پیر، 28 مارچ، 2016

یہ کس کا لہو ہے،کون مرا

2 comments
بچوں سے وعدہ کر رکھا تھا رزلٹ آجائے تو آپ سب کو سیر کیلئے لے چلوں گا ہم کسی تفریحی مقام پہ جائیں گے کسی پارک میں جھولے جھولیں گے ہلا گلا کریں گے خوبصورت نظاروں سے آنکھوں کو تراوٹ ملے گی سب کے پسند کے کھانے ہوں گے اور بہت کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بچے کا رزلٹ ابھی باقی تھا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو پروگرام کو پایہء تکمیل تک پہنچنے میں کچھ دیر تھی میں کل ہی مسز سے کہہ رہا تھا کہ ابھی بچوں کو بھی کہیں لے کے جانا ہے

اور پھر شام ڈھلے سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والی خبروں نے دل کی دنیا کو الٹ پلٹ کردیا،لاہور کے تفریحی پارک میں ہونے والے دھماکے نے خون کے آنسو رلا دیا جذبات کے اظہار کو الفاظ نہیں،اس باپ کے جذبات کیا ہوں گے کے جس کے تین بچے اس دھماکے میں شہید ہو گئے اور جس کے بیٹے نے آج گلشنِ اقبال جانے کی ضد کی تھی، اس خاندان کے لوگوں پہ کیا گزری ہوگی جن کے آٹھ پیارے اس دھماکے میں جان کی بازی ہار گئے، بابا اور ماما کی انگلی پکڑے سیر کو آنے اور جھولے جھولنے کی خواہش میں موت کی سولی پہ جھول جانے والی کٹی پھٹی لاشوں،کسمساتے پھولوں اور ننھی کلیوں،کے پرسے کو الفاظ میسر نہیں ہیں اس لئے کہ  بہت سے احساسات وجذبات ایسے ہوتے ہیں جن کےاظہار کیلئے انسان اپنی تمام نثری، شعری اور ادبی صلاحیتوں کے باوجود صحیح الفاظ ڈھونڈھنے میں ناکام رہتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ الفاظ کے سارے خزانے میں، انکی ترجمانی کیلئے کوئی موزوں لفظ موجود نہیں ہے
لیکن غم واندوہ میں ڈوبے ملک  میں،زخمی دلوں اور لہو لہو آنسوؤں سے لبریز آنکھیں لاہور کے ہسپتالوں میں دیکھنے والے اس منظر سے کچھ حوصلہ پاتی ہیں کہ خون دینے والوں کی ایک لمبی قطار ہے حوصلے بلند ہیں اور اپنے بچوں کو ساتھ لئے اپنے بیٹوں کو لہو دینے کیلئے ہسپتالوں میں موجود مائیں حوصلوں کو جلا بخشتی ہیں اور تو اور ڈیوٹی پہ موجود ایک ڈاکٹر کی تصویر بھی نگاہوں سے گزری جو سفید اوورآل میں ملبوس خون کی بوتل عطیہ کر رہا ہے

لیکن سوال تو یہ ہے ؟؟؟
کہ آخر کب تک ہم اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے اور ہمارے حکمران "دشمنوں" اور "دوست نما دشمنوں" کی سازشوں سے باخبر ہونے کے باوجود کب تک مصلحتوں کا شکار رہیں گے
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار 

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد 

اتوار، 13 مارچ، 2016

تباہی کا طوفان

5 comments

شیر خان میرا پڑوسی تھا،میں نے ہوش سنبھالا تو اسے اسی مکان میں رہائش پذیر دیکھا اس کی بیوی ماسی نوراں اس کی ماموں زاد بھی تھی، "شیرا" سارے محلے کے بچوں کا "ماما" اور نوراں سب کی "ماسی" ۔ شیر خان پیشے کے لحاظ سے مستری تھا محنت مزدوری کرتا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا،رب نے اسے چار خوبصورت بیٹیوں سے نوازا تھا،بیٹے کی خواہش اسے پاگل بنائے رکھتی، بیٹے کیلئے ایک اور شادی کی خواہش گھر میں جھگڑوں کو جنم دیتی اکثر "برتن ٹکراتے"  اور پھر خاموشی چھا جاتی کچھ دن گزرتے کہ یہ "کھٹ مکھٹ" پھر سے شروع ہو جاتی، روز روز کی "چخ بخ" بڑھتی چلی گئی اوراب اکثر ایسا ہوتا کہ بات "برتنوں کے ٹکرانے" سے "مار کٹائی" کی صورت اختیار کر جاتی، شیر خان غریب تو تھا ہی "مسکین" بھی تھا بیوی کی نسبت کمزور لیکن تھا ایک محبت کرنے والا آدمی، جتنی اسے بیٹے کی چاہ تھی اس سے کہیں بڑھ کے اپنی بیوی اور بیٹیوں سے محبت کرتا اور اسی محبت میں اس نے اپنا مکان بھی بیوی کے نام کر دیا تھا لیکن مقابلے میں یہ ماں بیٹیاں اس کی بیٹے کی خواہش پر اس سے خوب جھگڑا کرتیں اور پھر ایک دن ماں بیٹیوں نے مل کر اس کی پٹائی کر دی،اگر بات پٹائی تک ہی رہتی تو اور بات تھی ماں بیٹیاں تھانے جا پہنچیں اور یوں زندگی میں پہلی بار شیرخان کو رات حوالات میں گزارنا پڑی صبح محلے کے چند بزرگوں کی مدد سے معاملہ رفع دفع ہو گیا، ماسی نوراں بہت خوش خوش ہر کسی کو بتاتی پھِرتی کہ ایک رات تھانے گزار کے آیا ہے ناں تو اب بالکل "سیدھا" ہو گیا ہے ایک ہفتہ بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ معلوم ہوا "ماما شیرا" نے ماسی نوراں کو طلاق دے دی اور نئی شادی کر لی،شیرا بیٹے کا باپ بن پایا یا نہیں یہ تو معلوم نہ ہو پایا لیکن یہ پانچوں ماں بیٹیاں مرد کے سائے سے محروم ہو گئیں اب گھر کا بوجھ بھی  انہیں خود ہی اٹھانا تھا نوراں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور اس کی "پھول سی بچیاں" لوگوں کے برتن مانجھتیں، وقت پر لگا کے اڑتا رہا بچیاں اہلِ محلہ کی کوششوں سے پیا دیس سدھار گئیں اور ماسی نوراں منوں مٹی تلے جا سوئی مامے شیرے اور ماسی نوراں کے نام وقت کے گرداب میں کہیں گم ہو گئے لیکن پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے حقوق خواتین نامی بل نے مجھے پھر سے "ماسی اور ماما" یاد دلا دئے
خواتین کے حقوق کے نام پر بل منظور کرنے والوں کو شاید معلوم نہیں کہ مرد کو پولیس کے ذریعے گھر سے نکال دیا جائے تو واپسی کے سارے رستے بند ہو جاتے ہیں ، مرد کے پاس وہ تارپیڈو ہے جس سے گھر کی کشتی تباہی سے دوچار کی جاسکتی ہے ،کوئی جج مرد کو طلاق دینے سے نہیں روک سکتا ، عورت تو غصے میں بس روٹھ سکتی ہے روٹھ کر میکے نکل جاتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی اور شوہر اس کو منا کر لے آتا ہے ، مگر شوہر یہ ذلت برداشت نہیں کرے گا طلاق دے کر نکلے گا اور کوئی قانون مرد کو طلاق دینے سے نہیں روک سکے گا ،ان قانون سازوں نے عورت سے ہمدردی نہیں کی بلکہ اسے اجاڑنے کی بنیاد رکھ دی ہے، اس قانون سے معاشرے میں طلاق اور گھروں کے اجڑنے کا وہ طوفان اٹھے گا کہ کہیں بھی کسی کو پناہ نہیں ملے گی اور جب طوفان آتے ہیں ناں تو اونچے محلوں میں بسنے والے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ پاتے

................................................................................

................................................................................
.