھی ہمارے ہی لئے ہے، محمدﷺنے ہمیں جو درود سکھایا ہے یہ ہمارے لئے اعزاز ہے کہ ہم ان کیلئے دعا کریں اللہ کے رسولﷺتو افضل الانبیاء اور سب سے بہترین انسان ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو سیرت رسولﷺکے مطابق ڈھالیں اورسیرت رسولﷺسے عملی وابستگی اختیار کریں،حُبِّ رسولﷺکا تقاضا یقیناً یہ بھی ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور وضع قطع ایسی ہو جیسی آقائے دو جہاںﷺکی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ ضروری بات اس اندازِ فکر اور لائحہ عمل کو اپنا لینا ہے جسے اسلام کا فلسفہ زندگی کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن کی رو سے انسان کا اصل لباس اس کا تقویٰ ہے۔ یا کم از کم یہ بات تو بہرحال ضروری ٹھہرتی ہے کہ جو شخص وضع قطع میں مسلمان ہو اس کے کردار اور سیرت میں اسلام کے اصولوں کی جھلک اور چمک بھی ضرور نظر آنی چاہئے۔
ان مقدس لوگوں کے مقابلے میں جو ہر لحاظ سے خلافتِ ارضی کے مستحق تھے ہمارا حال کیا ہے؟ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ہر حکم کو ڈھٹائی سے توڑتے ہیں اور قریب قریب ہر معاملے میں بغاوت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں انتہائی شرمناک صورت یہ ہے کہ عمل کے میدان میں ان حضرات کا حال بھی قوم کے جہلا سے مختلف نہیں جو حُبِّ رسولﷺکے دعویدار اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا ثابت کرنے پر اصرار کرنے والے ہیں۔اور آج بحیثیّت ملّت ہمارا حال پروفیسر عنایت علی خان کے ان اشعار کے مصداق ہے،



جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیل راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا

یہ میری عقیدت بے بسر ،یہ میری ریاضت بے ہنر
مجھے میرے دعویٰ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا

تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا

تیرا نقش پا تھا جو راہنما تو غبارِ راہ تھی کہکشاں
اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا

میرے راہنما تیرا شکریہ کروں کس زباں سے بھلا ادا
میری زندگی کی اندھیری شب میں چراغِ فکر جلا دیا

تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا

کبھی اے عنایتِ کم نظر !تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا

................................................................................

................................................................................
.