بدھ، 25 جون، 2014

ماہِ مبارک

3 comments

اس کے قدموں کی چاپ دل کی دھڑکن کی طرح ٹھک ٹھک کرتی قریب سے قریب تر ہورہی ہے، وہ جو گزشتہ برس "دکھی" ہو کے چلا گیا تھا ایک بار پھر سے اپنی "رحمتوں" کے جام لڈھانے آرہا ہے،محبت سے پکارتے ہوئے، ایک آس لئے، اپنے بھرے دامن کے ساتھ ، بہت کچھ لٹانے کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دکھ تو اس بات کا ہے کہ وہ جنہیں بہت کچھ دینے کو آتا ہے وہ منہ لپیٹے پڑے رہتے ہیں اور وہ جو بہت کچھ لٹانے آتا ہےوہ سب کچھ لئے پھر سے لوٹ جاتا ہے، وہ جو ہر سال آتا ہےاس سال بھی قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہےآئیے اس کی دستک کی آواز کو سنیں، اس کی صدا پر لبیک کہیں،اس لئے کہ اگر ہم نے اب بھی اس کی آواز کونہ سنا اس کی پکار پر لبیک نہ کہا تو کون جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اگلے برس جب یہ ماہ مبارک آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں نہ پائے
زندگی کے کس قدر قیمتی لمحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی مبارک ساعتیں
جب ہر آن اسی کا دھیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بولنا اسی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب خاموشی بھی اسی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اضطراب میں تسکین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بے چینی میں چین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بھوک اور پیاس بھی عبادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب منہ سے اٹھنے والی بدبو مشک وعنبر سے بھی قیمتی ٹھہرے
ہاں ایسے ہی مبارک لمحات کہ سنبھلنے والے کیلئے سنبھالنے والاخود اللہ رب العزت ہو
لیکن
ایسے میں باعثِ افسوس ہے اس کیلئے جس کیلئے رمضان کا چاند کچھ بھی نہ لایا،جس کیلئے سورج کا طلوع وغروب روزانہ کی روٹین ہی رہی، جو اپنے آپ کو چرتے پھرتے جانوروں سے الگ نہ کر پایا،جو اپنے اور ان کے درمیان کوئی فرق،کوئی امتیاز نہ کر سکا، نہ جس کے دن بدلے نہ دل بدلا، اور ایسی رحمتوں کی موسلا دھار بارش میں بھی جو اپنے دامن کو بھر نہ سکا
یہ ہمارا طرزِ عمل ہے جو ہمارے اور ہماری بھلائی کے درمیان حائل ہے، یہ ہم ہی ہیں جو رحمتوں سے اپنا دامن بھر نہیں پاتے،یہ ہمارے اعمال ہیں جو ہمیں ڈبو دیتے ہیں،ہماری کشتیوں میں پڑنے والے شگاف کسی اورکی نہیں ہماری اپنی غلطی کے باعث ہیں،الہامی ہدایات کے فانوس کو خاطر میں نہ لانے پر منظر سے پسِ منظر تک بس حیرانی ہی حیرانی اور وجود سے لپٹی تنہائی ہی رہ جاتی ہے۔ اصل کامیابی ان لوگوں کیلئے ہی ہے جو ٹھٹک کر رک نہیں جاتے،اکڑ کر تن نہیں جاتے بلکہ سراج منیر کی طرف پلٹ آتے ہیں، ان کا نام کچھ بھی ہو وہ کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتے ہوں کامیابی انہیں کا مقدّر بنتی ہے
رمضان مبارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً مبارک مگر کس کیلئے
ذرا رکئے اور سوچئے ہمارا شمار کن لوگوں میں ہو رہا ہے

جمعرات، 19 جون، 2014

ایک سال بیت گیا

5 comments
دن ہفتوں ،مہینوں اور مہینوں کو سالوں میں ڈھلتے دیر ہی بھلا کتنی لگتی ہے،19 جون 2013 سے 19 جون 2014 میرے بلاگ کو ایک سال مکمل ہوا
ابھی کل ہی کی تو بات ہےدوسروں کو بلاگنگ کرتے ہر طرف بلاگنگ کا شور سنتے ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہ جائیں ،سو ہم نے بھی شغل ہی شغل میں بلاگ بنا ڈالا، بلاگ بناتے وقت یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ "گلے کا ڈھول" بھی بن جائے گا جسے "بجانا" بھی پڑے گا لیکن اب کیا کیا جائے جب "ڈھول" گلے میں لٹکا ہی لیا تو پھر شرمانا کیسا سو ہم بھی لگے رہے ڈھول بجتا رہا اور اس کی "تھاپ" پہ "بھنگڑا" ڈالنے والے امڈ امڈ کے ہماری حوصلہ افزائی کوآتے رہے۔ بھنگڑا ڈالنے والوں کو دیکھتے، دل خوشی کے مارے بلیوں اچھلتا اور ہم مست ہو کے ڈھول بجاتے چلے گئے۔
19 جون 2013 کو بلاگ بنایا 20 جون کو پہلی پوسٹ ڈالی اور پھر تو یہ سلسلہ چلتا ہی چلا گیا۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا، مطالعے کا شوق بڑھا، نئے دوست بنے ، عزت اور پہچان ملی۔
ایک سال میں ان سبھی 12583 افراد کا شکریہ جو میرے بلاگ پر تشریف لائے، ان 230محترم ہستیوں کیلئے سلامِ تشکر کہ جنہوں نے میری 38 بلاگ پوسٹس پر اپنے قیمتی کمنٹس کے ذریعے میری حوصلہ افزائی کی۔اسی دوراناردومنظر نامہنےایک بلاگر کی حیثیّت سے میرا انٹرویوشائع کیا جو بلاشبہ میرے لئے ایک اعزاز تھا۔
ایک سال پہلے بلاگ بناتے وقت یہ خیال دور دور تک بھی نہیں تھا کہ کبھی ایک سال بعد بلاگ کی سالگرہ کے حوالے سے کوئی تحریر لکھ رہا ہوں گا،ایک سال مکمل ہوا جو دل میں آیا لکھا پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی نے مزید لکھنے کا حوصلہ دیا اور آج جب ایک سال بعد یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو بلاشبہ یہ آپ کی محبّت ہی ہے جو میں اس قابل ہوا سو آپ سب کا شکریہ
 یہ "تحریر" آپ سب کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے اگلے برس بھی انشاءاللہ لکھنے اور پڑھنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا

منگل، 3 جون، 2014

پہاڑی کا چراغ

3 comments
ایک ایسے دور میں جب لوگ کہیں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کی بجائے اس کی فوٹیج بنانے، کسی ڈوبتے کو بچانے کی بجائے اس کی ویڈیو بنانے اور گرتی نعشوں کو سنبھالا دینے کی بجائے ان کی تصویریں بناتے پھرتے ہوں تو ایسے میں اگر کوئی شخص ایک بچے کو بچانےکیلئے اپنے آپ کو دریا کی موجوں کے حوالے کر دے تو یقیناً یہ بات اس پر صادق آتی ہے کہ وہ شخص تو "پہاڑی کا چراغ" ہے جو خود تو جلتا ہے اور جلتے جلتے اس کی زندگی تمام ہوجاتی ہے لیکن دوسروں کیلئے نشانِ منزل چھوڑ جاتا ہے
میں نے مظفر آباد میں دو نوجوانوں کو دریائے نیلم کی تندوتیز بپھری ہوئی موجوں میں گم ہوتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جسم میں ایک سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھلتی کودتی راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست ونابود کرتی بپھری موجیں 
اور دریائے کنہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ان دنوں اس قدر بپھرتا ہے کہ سینکڑوں جانیں اس کا لقمہ بن جاتی ہیں میں نے اس کی طغیانی بھی دیکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا سکوت بھی 
کراچی ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں وہی جو کبھی روشنیوں کا شہرتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کراچی سے تعلق رکھنے والا شاہین صفت نصراللہ شجیح جو یقیناً "پہاڑی کا چراغ" تھا جو خود تو جلتا ہے لیکن دوسروں کو راستہ دکھاتا ہے۔

ذرا دیکھئے تو کس قدر اعتماد ہے اس ماں کے لہجے میں جس نے اپنے بیٹے کو نصراللہ شجیح کے حوالے کر دیا،یقیناً وہ اسی اعتماد کے قابل تھا 
"میں ارسل کو کبھی نہ جانے دیتی میں نے تو کبھی اسے گھر سے مارکیٹ تک نہیں بھیجا تھا تو اتنی دور ٹور پر کیسے جانے دیتی مگر جب اس نے آکر بتایا ماما ہمارے ساتھ سر نصراللہ جارہے ہیں تو میں ایک لمحہ کو بھی انکار نہ کرپائی کہ اب انکار کوئی جواز ہی نهیں بچا تھا وہ جو ایک باپ سے زیادہ حفاظت کرنے والے وہ جو بچوں پر شیر کی سی نگاہ رکھنےکے باوجود ان کے لیے سراپا محبت تھے اب میں بھلا کیسے انکار کرتی اور ارسل کے جانے تیاری کرنے لگی ۔۔۔ میں اکثر ارسل کی شرارتوں پر اسے دھمکی دیتی کہ کل ہی میں آتی ہوں اسکول شجیع بھائی کو بتاتی ہوں اور ارسل وہیں ایک دم ڈھیر ہوجاتا مما نہیں بس سر نصراللہ کو نہیں بس انکو نہیں شکایت کیجیے گا مما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ !!
جانے والا اپنے پیچھے کیسی یادیں چھوڑ گیا 
لیکن وہ گیا ہی کب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا
کہ وہ جو یادوں میں بس جاتے ہیں
کب جاتے ہیں
ہر آن ہمارے درمیان موجود
اسی طرح مصروفِ عمل
وہی پہلے کی طرح بھلائیاں بانٹتے ہوئے
ہم ان سے راہنمائی پاتے ہیں
ہم ان کی باتیں سنتے ہیں
انہی کی باتیں کرتے ہیں
ان کا زندگی بھر کا کام ہمیں زندگی بھر یاد دلاتا ہے کہ 
زندگی تو اسے کہتے ہیں
دنیا انہیں نگاہوں سے اوجھل پاتی ہے
لیکن
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں
ہمارے دکھ سکھ میں شریک
ہم تو ان کی ایک مسکراہٹ نہیں بھول سکتے
زندگی بھر کا احسان کیسے بھلایا جا سکتا ہے
وہ جو اپنا سب کچھ ہمیں سونپ گئے
اور پھر بھی خالی ہاتھ نہیں
ان کا زادِ راہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا اثاثہ
ہمسفری کی یہ جانی پہچانی روایت
قافلہ چل رہا ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے
کہ کسی کا سنگِ میل  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کسی کی منزل 

................................................................................

................................................................................
.