ٹھنڈی آہیں بھرتی ، ہائی بلڈ پریشر اور بے خوابی کا شکار یہ مریضہ آج جب دوسری بار میرے کلینک میں آئی تو پہلی بار کی نسبت قدرے بہتر تھی،اور آج اتفاق سے جس وقت وہ آئی میرے کلینک میں اس وقت کوئی مریض بھی نہ تھا،اس کا بلڈ پریشر بھی پہلے سے کم تھا او رکچھ وقت کیلئے اب نیند بھی آجاتی تھی اس کے ساتھ آنے والی اس کی بیٹی علاج سے مطمئن تھی۔آج میں نے اس کے مرض کی تہ تک پہنچنے کی ٹھان لی ،میرے اس سوال پر کہ باجی یہ تکلیف شروع کیسے ہوئی وہ خاتون پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور ایک عجیب بات کہی کہ میں نے خدا سے مقابلہ کیا ناں ،سو مجھے اس کی سزا مل رہی ہے،ڈاکٹر صاحب دعا اکیجئے میرا مولا مجھے معاف کر دے میں نے اس کو کھل کر رونے دیااور اس کیلئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس منگوایا،پانی پی چکنے کے بعد کچھ پرسکون ہوئی تو میں نے اس سے سوال کیاکہ آخر آپ نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے مدمقابل پاتی ہیں ۔اس نے ایک گہرا سانس لیا کچھ دیر تک سوچتی رہی اور پھر سر اٹھا کر یوں مخاطب ہوئی
ڈاکٹر صاحب میری شادی کو 10برس بیت چکے تھے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا گھر میں ہر طرح کی آسائشیں موجود تھیں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کی وجہ سے ہر وقت گھر میں رونق رہتی، لیکن میں تھی کے بیٹے کی خواہش میں پاگل ہوئی جاتی تھی لیکن جب ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی توبیٹے کی خواہش مزید بڑھ جاتی، میرا خاوند اس حال میں بھی خوش تھا لیکن میں نے اپنا بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کسی اور کا بیٹا گود لینے کا فیصلہ کر لیا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک طلاق یافتہ خاتون شادی ہو کر ہمارے محلّے میں آگئی جس کا پہلی شادی سے ایک نومولود بچہ تھاجسے دوسرے خاوند نے پرورش کرنے سے انکار کر دیا جب میں نے یہ سنا تو اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے اس کے ہاں جا پہنچی اس خاتون کی منّت سماجت کی کہ وہ بچہ مجھے دے دو میں اسے اپنا بیٹا سمجھ کے پالوں گی،میری باتیں سن کر تو گویا اس خاتون کیلئے بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداقخوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہااور اپنا بچہ میرے حوالے کرنے پر تیّار ہوگئی۔ میں نے اس سے بچہ لیا اور خوش خوش اپنے گھر کو لوٹ آئی،اب وہ بچہ میری آنکھوں کا تارا تھا میں اس کے لاڈ اٹھاتے نہ تھکتی،بیٹیوں کو بھی گلہ رہنے لگا کہ آپ اب ہمیں کم پیار کرتی ہیں لیکن میں جو بچہ مل جانے پرخوشی سے اتراتی پھرتی تھی مجھے کس کی پرواہ تھی ۔وہ بڑا ہوا تو اسے اچھے سکول میں داخل کروایا اس کی ہر خواہش پوری کی وقت تیزی سے گزرتا رہاتاآنکہ اس نے میٹرک کر لیامیں نے بہت کوشش کی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے لیکن اس نے کہا کہ وہ اپنے باپ کے کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے گا میں خوش تھی کہ بڑھاپے میں میرے خاوند کو سہارا مل گیا۔لیکن ابھی میری اصل آزمائش باقی تھی میرے خاوند نے اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئیکاروبار اس کے نام کردیا اور اسے ایک گاڑی بھی خرید دے تاکہ کاروباری سلسلے میں دوسرے شہر جانے میں اسے مشکل نہ پیش آئے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس بیٹے کا اٹھنا بیٹھنا غلط سوسائٹی میں ہو گیا ہمیں معلوم ہوا تو سمجھانے کی کوشش پر گلے پڑنے کو آگیا،کچھ ہی عرصہ بعد اپنے محلّے ہی کے ایک دوست کو معمولی تلخ کلامی پر قتل کر ڈالا اور ہماری نیک نامی پر ایک اور دھبہ لگا کر آج کل جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے،ڈاکٹر صاحب میں نے خدا کا مقابلہ کیا اس نے مجھے بیٹا نہیں دیا ناں تو میں نے کسی اور کے بچے کو اپنا بیٹا بنا کر اس کی ولدیت کے خانے میں اپنے خاوند اور خود کو اس کی ماں کہلوا کر فخر کا اظہار کیا تو خدا نے مجھے دنیا میں ایسی سزا دے دی کہ اب بیٹا کال کوٹھڑی میں سزا کا منتظر ہے محلّے میں سر اٹھا کے جینے کے قابل نہیں رہے اور بیٹے کی محبّت دل ہلائے دیتی ہے معلوم نہیں اس کا کیا بنے گااورانہیں سوچوں میں راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں
وہ خاتون دوا لینے کے بعد اپنے گھر لوٹ گئی لیکن مجھےقرآن مجید کی سورہ شورٰی کی ان آیات کی تفسیر سمجھا گئی گئی جن میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا(سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 49 ،50)
اللہ فرماتے ہیں کہ میں زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہوں پیدا کرتا ہوں جو چیز چاہتا ہوں جس کو چاہتاہوں بیٹیاں عطا کرتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں بیٹے ۔ چاہوں تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دوں اور میں مالک ہوں چاہوں تو کچھ بھی نہ دوں ۔