منگل، 5 نومبر، 2013

مرادِ رسول ﷺ

2 comments

نبی اکرم ﷺ بیت اللہ کے طواف کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچے تو دیکھا حضرت عمر فاروقؓ سر جھکائے کچھ سوچ رہے ہیں، قائد ﷺ نے اپنے جان نثارؓ پوچھا کیا سوچتے ہو عمرؓ !

جواب ملا جب میں طوافِ کعبہ کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچتا ہوں تو مجھے براہیمی سجدوں کی یاد آنے لگتی ہے اور میرا بھی جی چاہتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیروی میں سجدہ ریز ہو جاؤں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تو چاہتا ہے عمرؓ تو کیا میرا جی نہیں چاہتا ۔۔۔۔ ! میرے تو دادا تھے ابراہیم ،جس طرح میں نے تجھے اپنے رب سے مانگا اسی طرح میرے دادا نے مجھے اپنے رب سے مانگا تھا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا آپ ﷺ بھی اگر یہی چاہتے ہیں تو پھر یہ قانون بن گیا ناں۔۔! آپ ﷺ نے فرمایا نہیں عمرؓ قانون فرش پر نہیں عرش پر بنا کرتے ہیں۔ اور پھر عرش سے جواب آیا 
وإذ جعلنا البيت مثابة للناس وأمنا واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى
اے پیغمبر قیامت تک اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دے دیجئے کہ جو بھی زائرِ حرم میرے گھر کے طواف کو آئے میرے عمر کے شوقِ عبادت کی تکمیل کیلئے مقامِ ابراہیم کو اپنی سجدہ گاہ بنا لے۔ اس وقت سے سجدے شروع ہیں آج بھی ہو رہے ہیں اور اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک زائرینِ حرم بیت اللہ کے طواف کو آتے رہیں گے۔ 
سیّدنا عمرؓ جنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے رب سے مانگا تھا خلیفہ دوم کے طور پر ایسا طرزِ حکمرانی قائم کیا کہ تاریخ جس کی مثال دینے سے  قاصر ہے
ایک رات وہ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور انہیں آگ جلتی نظر آئی، یہ سوچ کر کہ شاید کوئی قافلہ ہے جس نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اس کی خبر گیری کیلئے الاؤ کی جانب چل پڑے قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ایک خیمہ ہے اور اس کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی ہے قریب ہی خیمے کے باہر ایک  شخص ضروریاتِ زندگی کا سامان کرنے کیلئے آگ جلائے ہوئے ہے۔ سلام کے بعد اس شخص سے پوچھا کہ بھلے مانس تم کون ہو اور یہ خیمے کے اندر سے آنے والی آواز کا کیا ماجرا ہے۔اس نے بتایا کہ ایک غریب الدیار شخص ہوں اور امیر المؤمنین  کی سخاوت کا چرچا سن کر مدینہ آرہا تھا کہ رات ہوگئی اور میری بیوی جو حمل سے تھی اسے دردِ زہ شروع ہوگیا آپ نے اس کی بات سن کر پوچھا کیا تمہاری بیوی کے پاس کوئی دوسری عورت موجود ہے؟
 جواب ملا کوئی نہیں
آپ  فوراً گھر لوٹے اور اپنی بیوی حضرت امّ کلثوم بنت علی  کو ساتھ لے کر واپس اس شخص کے ہاں پہنچے اپنی بیوی کو اس عورت کے پاس اندر خیمے میں بھجوایا اور خود اس شخص کے پاس بیٹھ کر آگ جلانے اور اپنے گھر سے لائے ہوئے سامان سے کھانا پکانے میں مشغول ہو گئے۔ اب وہ شخص سخت غصّے میں امیرالمؤمنین  کو برا بھلا کہ رہا تھا کہ رات کو قافلے شہر میں داخل نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے اسے اور اس کی بیوی کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔اسی اثناء میں خیمے سے بچے کے رونے کی آواز نئے مہمان کی آمد کا اعلان کرتی ہے اور سیّدہ امّ کلثوم  خیمے سےآواز دے کر کہتی ہیں امیرالمؤمنین  اپنے بھائی کو بیٹے کی خوشخبری دیجئے۔
اور اب وہ شخص کہ جو تھوڑی دیر پہلےامیر المؤمنین کو سخت سست کہ رہا تھا اسےجب معلوم ہوا کہ اس کے پاس بیٹھا ہوا شخص کوئی اور نہیں خود خلیفۃالمسلمین  ہیں تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ امیر المؤمنین نے مسافر کی پریشانی کو دیکھ کر تسلی دی کہ میں تمھارا خادم ہوں، پریشان کیوں ہوتے ہو؟ اطمینان رکھو۔ امیر المؤمنین نے دیگچی اٹھائی اور دروازہ کے قریب آ کر رکھ دی ،اپنی اہلیہ کو آواز دی کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بہن کو کھلاؤ۔
سیدنا عمر فاروق  تاریخ اسلام بلکہ تاریخِ انسانی کا وہ روشن کردار ہیں جن کی مثال رہتی دنیا تک پیش نہ کی جاسکے گی 

جن کے بارے میں جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔" [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]
صحابی رسول ﷺ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسیغلام تھاجس کا نام ابو لولو فیروز تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپکو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد یکم محرم الحرام 23ھ کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اور نبی اکرم ﷺ اور خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق  کے پہلو میں دفن ہوئیے

سلامتی ہو عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ پر کہ جن کی مثال تاریخ کبھی پیش نہ کر سکے گی




ہفتہ، 2 نومبر، 2013

مکہ کا شہزادہ

8 comments

جنگ ختم ہو چکی تھی مسلمان فتح سے ہمکنار ہو چکے تھے قیدیوں کو گرفتار کر کے ان کی مشکیں کسی جارہی تھیں کہ ان کا گزراپنےبھائی کے پاس سے ہوا جو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ایک مسلمان انہیں باندھ رہا تھا اسےمخاطب کرکے فرمایادیکھواسےاچھی طرح باندھنا اس کی ماں بڑی مالدارعورت ہے اس کی رہائی کے بدلے میں اچھی خاصی دولت ملے گی۔ جب بھائی نے سنا تو کہنے لگا تم کیسے بھائی ہو جو ایسی باتیں کر رہے ہو فرمایا میرے بھائی تم نہیں بلکہ وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے 
اپنے بھائی سےاس انداز میں بات کرنے والی یہ عظیم شخصیت کون ہیں آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں 
مکے میں کوئی شخص ان سے زیادہ حسین و خوش پوشاک اور نازو سے نعمت سے نہیں پلا تھا۔ ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اپنے مال ودولت کے بل بوتے پر اپنے جگر گوشے کو بہت ناز و نعم سے پالا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے امراء کے زیر استعمال حضرمی جوتا جو اس زمانے میں صرف امراء کے لئے مخصوص تھا وہ ان کے روزمرہ کے کام آتا تھا اور ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں بسر ہوتا۔ وہ جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی
اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں اتنی نعمتوں سے نوازا تھا وہاں ان کے دل کو بھی نہایت صاف و شفاف بنایا تھا جس پر توحید کا ایک عکس پڑنے کی دیر تھی اور پھر توحید کا جھنڈا اس انداز میں تھاما کہ اس نے انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر دیا اور وہ زندگی کے حقیقی مقصد کو جان کر اس کے حصول میں لگ گئے اور اب حال یہ تھا کہ نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی۔ انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے، نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا اور دنیاوی عیش وعشرت سے بے نیاز ہو گئے۔ اب ان کے سامنےصرف ایک ہی مقصد تھا۔ یہ وہ مقصد تھا جسے جلوۂ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پرواکر دیا تھا۔
 جب ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ان کی والدہ اور ان کے اہلِ خاندان کو ہوئی۔ توپھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی، سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم توحید‘‘ کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ اہل خاندان کے ظلم وستم سے تنگ آکر جناب رسالت مآب ﷺ کےحکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی، ہجرت کے مصائب نے ان کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا۔ اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا، حبشہ میں کچھ ہی دنوں بعد اہلِ مکہ کی اسلام قبول کرنے کی افواہ سن کر وطن کو واپس لوٹ آئے۔
اسی اثنا میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مکہ سے نکل کریثرب کی وادی میں پہنچ چکی تھیں اور وہاں کا ایک معزز طبقہ دائرہِ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔وہاں کے مسلمانوں نے  دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے اس درخواست کے جواب میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتخاب فرمایا اور ضروری ہدایات دے کر انہیں یثرب کی طرف روانہ کر دیا،جہاں انہوں نےتعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں جو بیش بہا خدمت انجام دیں اور جس حسن و خوبی کے ساتھ وہاں کی فضاء کو اسلام کے لئے ہموار کیا وہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی دعوت وتحریک اور محنت کے نتیجےمیں نبی کریمﷺ نےمکہ سے ہجرت کر کے یثرب کو اپنا مسکن بنایا جس کی بناء پریثرب کو مدینۃ النبی ﷺ  کا بلند مقام عطا ہوا۔
2 ہجری کو بدر کا میدان کارزارگرم ہوا تو میدانِ فصاحت کی طرح یہاں بھی آپ اس شان سے نکلے کہ مہاجرین کی جماعت کا سب سے بڑا پرچم ان کے ہاتھ میں تھا، ان کے بھائی کی گرفتاری کا معاملہ اسی غزوۂ بدر میں پیش آیا تھا۔
بدر کے بعد احد کے میدان میں جب داد شجاعت دینے کی باری آئی تو ایک بار پھرعلم جہاد آپ ہی کے ہاتھ میں تھا۔اور اس علم کو اس انداز میں سربلند رکھا کہ جب  مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۂ نےتلوار کے وار سےآپ کا داہنا ہاتھ شہید کر دیا تو  فوراً بائیں ہاتھ میں علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔ 

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۔۔۔۔۔۔۔ (آل عمران)  

اور پھر جب بایاں ہاتھ کٹ گیا تو دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر پرچم کو تھام لیا اور اسے سرنگوں نہ ہونے دیا اور جب دشمن کے نیزے کے وار سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جامِ شہادت نوش کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھائی ابو الدومؓ بن عمیر آگے بڑھے اور علم کو سنبھالا دے کر پہلے کی طرح بلند رکھا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔
مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ قبولِ اسلام سے قبل جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی،وہی مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالٰی عنہ آج اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے تھے کہ ان کے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر تھی۔ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے، پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا بالآخر اس حال میں دفن ہوئے کہ  سر ڈھانپ دیا گیا  اور پاؤں پر گھاس پھونس ڈال دی گئی۔
 آنحضرت ﷺ حضرت مصعبؓ کی لاش کے قریب تشریف لائےاور یہ آیت تلاوت فرمائی:۔

 مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ 

(اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا)
پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ بے شک اللہ کا رسولﷺگواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے۔‘‘ 
رضی اللہ عنھم ورضو عنہ
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے

جمعرات، 15 اگست، 2013

یہ کس کا لہو ہے کون مرا

5 comments
ٹیلی ویژن کی سکرین پر جلتی لاشیں،گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور آنسو گیس کے دھوئیں نے ایک سوگوار منظر طاری کر رکھا تھا۔ معصوم لاشے،تڑپتے بدن، جلتے خیمے،نہتے مردوزن کے مقابل جدید ہتھیاروں سے لیس فوجی اپنے نشانے آزماتے رہے. خون کی ندیاں بہتی رہیں ۔ بچے بوڑھے اور جوان مردو خواتین کٹ کٹ کے گرتے رہے ۔ یہ منظر کشمیر ، افغانستان یا فلسطین کا نہیں بلکہ مصر کے شہر قاہرہ کی مشرقی سمت میں واقع میدان رابعہ العدویہ کا ہے ۔ جہاں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مظاہرین پر مصر ہی کی فوجی جنتا کے "شیر دل" جوانوں نے کل صبح سویرے حملہ آور ہو کر 2200 سے زائد معصوم اور مسلمانوں کو شہید کر دیا۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہویا کسی مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو پوری دنیا میں ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔

 مصر کے دارالحکومت میں دن دہاڑے 2200 سے زائد لوگ گولیوں سے بھون دئیے گئے زمین ان کے خون سے گل وگلزار بنا دی گئی

ننھے منے بچے والدین کے ہاتھوں میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔


بہنیں اپنے بھائیوں کی باہوں میں دم توڑ گئیں۔

مسجدیں تاخت وتاراج کر دی گئیں

لیکن
 کسی جمہوریت کے چمپئن کے ماتھے پر کوئی بل نہیں پڑا کسی انسانی حقوق کے ٹھیکیدار کی آنکھوں میں آنسو نہیں چمکے۔ ایک ملالہ کے زخمی ہو جانے پر پوری دنیا کا میڈیا چیخ اٹھا لیکن کتنی ہی معصوم ملالائیں قاہرہ کے اس میدان میں خون میں لت پت ہوگئیں۔ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ۔ کوئی آسمان نہیں ٹوٹا کسی اوباما کسی بان کی مون کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگی ۔ کیا صرف اس لئے کہ شہید ہونے والے اپنے سروں کو صرف یک رب کے سامنے جھکاتے تھے۔ کیا اس لئے کہ یہ شہداء رب کی زمین پر ر ب کے نظام کا جھنڈا بلند کئے ہوئے تھے ۔کیا اس لئے کہ ان لوگوں نے رب کی بجائے امریکہ کی خدائی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اور کیا اس لئے کہ ان لوگوں نے فلسطین کے مظلوموں کے درد کا درماں کیا تھا۔
قاہرہ کی سڑکوں اور گلیوں بازاروں میں بہنے والا یہ معصوم لہو پکار رہا ہے ۔ اے امت مسلمہ کے بے غیرت حکمرانوں کب تک تم فرعونوں کے ساتھی بنے رہو گے۔ کیا مصر کی سڑکوں پر بہنے والے لہو کا رنگ کوئی اور ہے. کیا جن لوگوں کا خون بہایا گیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ تمہارے زبانوں پر تالے کیوں ہیں۔ بولو جواب دو
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​

بدھ، 14 اگست، 2013

لہلہاتی رہے یہ دھرتی

2 comments

لفٹی چاچاہمارے شہر میں کب آیامجھے یہ تو معلوم نہ ہو سکا لیکن ا س کے ہاتھوں کے بنے دہی بڑھے بچوں اور بڑوں کی مرغوب غذا تھی۔سکول کے راستے میں بنی ا س کی دکان ہمیشہ ہمارے قدموں کی زنجیر بن جاتی اور بڑی بے چینی سے ہم بریک ٹائم کا انتظار کرتے کہ کب ہم لفٹی چاچاکے ہاتھوں کے بنے چٹ پٹے دہی بڑھے کھانے جا پہنچیں۔لفٹی چاچایوں تو بڑا ہنس مکھ بندہ تھا، من کا سچا ،سبھی سے پیار کرنے والا۔لیکن جانے اسے کبھی کبھار کیا دورہ پڑ جاتاکہ جلدی کا شور مچانے والے بچوں پر برہم ہو جاتا۔اور اس دن تو حد ہی ہو گئی جب اس کی دکان کے باہر لگی رنگ برنگی جھنڈیوں کے بیچوں بیچ لہراتی پاکستانی جھنڈے کے رنگوں پر مشتمل جھنڈیوں کو بچوں نے توڑ کر ساتھ لے جانے کی کوشش کی تو اس نے ایک بچے کویہ کہتے ہوئے تھپڑ دے مارا کہ تم میرے وجود کے ٹکڑے کر رہے ہو۔اس وقت تو اس کی وجود والی بات میری سمجھ میں نہ آسکی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب عمر کی منزلیں طے کرتے ہوئے جب میں نے سکول سے کالج اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھا تو ایک دن ماضی کو یاد کرتے ہوئے میں لفٹی چاچا کی دکان پر جا بیٹھا۔چاچے نے بہت محبت سے دہی بڑھے کھلائے اور گاہکوں کو نمٹانے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ گپ شپ بھی لگاتا رہا۔میں نے موقع دیکھتے ہوئے لفٹی چاچا سے اس بچے کو تھپڑ مارے کا قصّہ چھیڑ دیا تو یکدم لفٹی چاچا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگا بیٹا اس لڑکے نے پاکستانی پرچم کو کھینچا تو مجھے ایسے لگا کہ اس نے میرے جسم سے میرے روح کو کھینچ لیا اور غصّے میں آکر میں نے اسے تھپڑ دے مارا۔کاش تم لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ پاکستان ہم نے کتنی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔اس دھرتی کیلئے تو میرا س کچھ چھن گیا  میرا پاکستان جس کی چھاتی پر رواں دواں دریا اس کے بیٹوں کے خون سے سرخ کر دئے گئے۔ اس کی آغوش سے پھوٹتی رحمتوں میں اس وطن کی بیٹیوں کی تار تار عصمتوں کی خوشبو رچی بسی ہے' اس کے آنگن میں رقص کرتی ندیاں' اس کے پہاڑوں میں اچھلتے کودتے چشمے' اس کے میدانوں میں شاداں و فرہاں پری رو درخت' زیبا بدن سبزے' نورنگ پھول' پھیلتی سمٹتی روشنیاں' رشک مرجاں شبنمی قطرے' لہلہاتی فصلیں' مسکراتے چمن' جہاں تاب بہاریں اور گل پرور موسم اپنے پیچھے قربانیوں کی ایک لازوال داستان لئے ہوئے ہیں۔ بیٹا یہ میرا ملک صرف ایک ملک ہی نہیں بلکہ یہ میری تقدیر بھی ہے۔ یہ میری داستان بھی ہے' یہ میرا ارماں بھی ہے۔ میرے وجود کی مٹی میں وہ دلکشی نہیں جو جاذب نظر اور دلفریبی اس کی خاک میں ہے۔ یہ پھولوں کی دھرتی اور یہ خوشبوؤں کا مسکن ہی اب میرا سب کچھ ہے یہی میرا گھر بار یہی میرا خاندان اور یہی میری داستاں ہے۔ اس کے سینے سے اٹھنے والے مسائل کے ہوکے میرے دل میں چھبنے والی سوئیاں ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی طرف کوئی ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو گویا وہ آنکھ نہیں' میرے جسم میں پیوست ہونے والا تیر ہوتا ہے۔ یہ تو وہ دھرتی ہےکہ جس کیلئے میں نے سب کچھ قربان کر دیا۔ اورصرف تن تنہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیچھے لاشوں،اور زخموں کی ایک داستان چھوڑ کے پاکستان چلا آیا۔
چاچا پاکستان کے قیام اپنے گھر بار کے لٹنے، اپنے والدین اور بھائیوں کی شہادت اور بہنوں کی لٹتی عزت کی کہانی سناتا رہا اس کی آنکھیں ساون کی طرح برستی رہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں جس کی بہنوں کی تار تار عصمتیں اور جس کے والدین اور بھائیوں کا لہو ہو اس سبز ہلالی پرچم کو کیسے سرنگوں ہونے دے سکتا ہے۔

بدھ، 7 اگست، 2013

یہی پیغامِ عید ہے

3 comments
عید الفطر کی مبارک ساعتیں لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہیں۔اللہ رب العزت بندوں کومزدوری دینے میں قطعی دیر نہیں لگاتے۔ ادھر ان کی ایک مہینے کی تربیت کے مراحل ختم ہوئے، ڈیوٹی پوری ہوئی اور اِدھر عید الفطر، انعام یایوں کہیے کہ مزدوری کی شکل میں ہمارے ذہن وفکر پر مسرتوں کا نغمہ گانے لگی۔یہ عید واقعتاً ان لوگوں کے لیے عید ہے جو رمضان کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوئے۔عیدکا دن ان روزہ داروں کے لیے خوش خبری کا دن ہے جنہوں نے اس ماہ مبارک میں عبادت کی، اپنے رب کو راضی کیا اور اس کے بدلے میں اس کی رضا بھی پائی اور اس ماہ کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے۔ انہوں نے اپنی عبادات اور روزوں سے اللہ رب العزت کی رحمت و مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا اور اپنے لیے ”جہنم سے خلاصی“ کا ایک بہت عمدہ پروانہ حاصل کیا۔ رسول کریمﷺ کا ارشادہے:”جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلةالجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رحمن و رحیم اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں:’اے محمدﷺ کی امت! اس کریم رب کی (بارگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور معاف فرمانے والا ہے۔‘
پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے:’کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں:’ہمارے معبود اور ہمارے مالک!اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔‘
اس پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:’اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ رہوکہ میں نے انہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔‘
پھر وہ اپنے تمام بندوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت و جلال کی قسم! آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔ اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (انہیں چھپاتا رہوں گا) میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں ( اور کافروں) کے سامنے رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاﺅ، تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘
اسلام دین فطرت ہے اسکی یہی خوبی اسکو دوسرے مذاہب سے ممتاز کر تی ہے۔ اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی میں تہواروں کو اک خاص اہمیت حاصل تھی۔ مگر ان کی افادیت سوائے عیش و عشرت، دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر اسلامی تہواروں نے نہ صرف عرب رسوم و رواج کی جگہ لے لی بلکہامّتکی تربیت پر ایسے نقوش چھوڑے کے ایثار و قر بانی انکی زندگیوں کا نمونہ بن گیا۔عید خوشیاں بانٹنے کا نام ہے ، آنسو پونچھنے کا نام ہے ۔اپنی خوشیوں میں ان لوگوں کو نہ بھول جائیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ہو سکتا ہے ساتھ والے گھر ، ساتھ والی گلی ، ساتھ والے محلے میں عید کسی کے لئے امتحان بن رہی ہو۔ہو سکتا ہے کوئی غریب ویران آنکھوں سے نئے کپڑوں کی فرمائش کرتے اپنے بچوں کو دیکھ رہا ہو،ہو سکتا ہے اس عید پہ کوئی سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی ناکام کوشش میں ہو،ہو سکتا ہے کہیں کوئی یتیم بچہ حسرت بھری نظروں سے اپنے چاروں طرف عید کے ہنگاموں کو دیکھ رہا ہو۔عید کے اس پر مسرّت موقع پر ان کو بھی یاد رکھئے ۔آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش کسی کے چہرے پر خوشیوں کی بہار بن سکتی ہے ۔
بس یہی پیغامِ عید ہے اور یہی حقیقی عید ہے






................................................................................

................................................................................
.