بدھ، 17 دسمبر، 2014

میرا قلم لہو لہو میری زباں لہو لہو

4 comments

43 برس بعد 16دسمبر نے ایک بار پھر سے لہو لہودسمبر کی یاد تازہ کر دی،پشاورمیں آرمی پبلک سکول میں132بچوں سمیت 142 افراد کی شہادت سےدل ودماغ قابو میں نہیں ملک کے طول وعرض میں صفِ ماتم بچھی ہےہر فرد رنجیدہ ہے، اور تو اور ایسے حادثات میں زخمیوں اور شہیدوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے والے رضاکار بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں، آج صبح بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے ہوئے میں نے معصوم بچوں کے چہروں  کو دیکھا جو آج خلافِ معمول سر جھکائے شرارتوں کی بجائے سنجیدہ سنجیدہ اپنے مادرِ علمی کی جانب رواں دواں تھے،کل صبح آرمی سکول پشاور کے وہ طلبہ بھی ایسے ہی یونیفارم پہنے اپنے اپنے سکولوں کی طرف رواں دواں ہوں گے، لیکن گھروں سے سکول روانہ کرتے ہوئے والدین کو معلوم نہ تھا کہ وہ انہیں آخری بار پیار کر رہے ہیں۔ دہشت گردی نے میرے ملک کو لہو لہان کر دیا ہے مرنے والے معصوم اپنے پیاروں کو غم واندوہ میں ڈوبا چھوڑ کے منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں تو کتنے ہی زخموں سے چور،حکومت کی طرف سے زخمیوں اور شہداء کیلئے معاوضوں کا اعلان کیا جاچکا لیکن دلوں کے زخموں پہ مرحم کون رکھے گا، ہر سال سقوطِ ڈھاکہ کے زخم کے ساتھ ایک اورزخم کا اضافہ ہوگیا،ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیںبأَيِّ ذَنبٍ قتِلَت (تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا)۔ ان معصوموں کی کہانیوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر، کوئی وکیل تو کوئی تاجر۔بہت سے ایسے تھےجو بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ اور کئی ایک تو والدین کی واحد اولاد،ان والدین پر ٹوٹی قیامت کی ترجمانی کسی صورت ممکن نہیں۔ سبزکوٹ اور سویٹر پہنے کشاں کشاں سکول جانے والے ننھے منے فرشتہ سیرت یہ بچے سفید کفن اوڑھے لہو سے غسل کرکے اپنے ابدی سفر کو روانہ ہو گئے کئی ایک کے جنازے پڑھے جاچکے تو کئی ایک کیلئے تیاری آخری مراحل میں ہےقبروں پر پھول چڑھا کر فاتحہ پڑھ کرسبھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے،دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکےعزم کا اعادہ کیا جائے گا،شہداء کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور "آمدن، نشستنِ ،خوردن، برخواستن" کے مصداق اجلاس ختم ہو جائیں گے۔ اور پھر زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ یہ حادثہ دیگر حادثوں کی طرح وقت کی گرد میں کہیں گم ہو جائے گا،ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان ہوا ہے،لیکن کیا ایسے واقعات پر صرف سوگ منا لینا کافی ہے؟؟؟؟ کیا ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا ؟؟؟؟؟ اگر حملہ آوروں کا پتہ چلا لیا گیا وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے، تو کیا ان تک پہنچنے اور بے نقاب کرنے کی کوئی سعی بار آور ہوگی ؟؟؟؟ یا پھر یوں ہی میری ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی
اجاڑ رستے،عجیب منظر،
ویران گلیاں ، یہ بند بازار
کہاں کی خوشیاں کہاں کی محفل،
شہر تو میرا لہو لہو ہے۔
وہ روتی مائیں،
بےہوش بہنیں لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں۔
اے پیارے بھیا ،
سفید کُرتا تھا سرخ کیوں ہے ؟؟؟

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

محبّت جیت جاتی ہے

10 comments

پرائمری سکول میں ٹاٹ پربیٹھےتختی لکھنے کے دوران میں دوسروں کی دوات سےقلم کا"ڈوبہ" لگانا سب سے بڑی شرارت تصورکی جاتی تووہیں خوبصورت تختی لکھنا ایک اعزاز گردانا جاتا،جب اساتذہ تعلیم کو پروفیشن نہیں فرض سمجھتے تھے اور "مار نہیں پیار" کا فلسفہ تو ابھی دور کہیں بہت بلکہ دور تھا لیکن "پولیس اور تھانہ" اس وقت بھی خوف کی علامت اور صرف خون ہی نہیں بلکہ "طالب علموں کی تختیاں" خشک کرنے کی علامت بھی تھا :) ۔انہی دنوں کی بات ہے "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کی گردان کرتا میں گیلی تختی کو خشک کرنے کی ناکام سعی میں مصروف تھا لیکن تختی تھی کہ تھانے کا نام سن کر بھی سوکھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سردیوں کی اس دوپہر میں جب سکول کی بریک ٹائم ختم ہونے میں ابھی چند منٹ ہی باقی تھے کہ مجھے یاد آیاکہ "پکڑن پکڑائی" کھیلنے کی دھن میں کل کی لکھی تختی تو میں نے دھوئی ہی نہیں اورپھر میں بھاگم بھاگ تختی دھو لایا، تختی دھو تو لایا لیکن آج سورج انکل بھی کہیں دور جا چھپے تھے اورمیں ماسٹرجی کے خوف سے گول گول گھومتا سکول کے گراؤنڈ میں تختی کو سکھانے کیلئے چکر لگاتا اسے سنائے جا رہا تھا "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کہ شاید تھانے کا خوف اسے خشک ہونے پر مجبور کردے کہ دفعتاً رمضان میاں نہ جانے کہاں سے آٹپکے اورتختی سوکھنے کی بجائےرمضان میاں کے ماتھے پر ایک بڑا سا زخم چھوڑ گئی،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھااور ادھر میرا خوف کے مارے خون خشک ہوچلا تھا،بات ہیڈماسٹرصاحب تک پہنچی اورانہوں نے "کمال محبّت" سے میری "چھترول" کرکے مجھے کل اپنا والد صاحب کو ساتھ لانے کا کہ کرسکول سے نکال دیااور یوں میری "اَن سوکھی" تختی سکول میں رہ گئی اور میں گھر آگیا شام میں ابا حضور کے سامنے بات رکھی گئی اور دوسرے دن ابا جان میرے ساتھ سکول آئے ، مجھے معافی مل گئی اور میں ہنسی خوشی اپنی کلاس میں پہنچ گیا۔لیکن یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب آخری پیریڈ میں ماسٹر صاحب نے تمام طلبہ کو اپنی اپنی تختیاں نکالنے کو کہا، اور جنہوں نے تختیاں نہیں لکھی تھیں ان کی شامت آگئی میری سوکھی تختی میرا منہ چڑا رہی تھی گویا مجھے کہ رہی ہو کل تو مجھے نہ سوکھنے پر تھانے لے جانے کی دھمکی دے رہا تھالیکن آج خود خوب پھنسا ہے ناں۔ ماسٹر صاحب نے ان تمام چھ طلبہ کو مرغا بن جانے کا آرڈردیاجوتختی نہیں لکھ کےلائے تھے،جھجھکتے جھجھکتے سب مرغا بن گئے اور اس سے پہلے کہ پٹائی شروع ہوتی ایک طالب علم نے دوڑ لگا دی اور کلاس سے فرار ہو گیا ماسٹر صاحب نے سب کو کھڑا کیا اور ایک سرے سے مارنا شروع کیا پہلی باری میری ہی تھی میرے ہاتھوں پہ دس ڈنڈے برس چکے تھے کہ دفعتاً چھٹی کی گھنٹی بج گئی، ماسٹر صاحب نے باقی لڑکوں کو چھوڑتے ہوئے کہا کہ جاؤ نامخولو( غیر معقول آدمی) کل تختیاں لکھ کے لانا۔ میں جو دس ڈنڈے کھا کر بھی بے شرموں کی طرح کھڑا تھا اس ناانصافی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ دن گزرتے گئے پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج سے ہوتے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا لیکن وہ واقعہ کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی تازہ ہو جاتا ، ماسٹر صاحب کی نا انصافی کے خلاف ایک گانٹھ میرے دل میں موجود تھی، عملی زندگی میں قدم رکھے برس گزر گئے بچپن کے دوست معلوم نہیں کہاں تھے کہ ایک دن میرے کچھ مہمان آئے بیٹھے تھے،اور میں کلینک میں مریضوں کے بنچوں پر بیٹھا تھا والد صاحب مریضوں کا چیک اپ کر رہے تھے کہ ایک لمبے قد کے بزرگ کلینک میں داخل ہوئے کچھ دیر میری طرف غور سے دیکھنے کے بعد ابا جان کی طرف بڑھ گئے ان کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی،آپ کا ایک بیٹا میرے پاس پڑھا کرتا تھا اور آپ اکثر اس کی خبر گیری کیلئے سکول آتے تھے آج میرا دل چاہا کہ اس سے ملوں، ان کی آواز سن کے میں بے اختیار اندر کی جانب لپکاسفید داڑھی اور خوبصورت چہرے والے ماسٹر اقبال صاحب آج 26سالوں بعد میرے سامنے تھے جو محبّت سے مجھے ملنے آئے تھے،ان کی محبتوں کے سامنے ان کے خلاف دل میں بن جانے والی گانٹھ، ان کے خلاف سارے گلے شکوے کہیں دور گم ہو گئے تھے۔ میں ہار گیا ان کی محبت جیت گئی اس لئے کہ نفرتوں کے مقابلے میں "محبّت جیت جاتی ہے"

منگل، 25 نومبر، 2014

ایک خوبصورت دن

10 comments
جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ عام میں شرکت کا پروگرام بنا تو بہت سے دوستوں کے ساتھ ملاقات کا پروگرام بھی ساتھ میں ہی ترتیب پا گیا،لاہور پہنچتے ساتھ ہی جو لاگ ان ہوا تو پہلا پیغام محترم بھائی مصطفٰی ملک کا موصول ہوا مجھے کال کیجئے آپ کا نمبر نہیں مل رہا اور پھر جونہی میں نہ کال ملائی اور یوں تھوڑی دیر بعد ہی ملک صاحب سے سوشل میڈیا کیمپ میں ملاقات ہو گئی۔
 
ملک صاحب بار بار بتا رہے تھے"یار او بلال آریا وا" اور میں سمجھ  نہیں پا رہا تھاکہ ملک صاحب کس "بلال" کا ذکر کررہے ہیں۔لیکن مغرب کے بعد جب سفید رنگ کی "نگوں والے بٹن" لگی قمیض شلوار میں ملبوس نوجوان کی قیادت میں اردو بلاگرز کا ایک گروپ سوشل میڈیا کیمپ میں داخل ہوا اورجومیں آگے بڑھ کر ملا تو ملک صاحب نے تعارف کا فریضہ سرانجام دیا
یہایم بلال ہیں اور پھر میں تو گویا خوشی کے مارے اچھل ہی پڑا پاک اردوانسٹالر کے موجد ایم بلال ایم میرے سامنے تھے ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں تھے میرے پاس کہ ان کی بدولت ہمیں کمپیوٹر پر ہر جگہ اردو لکھنے کی سہولت میسر آئی،ان کے ساتھ ملنسار اورہنس مکھ سے کاشف نصیرہیں۔ اور ارے میں نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں مجھے ملتے ہی آنکھوں میں شرارت سجائےکہنے لگے دیکھنا باوا بھی یہیں لاہور میں ہوتا ہے جی ہاں تو یہ ہیں کراچی سے تشریف لائے وقار اعظم ۔اور یہ "ننھا منّا" سا لڑکا جوکبھی "غیث المعرفہ" ہوتا ہے تو کبھی غلام اصغر ساجد بلاشبہ قابلِ قدر بھی ہے توایک اچھا لکھاری بھی، اور یہ بانکا سجیلا جوان مفکروں کی طرح ناک پہ چشمہ ٹکائے کون ہے بھلا معلوم نہیں اب نظر کی کمزوری ہے یا مفکر نظر آنے کا شوق لیکن چشمہ تو بہر حال خوب سجا  :)  محمد عبداللہ ہیں یہ .تصویر بنواتے وقت جھٹ سے کرسی پہ "دولہا میاں" بنے بیٹھے یہ ہیں عاطف بٹ۔ اوریہ نٹ کھٹ سا نوجوان اپنے آپ کو رضی اللہ خان بتاتا ہے، اور یہ ہیں محمداسد اسلم جنہوں نے یہ فوٹو پوسٹ کرنے کے بعد مجھے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی جو ابھی ابھی میں نے قبول بھی کرلی ۔غرض یہ ایک شاندار دن تھا جب بہت سے بلاگر مل بیٹھے۔ ملک صاحب نے تو خدمت سے معذرت کر لی کہ اب یہاں کہاں سے چائے پانی آئے لیکن جماعت اسلامی کے مرکزی ناظم آئی ٹی شمس الدین امجد اور ناظم آئی ٹی پنجاب میاں محمد زمان نے کمال محبت سے تمام بلاگرز کیلئے ریفریشمٹ کا اہتمام کیا اور جو میں وہاں سے اٹھ کے محترم بھائی فیض اللہ خان کے پاس آیا تو کسی نے میرے حصّے کی ریفریشمنٹ بھی ہضم کرلی ظالموجس نے بھی وہ کھایاہے ناں مجھے معلوم ہے وہ اگر نام بتا دیا ناں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

نمازِجنازہ

2 comments

بلدیاتی الیکشن کی گہما گہمی تھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے جاچکے تھے ،امیدوار اپنی اپنی مہم چلا رہے تھے شادی بیاہ کی تقریبات میں حاضری ،جنازوں میں شریک ہونا لازم ہو گیا تھا،کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا دن تھاسبھی امیدوار ریٹرننگ آفیسر کے آفس پہنچ چکے تھے لیکن ایک امیدوار ابھی تک غیر حاضر تھا کاغذات کی پڑتال کا عمل شروع ہو گیا،امیدواروں سے مختلف سوالات ہو رہے تھے کسی سے سورہ اخلاص تو کسی سے دعائے قنوت سنی جارہی تھی آدھ گھنٹہ گزرا تو وہ امیدوار بھی آموجود ہوا، ریٹرننگ  آفیسر نے استفسار کیا آپ دیر سے کیوں آئے۔جواب ملاایک جنازہ پڑھنے کیلئےچلا گیا تھا اس لئے دیر ہوگئی،ریٹرننگ آفیسر نے ان سے جو نمازِجنازہ سنانے کیلئے کہا تو انہیں چپ لگ گئی آفیسر کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور کہنے لگا یہ لوگ آپ کی نمازِجنازہ پڑھیں گے،کمرہ عدالت زعفرانِ زاربن گیا۔کاغذاتِ نامزدگی کی پڑتال ہو گئی،الیکشن بھی ہوگیا جیتنے والے جیت گئے اور ہارنے والے اگلے الیکشن سےامیدیں لگائے سرگرم ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو ہم میں سے کسی کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ جائے
آئیے دیکھتے ہیں نمازِجنازہ کیسے ادا ہوتی ہے اور اس میں کیا پڑھتے ہیں
جنازہ کی نماز میں دو فرض ہیں۔ (۱) تکبیراتِ اربعہ۔ (۲) قیام
اس کیلئے وہی شرائط ہیں جو فرض نماز کیلئے ہیں،نمازِجنازہ میں نہ قراءتِ قرآن ہے اور نہ رکوع و سجود و تشہد ہے،نیّت کرنے کے بعد امام بلند آواز سے اللہ اکبر کہتا ہے اور مقتدی بھی پہلی تکبیر کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھاتےہیں اورنماز کی طرح سینے پر ہاتھ باندھ لیتےہیں اس کے بعد ثناء پڑھتےہیں
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ
اس کےبعدامام ہاتھوں کوکانوں تک اٹھائے بغیردوسری تکبیر کہتاہےدوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھاجاتا ہے 
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ وَسَلَّمْتَ وَبَارَکْتَ وَرَحِمْتَ وَتَرَحَّمْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اگر یہ والا درود شریف نہ آتا ہو تو نماز والا درودِابراہیمی بھی پڑھا جا سکتا ہے
درود شریف کے بعد تیسری تکبیراوراس کےبعد تمام مومن مردوخواتین کیلئے دعائےمغفرت کی جاتی ہے،
اَللّٰھُمَّ اغفِرلِحَیِّنَاوَمَیِّتِنَاوَشَاھِدِنَاوَغَائِبِنَاوَصَغِیرِنَاوَکَبِیرِنَاوَذَکَرِنَاوَاُنثَانَااللّٰھُمَّ مَن اَحیَیطَہُ مِنَّافَاحیِہِ عَلَی الاِسلَامِ وَمَن تَوَفَّیتَہُ مِنَا فَتَوفَّہُ عَلَی الاِیمَانِ"
اگریہ دعا یادنہ ہوتو جودعایادہووہی پڑھی جا سکتی ہے لیکن وہ دعاجوآخرت سے متعلق ہو اگر کوئی یاد نہ ہو تو یہ پڑھ لینا کافی ہے
"اللّٰھُمَّ الغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ"
اگر میّتنابالغ لڑکےکی ہوتومذکورہ بالا دعا کے بجائے یہ دعا پڑھی جاتی ہے
" اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلہُ لَنَا اَجراً وَّذُخراًوَّاجعَلہُ لَنَا شَافِعا وَّ مُشَفَّعاً "
اوراگر میّت نابالغ لڑکی کی ہو تو اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّاجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً پڑھی جائے گی اس کے بعد امام صاحب چوتھی تکبیر کہتےہیں اوراس کےبعد دونوں طرفاَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُﷲِ کہتے ہوئے سلام پھیراجاتا ہے بالکل جیسے نمازمیں سلام پھیرتے ہیں

پیر، 6 اکتوبر، 2014

جمرات کی کنکریوں کا معمہ

2 comments
بچپن میں جب حاجی حج سے واپس آتے تو کھجوروں اور زم زم کے شوق میں ہم بھی بڑوں کی طرح ان سے ملنے چلے چلتے،حج کے تذکرے ہوتے، ہم نے اتنا سفر پیدل کیا،،ایسے طواف کیا ، ایسے شیطانوں کو کنکریاں ماریں تو دل میں ایک نقشہ سا بن جاتا کہ شاید وہاں کوئی شیطان کھڑے ہوتے ہوں گے جنہیں یہ حاجی صآحبان کنکریاں مار کے آتے ہیں،پھر حاجی یہ بھی بتاتے کہ جن لوگوں کا حج اللہ پاک قبول کر لیتے ہیں ناں ان کی کنکریاں وہاں سے راتوں رات غائب ہو جاتی ہیں،اور جن کا حج قبول نہیں ہو تا ان کی ماری گئی کنکریاں ایسے ہی پڑی رہ جاتی ہیں،ہم بھی بڑوں کی طرح سبحان اللہ سبحان اللہ کہے جاتے۔جن کا حج قبول نہیں ہوتا ان کیلئے دل سے افسوس ہوتا ہم حاجی صاحب کی لائی کھجوریں اور آبِ زمزم نوشِ جاں کرتے اور گھروں کو لوٹ آتے۔
وقت گزرتا رہا لیکن شیطان کو ماری جانے والی کنکریوں کا سوال تشنہ جواب ہی رہا، لیکن اس حوالے سے "العربیہ ٹی وی" کی ایک رپورٹ نے اس سوال کا جواب دے دیا۔

وادی منیٰ میں سعودی حکومت کے تعمیر کردہ الجمرات پل کا پندرہ میٹر زیر زمین تہ خانہ ہے جہاں خودکار مشینوں کے ذریعے تینوں شیطانوں کو ماری گئی کنکریاں خود بخود الگ الگ ہو کر جمع ہوتی رہتی ہیں اور پھر انھیں ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔
العربیہ کے نمائندے کو جمرات پُل کے تہ خانے میں جانے اور وہاں اس نظام کو ملاحظہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ نظام الیکٹرنک ڈورز کی طرح کام کرتا ہے۔ اور یہ جمرات کے تہ خانے میں جمع ہونے والی کنکریاں کو بڑی تیزی سے ہٹا دیتا ہے۔جمرات کے تہ خانے میں ''دو مشینی نظام'' کام کرتے ہیں اور وہ دونوں کنکریوں کو زمینی سطح سے مختلف رفتار سے منتقل کرتے ہیں۔ اس نظام کے دروازوں، ان کی طرف آنے والی کنکریوں کی مقدار اور انھیں جمع کرنے کے نظام کو برقی رو سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس میں کنکریوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے سنسر بھی لگے ہوئے ہیں۔ حج کے دنوں کے بعد جب کنکریوں کی مقدار ایک ہزار ٹن تک پہنچ جاتی ہے تو حجاج کے مشاعر سے روانہ ہونے کے بعد ان کنکریوں کو مخصوص مقامات کی جانب بھیج دیا جاتا ہے۔گذشتہ برسوں کے تجربات کی روشنی میں جمرات پل پر استعمال شدہ کنکریوں کی مقدار تین سو ٹن تک پہنچ جاتی ہے۔ جمرات پل کی ہر منزل پر برقی گیٹ لگے ہوئے ہیں اور یہ الیکٹرانک نظام انھی برقی دروازوں کے ذریعے کام کرتا ہے۔ یہ گیٹ کنکریوں کو پل کے نیچے لگے کمپریسرز کی جانب بھیج دیتے ہیں۔ الجمرات پُل کے تہ خانے میں نگرانی کے لیے کیمرے نصب ہیں اور وہاں تحفظ کے لیے دوسرے عمومی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
العربیہ ٹی وی کی اس رپورٹ نے برسوں کا معمہ حل کردیا، ویڈیو دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں 

................................................................................

................................................................................
.