کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں قائم اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی وسیع وعریض عمارت کے کانفرنس روم میں ہم ٹھیک وقت پر پہنچے تھے اس لئے کہ ہمیں اپنے میزبان کی "پابندئِ وقت" کی خوبی کا بخوبی علم تھا معلوم ہوا وہ ٹریفک جام کی وجہ سے 5 منٹ لیٹ ہیں اور یہ پانچ منٹ گزرتے ہی روشن پیشانی سادہ لباس اور چہرے پہ مسکراہٹ سجائے "سید منور حسن" ہمارے درمیان موجود تھے سب سے فردًا فرداً ہاتھ ملایا خیریت پوچھی تعریف وتعارف کے مرحلہ طے ہوا،ادرے میں اردو بلاگرز کی آمد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا،اردو کے علاوہ دیگر زبانوں پر کام سے حوالے سے معلومات لیں،انہیں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی زبانوں میں اردو کے علاوہ سندھی اور پشتو کے استعمال کرنے والے بھی موجود ہیں،مختلف سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات لیں،اور اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی اسی دوران "گرما گرم" چائے آ گئی اور چائے کی "چسکیوں" کے درمیان گفتگو کا موضوع کراچی کی صورتحال کی طرف آگیا ، "سیّد صاحب" نے اس حوالے سے تفصیلی اور بے لاگ گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ایم کیو ایم کو ٹارچر کر کے یا اس کو نشانہ بنا کے الیکشن لڑا گیا تو ہمیشہ ایم کیو ایم کو ووٹ پڑا کیونکہ عصبیت ایسی چیز ہے کہ اگر اسے چھیڑا جائے تو یہ ملٹی پلائی کرتی ہےایم کیو ایم نے مہاجر کارڈ کو بہت کامیابی سے کھیلا ہے کہ وہ لوگ جو ایم کیو ایم کو چھوڑ کے دوسری جانب چلے گئے تھے انہوں نے بھی یہ اعلان کیا کہ آدھے مہاجر ہونے سے پورا مہاجر ہونا بہتر ہے،یہ ایک ایسا حلقہ تھا جہاں مہاجر ووٹ بہت بڑی تعداد میں ہے اور پنجابی یا پختون ووٹ نہ ہونے کے برابر، بنیادی بات یہی ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے مہاجروں کو انڈر پریشر کرنے کی کوشش کی گئی عمران خان نے مہاجروں کو گالی دی تو جماعت اسلامی نے بھی مہاجروں کے ساتھ مس بی ہیو(Misbehave) کیا اور یہی وجہ ہے کہ 25 سے 30 پزار ووٹ صرف اس وجہ سے ایم کیو ایم کو زائد پڑے،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ الیکشن سیریس ہو کے لڑا ہی نہیں گیا۔
بدلتے ہوئے عالمی اور ملکی حالات میں اسلامی جماعتوں کے مستقبل، مصر بنگلہ دیش،الجزائراور خود پاکستان میں اسلامی تحریکوں کے گرد تنگ ہوتے دائروں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا جسے اب "گلوبل ویلج"کا نام دیا جاتا ہے اس گلوبل ویلج کی ساری معلومات آپ کی انگلیوں کے پوروں تلے ہیں لیکن ان معلومات کے ذرائع آپ کے کنٹرول میں نہیں یہ انفارمیشن سے زیادہ ڈس انفارمیشن کی دنیا ہےجو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آپ کی نہیں بلکہ غیروں کی دنیا ہے اور داعش سے لے کر گنتے چلے جائیں تو بے شمار واقعات ایسے ہیں جو ڈس انفارمیشن کا نتیجہ ہیں ایشو یہ نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا،ایشو یہ ہے کہ اس کے باوجود ہم موجود ہیں،موت کی سزائیں سنا دی گئیں، لوگ جیلوں میں بند ہیں لیکن آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ تمام دائروں میں ہمارا وجود باقی ہے اتنے بڑے پیمانے پرامریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں موجود رہیں لیکن وہاں کچھ بگاڑ نہیں پائے ابھی بھی کم از کم 37 صوبے ایسے ہیں کہ جہاں شریعت نافذ ہے وہاں عدالتوں کے تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں حکومت کی قائم کردہ عدالتیں بھی موجود ہیں لیکن کوئی ان کی طرف رجوع ہی نہیں کرتا کیونکہ نہ وہاں انصاف نہ فوری ملتا ہی نہ مفت بلکہ وہاں انصاف ملتا ہی نہیں ۔
چھوٹے چھوٹے دائروں میں بھی اسلامی اور جہادی تحریکیں ہیں یہ سب لوگ زندہ ہیں اوران کی گردنوں پر سر قائم ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بمباری ،ڈرون حملے، بم دھماکے،گرفتاریاں ، سزائیں اور قیدوبند کے باوجود ان کے قدم آگےبڑھے ہیں ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی اور ان کو ختم کرنا ممکن نہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریکوں کے پاس جوعلاج ہے وہ کرتے رہنا چاہئیے،رستے بن رہے ہیں، نکل رہے ہیں ریاست کے اعتبار سے صرف ترکی کی ایک ریاست ہے جو آپ کی پشتیبان ہے باقی تو کہیں کہیں جزوی حمایت ہے
پاکستان کے اسلام پسند نوجوان موجودہ سیاسی سسٹم سے مایوس نظر آتے ہیں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پالیٹکس کی گیم ہے یوتھ کا مسئلہ تہ در تہ ہے پاکستان کے باہر یورپ اور امریکہ اور مڈل ایسٹ میں پاکستان کے بہت زیادہ نوجوان جابز کیلئے گئے ہیں لیکن ان نوجوانوں نے اپنے آپ کو اسلامی تحریکوں کے ساتھ منسلک رکھا ہے پاکستان میں بڑی تعداد جو بیرون ملک سے اسلامی تحریک سے متاثرہوئی انہوں نے وہاں سیاسی کام کے علاوہ سارے کام کئے اور صلاحیتوں کو زنگ آلود نہیں ہونے دیا،لیکن پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں آکربڑی تعداد ڈس سیٹسفائیڈ ہوئی ہے اوران کے اس مؤقف کو رد نہیں کیا جاسکتا،یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد جو یہ سمجھتی ہے کہ ہم غلط کر رہے ہیں ان کا ایک بہت بڑا گروپ جو جہاداور جہادی تحریکوں کی طرف چلا گیا اگرچہ اس سے تحریک کو نقصان پہنچ بھی رہا ہے اور ہوا بھی ہے،لیکن ان کی قدر کرنا چاہئیے اوران کوواپس دھارے میں لانے کیلئے کوششیں جاری رہنی چاہئیں،بہت اچھے حالات سننے کی نوید ملے کی تو اسلام کے نام لینے والے ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہو جائیں گے،بہت ساری چیزیں پلان کرنے کے باوجود نہیں ہو پاتیں، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اچھی پلاننگ بھی کریں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بہت ساری چیزیں بغیر پلان کئے بھی ہو جاتی ہیں
اسلامی جمعیّت طلبہ کے غیر مؤثر ہونے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کے الیکشن ختم ہونے کے بعد بڑی تعداد میں باصلاحیت لوگوں کا جمعیت کی طرف آنا کم ہوا ہے ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں کا پرائیویٹ سیکٹر میں چلے جانا بھی ہے جہاں جمعیت کا داخلہ ہی ممنوع ہے جس کی وجہ سے جمعیت کو ہی نہیں پوری تحریک کو نقصان ہوا ہے یہ بھی اسلامی تحریک کے سوتوں کو خشک کرنے کی مسلسل کوششوںکا ایک حصؔہ ہے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سیکولرازم جتنا مضبوط آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں رہا، اور آج کا سیکولرازم کسی نظریے کا نام نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی نظریہ اور فلسفہ سرے سے ہے ہی نہیں لیکن نقصان پہنچانے کیلئے اورلوگوں کے نظریے اور ترجیحات بدلنے کیلئے اتنا بھی کافی ہے۔
اس کا علاج اور حل کیا ہے اس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سید منور حسن کا کہنا تھا کہ اس کا علاج تو یہی ہے ایک یا دو بڑی کامیابیاں ضروری ہیں اور ان میں سے ایک الیکشن میں کامیابی بھی ہے اور پاکستان میں تو الیکشن کی کامیابی تو پنرہ بیس سیٹوں کی کامیابی بھی شمار کی جاتی ہے، اور اگر ایسا ممکن ہو گیا تو امید ہے کہ حالات کی بہتری کی کوئی امید نظر آتے ہی عوام بڑی تعداد میں آپ کے ساتھ ہوں گے جیسے کچھ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے اور کچھ بعد میں۔
سوشل میڈیا پر اسلامی تحریک کے کارکنان کے نام پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریکوں کے بہت کم لوگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں آپ لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے اس خلاء کو پرکیا ہے اور اب جب کہ دنیا میں حالات کے اعتبار سےان گنت پلیٹ فارم وجود میں آئے ہیں تو جن کے بارے میں معلوم نہ ہو اس کی مخالفت نہ کریں ممکن ہے کہ ہم غلط فہمی کی بنیاد پر کسی صحیح چیز کی مخالفت کر بیٹھیں اور وہ نقصان کا باعث بن جائے،جن کے بارے میں معلوم ہو ان کی سپورٹ کریں اور اس کا ساتھ دیں
سید منور حسن کے ساتھ 30 منٹ کی طے شدہ ملاقات لگ بھگ ایک گھنٹہ تک جای رہی سید صاحب نے کمال محبت سے ہمیں وقت دیا اورملاقات کے اختتام پر دروازے تک ہمیں رخصت کرنے آئے ایسے لوگ پہاڑی کا وہ چراغ ہوتے ہیں جو خود جلتے اور دوسروں کو اپنی روشنی میں راستہ دکھاتے ہیں۔