جمعہ، 21 مارچ، 2014

ولیمہ

13 comments

جدہ کے وسیع وعریض کنگ عبدالعزیز ائر پورٹ پر پہلی بارآمد سے میں پریشان تھا کہ کیا کرنا اور کدھر جانا ہے کہ اسی اثناء میں میری ملاقات بارہا سعودی عرب آنے والے احتشام انور سے ہوگئی اور پھر ان کی راہنمائی میں ہی امیگریشن وغیرہ کی منازل طے کرتا ہوا میں اپنی سیٹ تک جا پہنچا،ایک ساتھ ہی بورڈنگ کارڈ کے حصول کے باعث ہماری سیٹیں بھی ساتھ ساتھ ہی تھیں اور یوں جدہ سے اسلام آباد کی چار گھنٹے اور بیس منٹ کی فلائٹ کے دوران یہ ہمسفری ہماری دوستی کی بنیاد بن گئی چونکہ اس وقت موبائل ابھی اتنا عام نہیں ہوا  تھا سو اسلام آباد میں جدا ہوتے وقت ہم ایک دوسرے سے اپنے فون نمبر اور ایڈریس کا تبادلہ کرچکے تھے، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے تعلقات میں مضبوطی آتی چلی گئی ہم اکثر ایک دوسرے کو خطوط لکھتے اپنے اپنے گھروں کے حالات اپنے شہروں کی نت نئی خبریں ہمارا پسندیدہ موضوع ہوتا، بات فون اور خطوط سے آگے بڑھی تو ہم ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے لگے۔
سیالکوٹ کے نواحی علاقے کے چھوٹے سے دیہات میں خوبصورت گھر اور خوبصورت دل کا مالک احتشام انور اور میں جلد ہی بہترین دوست بن گئے،احتشام انور تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور یہاں میری طرف بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا سو یہ قدرِ مشترک ہم دونوں کو ایک دوسرے کے اور قریب لے آئی، میڈیکل کے شعبوں سے وابستگی بھی ہم دونوں کے تعلقات میں پختگی کا باعث بنی احتشام انور عرب ممالک کو سرجیکل آلات برآمد کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثر گھر سے باہر رہنا پڑتا اور یہی مصروفیّت ان کی شادی میں تاخیر کا باعث بنتی چلی گئی، لیکن آخر کب تک انہیں بالآخر گھر والوں کے اصرار کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے۔
آج احتشام انور کی دعوت ولیمہ تھی اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان شادی کی تمام تقریبات میں شریک رہا ، ولیمہ کی تقریب کیلئے وسیع وعریض گراؤنڈ میں لگے شامیانے ایک خوبصورت منظر پیش کررہے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ولیمے کی تقریب میں علاقے بھر کے امیر وغریب سبھی شریک تھے یہاں کوئی مہمان خاص نہیں تھا بلکہ سبھی کیلئے ایک جیسی ہی نشستیں اور ایک جیسا ہی کھانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعوتِ طعام سے پہلے تلاوت قرآن مجید ہوئی اور پھر دولہا میاں خود اپنے مہمانوں سے مخاطب تھے "میں اپنے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں وہیں اپنےگاؤں کے لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میرے مہمانوں کو خوش آمدید کہا، آج اس پنڈال میں علاقے بھر کے غریب اور امیر ایک ہی چھت تلے جمع ہیں تو اس کا سبب ہمارے نبی مہربان ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں 
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا !!! شر الطعام طعام الولیمة یدعٰی لھا الأغنیاء ویترک الفقراء ․․․․۔“
    ”بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں اغنیاء کی دعوت کی جائے اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے
احتشام انور نے بلاشبہ اپنی دعوتِ ولیمہ میں غرباء وامراء کیلئے ایک جیسی دعوت کا اہتمام کرکے ایک خوبصورت مثال قائم کی،ایسی ہی مثالیں معاشروں کو خوبصورتی عطا کرتی ہیں

جمعرات، 6 مارچ، 2014

آپاجی

13 comments
چہرے پر وہی 30 سال پہلے جیسا وقار اور سنجیدگی بولتی تھیں تو بس دعائیں ہی دعائیں 30 سالوں میں فرق پڑا تو بس اتنا کہ اب وہ پہلے کا سا دم خم نہ تھا،ان30سالوں میں آج میں ان سے دوسری بار مل رہا تھا آٹھ نو سال پہلے راہ چلتے بس ان سے سلام دعا ہی ہو سکی تھی اور آج جب میں نے فون پر انہیں بتایا کہ میں آپ کو ملنے آرہا ہوں تو وہ کھل اٹھیں میں اپنی اہلیہ،ہمشیرہ اور تینوں بچوں کے ہمراہ ان سے ملنے ،ان سے کچھ باتیں کرنے ان کی دعائیں لینے جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کی خوشی دیدنی تھی، دل کی تکلیف، کمر اور ٹانگوں میں شدید درد کے باوجود میرے بالکل سامنے بیٹھی ہوئی تھیں اور میں چشمِ تصوّر میں 30 سال پیچھے جا پہنچا تھا ٹوٹے پھوٹے دروازوں اور کھڑکیوں والی ایک عمارت اور کلاس ٹیچروں کیلئے موجود کرسی کا ایک بازو بھی استبدادِ زمانہ کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو چکا ٹاٹ کی پرانی چٹائیوں پر بیٹھے ہوئیےچند طلبہ وطالبات اور انہیں پڑھانے میں مشغول سرخ وسفید اور باوقار چہرے والی "آپا" "جہاں آراء" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 وہ ہستی کہ جس نے مجھے قلم پکڑ کر لکھنا سکھایا میری پرائمری کلاسوں کی میری ٹیچر جنہیں اس دور میں سبھی "آپا جی" ہی کہا کرتے تھے۔ "آپا جی" نہ صرف اپنے شاگردوں کی "آپا جی" تھیں بلکہ سکول میں اپنے بچوں کو داخل کروانے آنے والی سبھی خواتین بھی انہیں "آپا جی" ہی کہ کر پکارتی تھیں، ہر طالب علم ان کیلئے خاص ہوتا، ہر ایک سے اپنے بچوں کی طرح پیار، کلاس ہی میں ان کی قریبی عزیزہ بھی موجود ہیں لیکن ان کے تو سارے ہی بچے ان کے اپنے ہیں،کمال محبّت اور جانفشانی سےتعلیم کے موتی بکھیرتی اور طلبہ کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرتی یہ ہستی آج بھی اسی طرح "سراپا محبّت" تھی۔ میرے بچوں کو باری بای پیار کیا میری ہمشیرہ اور اہلیہ کو کمال محبّت سے گلے لگا کر خوش آمدید کہا، طبیعت کی خرابی کے باوجود ہر ایک سے اس کی مصروفیات جانتی رہیں، میں تھا کہ ان کے سامنے چپ چاپ بیٹھا "اپنا آپ" تلاشتا رہا،ہم کیا ہوتے ہیں اور ہمارے اتالیق ہمیں کیا بنا دیتے ہیں، آج میں جس مقام پر کھڑا ہوں بلاشبہ اللہ رب العزت کے بے بہا احسانات ، والدین کی دعاؤں اور ایسی ہی پرخلوص ہستیوں کی محنتوں اور محبتوں کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہو ہایا۔
اللہ تعالٰی ان لوگوں کو شادوآباد رکھے تاکہ علم کی شمعیں یونہی فروزاں رہیں، محبّتیں قرض ہوتی ہیں لیکن کچھ قرض ایسے ہوتے ہیں جو چکائے نہیں جا سکتے۔

................................................................................

................................................................................
.