منگل، 22 ستمبر، 2015

طلاق

4 comments

موبائل کی مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیا تھا لیکن اتنی دیر میں کال کٹ چکی تھی،نمازِفجر کے فوراً بعد سے مسلسل سفر کے بعد واپس لوٹتے ہی میں ذرا کمر سیدھی کرنے کو جو لیٹا تو جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا,تھوڑی ہی دیر میں کال دوبارہ آنے گی کال اٹینڈ کرنے پر بتایا گیا کوئی نور شاہ صاحب بات کر رہے ہیں میں نے عرض کیا جی فرمائیے کہنے لگےوہ جی آپ سے معلومات لینی ہیں کہ میرے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور اس کی بیوی تین ماہ کی حاملہ ہے تو کہیں سے کوئی فتوٰی مل جائے ہم نے سنا ہے کہ حاملہ عورت کو طلاق نہیں ہوتی، میں نے اپنی معلومات کے مطابق ان کی خدمت میں عرض کیا کہ دیکھئے کہ طلاق ایک ایسی چیز ہے جو مذاق میں بھی واقع ہوجاتی ہے، کہنے لگے نہیں جی دیکھیں ناں وہ غصے میں تھا تو اس نے یہ حرکت کر ڈالی میں نے پوچھا کہ کیا کوئی خوشی سے بھی طلاق دیتا ہے طلاق تو ہمیشہ غصے ہی میں دی جاتی ہے، کہنے لگے پھر بھی اگر مسئلہ حل ہو جائے میں نے انہیں کہا کہ یہ مسئلہ تو پھر کوئی "مفتی صاحب" ہی حل کر پائیں گےان صاحب کا فون بند ہو گیا لیکن میرے لئے مطالعے کی جستجو پیدا کر گیاقرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے طلاق کے احکامات پر مشتمل "سورۃ الطلاق" کے نام سےایک پوری سورۃ نازل فرمائی،میں نے اس کا مطالعہ کیا اور جو باتیں مجھے قرآن وحدیث کی رو سے سمجھ آئیں سوچا آپ سے بھی شئر کرتا چلوں،امید ہے اہلِ علم حضرات میری کسی بھی غلطی کی تصحیح فرمائیں گے۔
طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔ چار الفاظ پر مشتمل ایک ایسا لفظ ہے جو منہ سے نکالنے کے ساتھ مرد اورعورت ایک دوسرے کیلئے حرام ہو جاتے ہیں،اورشوہر کسی بات کے رد عمل یا بغیر رد عمل کے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔چونکہ جنابِ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ثلاث جدهن جد وهزلهن جد : النکاح والطلاق والرجعة.(ترمذی، ابوداؤد) تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کریں پھر بھی درست ہیں اور مذاق کریں پھر بھی صحیح مراد ہے اور وہ تین چیزیں  نکاح، طلاق اور رجوع ہیں بیوی حاملہ ہو یا غیر حاملہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ بیوی مرد پر حرام ہو گئی ہے بغیر حلالہ کے اسکے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔
طلاق کی تین اقسام ہیں
نمبر 1:طلاق بدعت--------  ایک ساتھ میں تین طلاقیں دینے کو طلاقِ بدعت کہا جاتا ہے جو غیر شرعی اور غیر پسندیدہ طریقہ ہے ۔ اس میں رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی،طلاقِ بدعت کی کئی صورتیں ہیں مچلاً یہ کہ ماہواری کے دوران طلاق دینا،یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں میاں بیوی آپس میں جنسی تعلق قائم کر چکے ہوں یا ایک ہی مجلس یا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں بیک وقت دے ڈالے۔ اس طرح طلاق دینے سے طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے لیکن طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ ایک طلاق دے دو دے یا تین، جتنی طلاقیں دے اتنی ہی دفعہ طلاق واقع ہو جاتی ہے 
نمبر 2:طلاق حسن -------- اس طریقے میں عورت کو تین طہر میں الگ الگ تین بار طلاق دی جاتی ہے لیکن یہ طریقہ بھی ٹھیک نہیں کہ اس طرح عدّت کے اختتام پر دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہتی
نمبر 3:طلاق احسن -------- طلاق دینے کا یہ طریقہ سب سے بہتر ہے کی ایک طہر میں ایک طلاق دو اور پھر عدت گزر جانے دو اس طریقے میں عدت کی مدت کے دوران دوبارہ رجوع کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے اور اگر فرض محال عدّت گزر جاتی ہے تومرد اور عورت دوبارہ نکاح کرکے پھر سے میاں بیوی بن سکتے ہیں طلاق کا یہ طریقہ سب سے بہتر تصوّر کیا جاتا ہے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طہر سے کیا مراد ہے ----------- عورت ماہواری (Manses) سے پاک ہو اور میاں بیوی نے اس دوران آپس میں جنسی تعلق قائم نہ کیا ہو اس عرصے کو طہر کہتے ہیں 
سورۃ طلاق میں اللہ رب العزت نے طلاق کا طریقہ کار بہت واضح انداز میں بیان فرما دیا ہے اور عدّت کی مدّت،حاملہ عورتوں کی عدّت اورجنہیں ماہواری نہیں آتی ان کی عدّت کے متعلق بہت وضاحت فرمائی ہے
ارشادِ ربانی ہے
اے نبی ﷺ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کیلئے طلاق دیا کرو۔اورعدت کا زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو ، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔ (زمانہ عدت میں ) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں،  الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی )کوئی صورت پیدا کر دے  پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں ) روک ر کھو، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بننے والو ) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیۓ ادا کرو۔
یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوۓ کام کرے گا اللہ اس کے لیۓ مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیۓ وہ کافی ہے ۔ اللہ اپنا کام پورا کرے کے رہتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کے لیۓ ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ اور یہی حکم ان کا ہے ۔ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو  جاۓ ۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ۔ جو اللہ ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔
ان کو (زمانہ عدت میں ) اسی جگہ رکھو جو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیۓ ان کو نہ ستاؤ۔
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جاۓ ۔ اور پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو ) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو، بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو ۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں ) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلالے گی۔ خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے ، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے ۔

پیر، 17 اگست، 2015

محبت دلیل کی محتاج نہیں

8 comments
برسوں پہلے جب اس کے والد کی مالی حالت اتنی اچھی نہ تھی کپڑے تو لے دے کے نئے بن ہی جاتے وہ بھی کبھی عید ،بقر عید پر لیکن سویٹر یا جوتے تو اکثر ہی "لندن بازار" سے خریدنے پڑتے،اللہ کے سہارے زندگی کی گاڑی چلی جارہی تھی شکر تھا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آتی اور گزر بسر اچھے انداز میں ہو ہی جاتی روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی اور یوں سفید پوشی کا بھرم قائم تھا، وقت اپنی رفتار سے چلا جا رہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا بازار سے گزرتے ہوئیے اس کے والد نے اسے نئے جوتے خرید دئیے اور "بچہ" نئے جوتے خرید کے پھولے نہ سمایا، نئے جوتوں سے اس کی محبت "دیکھنے والی" تھی، ذرا مٹی لگ جاتی تو فوراً کپڑا لے کے اسے صاف کرتا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو قمیض کے کونے سے ہی اپنی "گرگابی" صاف کر لیتا اس کے دوست جوتوں سے اس کی "محبت" پر اس کا مذاق اڑاتے لیکن وہ دیوانہ اپنے جوتوں کی محبت میں دو سال تک گرفتار رہا تاآنکہ اس کی  "گرگابی" موسموں کے سردوگرم کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی وہ تو اب بھی اسے اپنے سے جدا نہ کرتا لیکن  ایک دن جب وہ گھر پر موجود نہ تھا اس کی بڑی بہن نے ان ٹوٹے جوتوں کو اٹھا کے گھر کے پچھواڑے کچرے  کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ مہینہ بھر گزرا ہوگا کہ چھت پہ کھیلتے ہوئیے "کپڑے کی بنی گیند" بھی اسی پچھواڑے جا گری. گیند تلاش کرتے کرتے جونہی اس کی نظر اپنے جوتوں پہ پڑی اس نے جھٹ سے آگے بڑھ کے انہیں اٹھا لیا، کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے "ہونٹ" اپنی گمشدہ "گرگابی" پر رکھ دئیے اور اسے "چوم" لیا 
کہ "محبت" تو "محبت" ہوتی ہے ناں جو ٹوٹے پھوٹے، پھٹے پرانے ہونے کی  دلیل کی محتاج نہیں ہوتی

پیر، 10 اگست، 2015

آزادی کا جشن 90 کی دہائی میں

4 comments

اس گروپ کے ساتھ مجھے بھی پاکستان جانا ہے 
مگر کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ کی تو ابھی چھٹی نہیں بنتی
وہ اصل میں ناں میں 14 اگست پاکستان میں منانا چاہتا ہوں 
اور پھر مجھے چھٹی مل گئی 
یہ آج سے 25 برس پہلے کی بات ہے جب میں پاکستان کی سرحدوں سے دور تھا اور پاکستان آکر دھوم دھام کے جشنِ آزادی میں شریک ہونے کیلئے بے چین،اور جونہی مجھے چھٹی ملی بھاگم بھاگ پاکستان پہنچ گیا،تاکہ یہاں آکے پھر سے اس رونق سے لطف اندوز ہو سکوں جو یہاں کا خاصہ تھا
بچپن سے جڑی "جشنِ آزادی" کی حسین یادیں بس آج یادیں ہی ہیں کہ اب توہرسال آنے والا 14 اگست یونہی خاموشی سے گزر جاتا ہے
سکول میں چھٹیوں کے باوجود یکم اگست کو شہر کی مساجد میں سکول کھل جانے کے اعلانات ہوتے اور ساتھ ہی سکول میں حاضر نہ ہونے والے بچوں کے نام خارج کردینے کی وارننگ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اگلے ہی روز 90٪ طلبہ سکولوں میں حاضر ہوجاتے گراؤنڈ سے گھاس پھونس کوصاف کیا جاتا سب مل کے کلاس روم کی صفائی کرتے کہیں سفیدی کی ضرورت ہوتی تو "چونا" لگا کے کلاس روم کوچمکا دیتے، اور یوں چند ہی دنوں میں سکول خوب نکھرا نکھرا چمکا چمکا نظر آنے لگتا، 14 اگست کی صبح ہی صبح سارا سکول رنگ برنگی جھنڈیوں اور پاکستانی پرچموں سے سج دھج جاتا ،ہاں یاد آیا اس سے پہلےنمازِفجرمیں مسجد میں تقسیم ہونے والی "سرخ مٹھائی" اس بات کا اعلان ہوتی کہ آج پاکستان کا یومِ آزادی ہے، پاکستانی کی سلامتی کیلئے خصوصی دعاؤں کے بعد اونچی آواز میں آمین کی صدائیں اب قصہ پارینہ ہو چکیں ، سکول میں دن بھر رنگا رنگ پروگرامات، ترانے، ملی نغمے اور تقریری مقابلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوزیشن ہولڈرز میں انعامات کی تقسیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں یہ سارادن ہنستے کھیلتے اچھلتے کودتے اور عید کی طرح خوشیاں مناتے گزرتا، تحریکِ پاکستان، مہاجرین کی آمد اہلِ پاکستان کی ہمدردی وغم گساری اور اخوت وبھائی چارے کے سارے قصے انہیں تقاریب میں سنے تو نسیم حجازی کے "خاک اور خون" نے تحرکِ پاکستان کی "حقیقتوں"سے آشنا کیا اوریوں ہم اپنے آپ کو تصور ہی تصور میں ان قافلوں کا حصہ دیکھت رہے۔
14 اگست کی شام میں ان سجی سجائی رنگ برنگ جھنڈیوں کا سمیٹنا،گری پڑی  پاکستانی جھنڈے کے رنگ کی جھنڈیوں کو اٹھا کے چومنا آج بھی یاد آتا ہے تو یادوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو امڈتا چلا آتا ہے،"پپو" کے ہاتھوں چھن جانے والی"پاکستانی جھنڈیوں"پر رونا مجھے آج بھی اچھی طرح یاد آتا ہے
بچپن میں سیکھا ہوا پاکستان سے محبتوں کا سبق "خون" کی طرح جسم میں گردش کرتا ہے تو ان لوگوں کیلئے دل سے بے شمار دعائیں نکلتی ہیں جوان جذبوں کو پروان چڑھانے کا باعث بنے
پاکستان زندہ باد

منگل، 21 جولائی، 2015

حصار

14 comments

اسلام آباد کے نواحی علاقے مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں اس گاؤں کا نام مجھے اچھی طرح سے یاد نہیں لیکن وہ منظر میں بھول نہیں پایا،جب گاؤں کی گلیوں میں خوبصورت بچے اور بچیاں ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے اور تو اور ٹافیاں اور بتاشے بیچنے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا میں حیرت سے ان بچوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسے مناظر تو شادی بیاہ کی تقریبات کا خاصہ ہوتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگے کپڑے ٹافیاں بتاشے اور مہکتے پکوانوں کی خوشبو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بہت چھوٹا تھا جب والدہ کاانتقال ہو گیا مجھ سے چھوٹا بھائی لگ بھگ کوئی دو سال کاہی ہو گااور مجھ سے بڑا کوئی دس سال کے لگ بھگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں میں ہماری کریانے کی ایک چھوٹی سی "ہٹی" ہماری گزر بسر کا ذریعہ تھی لیکن لین دین روپوں پیسوں کی بجائے اجناس کی شکل میں ہوتا تھا کام بہت اچھا تو نہیں تھا لیکن گزر بسر ہو ہی جاتی، والدہ کے انتقال کے ساتھ ہی "خوشحال" رشتہ داروں نے نہ جانے کیوں ہم سے گویا ناطہ توڑ لیا تھا،"گھرداری اور دکانداری"اکٹھے چلانا ،گھر کاکام کاج بھی ہوتا تو کھاناپکانا بھی دکان کھولنا بھی مجبوری ہوتی کہ اس کے بغیر کاروبار حیات چلنا ممکن نہ تھا پھر ایک دن گاؤں میں ایک "مستری" نے آکے اپنی دکان سجائی ، ایسے پرانے "تالوں" میں لوگ اس سے "چابیاں" بنواتے جن کی چابیاں گم ہو چکی تھیں ہر چابی کے عوض وہ "آٹھ آنے" وصول کرتا میں دن بھر اس کے پاس بیٹھا اسے چابیاں بناتے دیکھتا رہا اور شام کو گھر آکے والد صاحب سے کہا کہ آپ تو اپنے گھر کے کسی تالے میں جب "چابی" ٹوٹ جائے تو خود ہی چابی بنا لیتے ہیں اور آج وہ جو تالوں میں چابی ڈالنے والا آیا تھا وہ ایک دن میں اچھے خاصے پیسے کماکے لے گیا تو آپ بھی یہی کام کیوں نہیں شروع کردیتے، والد صاحب کو یہ بات پسند آئی اگلی صبح ہم نے ایک روپے کی کوئی درجن بھرچابیاں خریدیں اور میں اور والد صاحب دونوں بھائیوں کو پڑوسیوں کے سہارے گھر چھوڑ کر قسمت آزمائی کرنے نکل کھڑے ہوئیے بستی بستی قریہ قریہ گھومتے دن میں مزدوری کرتے اور رات کسی مسجد میں ہم دونوں "مسافر" شب بسری کے بعد اگلی صبح پھر سے مزدوری کو نکل کھڑے ہوتے،اللہ نے ہماری محنت میں برکت ڈال دی کام چل پڑا لوگ ہماری آمد کے منتظر رہتے ہم اپنا "آٹا"ساتھ رکھتے کبھی کوئی کام کروانے والا کام کے بدلے میں کھانا کھلا دیتا اور کبھی ہم اپنا آٹا کسی کو دے کے "روٹی" کے ساتھ ایکسچینج کر لیتے۔ دودھ بیچنے کا رواج تو تھا نہیں لوگ دودھ سے دہی،مکھن،لسی اور گھی بناتے اور وہی گھروں میں استعمال ہوتا جن کے گھر میں کوئی گائے بھینس نہ ہوتی وہ"لسی" پڑوسیوں سے مانگ لیتے ہمیں بھی کہیں نہ کہیں سے "لسی" مل جاتی اور یوں لسی کے ساتھ خوب سیر ہو کے کھانا کھاتے صبر شکر کرتے اور رات گاؤں کی مسجد میں بسر کرنے کے بعد اگلی صبح پھر کسی دوسرے گاؤں کا رخ کرتے ، ہفتے عشرے بعد اپنے "گاؤں" کا چکر لگا آتے، وقت پر لگا کے اڑتا رہا اور پھر ہم اسلام آباد کے نواحی گاؤں میں جا نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے نواحی علاقے مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں اس گاؤں کا نام مجھے اچھی طرح سے یاد نہیں لیکن وہ منظر میں بھول نہیں پایا،جب گاؤں کی گلیوں میں خوبصورت بچے اور بچیاں ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے اور تو اور ٹافیاں اور بتاشے بیچنے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا میں حیرت سے ان بچوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسے مناظر تو شادی بیاہ کی تقریبات کا خاصہ ہوتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگے کپڑے ٹافیاں بتاشے اور مہکتے پکوانوں کی خوشبو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جاننے والے نے ہمیں اچھا سا کھانا کھلایا میں نے بھی خوب جی بھر کے کھانا کھایا اور پھر جو سوال بہت دیر سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا "والد صاحب" سے پوچھ ہی لیا، "چاچا جی" یہاں اس گاؤں میں آج کسی کی شادی ہے کیا اور والد صاحب کے جواب کی گونج آج بھی کہیں میرے ذہن کے "نہاں خانوں" میں گونجتی سنائی دیتی ہے 
نہیں پتر آج تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید کا دن ہے۔
وقت اور حالات نے محنت کی اس کمائی میں برکت عطاکی حالات بدلے گاؤں میں کریانے کی دکان خوب چل نکلی "کم منافع زیادہ سیل" کے فارمولے پہ کام چلتا رہا،گاؤں کے پرائمری سکول کے شفیق استاد "ماسٹر الف دین" صاحب کی کمال محبت سے میں نےمیٹرک تک تعلیم مکمل کر لی، ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر دوست بنے تو اس میدان میں چلا آیا۔
اور پھر اگلی صبح "ابا جی" کہنے لگے آج ایک عجیب سی بات ہوئی کسی نے گویا مجھے سوتے میں زور سے جھنجھوڑا اور کہنےلگا "ماضی کے دریچوں میں مت جھانکئیے"
"ابا جی" کا لہجہ کچھ اس انداز کا تھا کہ میں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور اب جب کہ میری انگلیاں کمپیوٹر کے "کی پیڈ" پر"ٹھک ٹھک" لکھنے میں مصروف ہیں میری آنکھوں کے سامنے "بار بار" آنسوؤں کے پردے حائل ہو جاتے ہیں۔
بچپن کی عیدوں کا تذکرہ ہوا، میں اپنی عید کاتذکرہ کیا کروں میں تواپنے "والد صاحب" کے بچپن کے عید کے حصار سے ہی کبھی نکل نہیں پایا، اور ان کے سامنے، ان کے زیرِ سایہ آج بھی ایک "بچہ" ہی ہوں 
بس اس کوہی کافی سمجھئے 
اور آخر میں حسبِ روایت ایسی ہی تحریرکیلئے میں ٹیگ کر رہا ہوں محترم ڈاکٹرجواد احمد خان، ملک غلام مصطفٰی،نورین تبسّم،اسرٰی غوری،ایم بلال ایماورجنابمحمد سلیمکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ان کی تحریروں کا انتظار رہے گا

جمعہ، 3 جولائی، 2015

32 برس پہلے کا روزہ

17 comments
جی ہاں 32 سال پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب نہ امن وامان کی صورتِ حال خراب تھی نہ نفرتوں کے بیج پھوٹے تھے،جب ایک ہی پیڈسٹل فین گھر کے سبھی افراد کو ہوا دینے کو کافی تھا اور جب نہ فریزر تھا تو نہ کولڈ ڈرنکس کی بہتات روزہ تو بس لسی اور تنور کی روٹی کھا کے رکھ لیا جاتا اور شکر یا گڑ کا شربت ہی سافٹ ڈرنک ہوتا اور اگر کہیں کسی گھر میں تھوڑی خوشحالی تھی تو وہاں "روح افزاء" ہی سب کچھ تھا، روزے پکوڑوں کے بغیر بھی افطار ہو جاتے اور جب پکوڑوں کی خواہش میں ہمارا پہلا "مکمل روزہ" میڈیسن کے ہاتھوں افطاری سے محض چند لمحے قبل جان ہار گیا 
سحری میں تنور پر پکتی روٹیوں کی "پٹک پٹک"کےساتھ بھی جب آنکھ نہ کھلتی توپاس سے گزرتی باجی چپکے سے پانی کا چھینٹا ہم پر مار جاتی اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کوئی کزن ایک چٹکی ہی کاٹ جاتا اور ہم بھی اٹھ جاتے،جب سخت گرمی کے موسم میں ہم جیسے"چھوٹے بچوں" کو روزہ نہ رکھنے دیا جاتا توسبھی کزنز آپس میں طے کرکے سوتے کہ جس کی بھی آنکھ کھل جائے وہ دوسروں کو لازماً جگائے گا تاکہ سب مل کے روزہ رکھ سکیں کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا کہ کوئی کزن اٹھ جاتا اور دوسروں کو نہ جگاتا کہ اس کے روزے دوسروں سے زیادہ ہو جائیں لیکن ہم بھی کہاں پیچھے رہنے والے ہوتے اگلے دن ، دن میں چار کی بجائے پانچ رزے رکھ کے حساب برابر کردیتے
میرے بچپن کا رمضان بھی آج ہی کے رمضان کی طرح خوب "گرما گرم" تھا۔ سحری میں تنور کی روٹی اور ساتھ میں دہی ، لسی اور گھی شکر توافطاری میں روح افزاء ، شکر کا شربت اور فروٹ میں تربوز ہی اس دور کی سوغات تھی لیکن ایک "عجیب" بات یہ تھی کہ اس دور کا روزہ "پکوڑوں" کے بغیر بھی افطار ہو جاتا تھا۔ ابا جی تراویح پڑھنےجاتے تو ہم بھی گھر سےسر پر ٹوپی سجائے بڑے نمازیوں کی طرح تراویح پڑھنے کے بہانے ساتھ آجاتے ادھر تراویح کی جماعت کھڑی ہوتی ادھرہم دوستوں کی فوج گلی میں "چھپن چھپائی" کھیلنے کو نکل پڑتی اور جب معلوم ہوتا کہ تراویح اختتام کے قریب ہے تو ہم بھی چپکے سے جا کے "آخری صف" میں ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوجاتے۔ افطاری میں روزے داروں سے بڑھ کے اپنے سامنے شربت کا گلاس رکھنا تو معمول تھا ہی تربوز پر بھی خوب ہاتھ صاف کرتے اور رات سونے سے پہلے صرف اس لئے "واش روم" نہ جاتے کہ سحری کے وقت پیشاب کے دباؤ سے آنکھ کھل جائے گی اور پھر کل روزہ رکھیں گے۔
وہ ایسا ہی گرمی کا اک دن تھا جب میں نے ضد کرکے پورا روزہ رکھنے کی ٹھان لی دوپہر بارہ بجے تک تو کام ٹھیک ہی چلتا رہا لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی عصر کے قریب میں نے ضد شروع کی کی افطاری میں میں تو "پکوڑے" بھی کھاؤں گا۔ ابا جان سے "دوروپے" لے کے جو پکوڑوں کی ریڑھی کے پاس پہنچا تو سر ہلکا سا چکرایا فوراً واپسی کی راہ لی لیکن ابھی "کلینک" سے چند قدم دور ہی تھا کی زور سے لڑکھڑایا ابا جان جو میری واپسی کے منتظر تھے کہ میں لوٹوں تو گھر جایا جائے فوراً مجھے تھامنے کو آگے بڑھے لیکن میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا چکا تھا ، میڈیسن کے ہاتھوں افطاری سے چند لمحے پہلے میرا "پہلا روزہ" دم توڑ گیا
رمضان کی سحری اور افطاری کے ساتھ وابستہ حسین یادیں جہاں زندگی کا خوبصورت سرمایہ ہیں وہیں ہر سال آنے والا "رمضان" ایک مہربان "ہستی" کی یادوں کو بھی تازہ کر جاتا ہے ایسے ہی ایک "رمضان" میں جب میں چوتھی کلاس کا طالب علم تھا 1983 کے 9 رمضان المبارک میں میری "ماں" اس دنیا سے رخصت ہو گئیں زندگی کے گزرتے لمحوں میں دکھ اور تکلیف کی بجائے سکھ اور چین کے لمحے ہمیشہ ان کی یادوں کو تازہ کر دیتے ہیں۔
میں شکر گزار ہوں محترمہ کوثر بیگ صاحبہ کا جن کی پہلی"رمضان تحریر"نے بچپن کےرمضان کو ایک تحریری چین(Chain) بنا دیا
خصوصی شکریہ محترم رمضان رفیق صاحب کا جنہوں نے مجھے خصوصی طور پر ٹیگ کیا اور یہ تحریر ضبطِ قلم میں آسکی
اختتام پر میں بھی کچھ لوگوں کو ٹیگ کرتا چلوں تاکہ کچھ اور خوبصورت یادوں سے ہم لطف اندوز ہو سکیں
محترم محمد سلیم ، نورین تبسّم ، اسرٰی غوری ، ایم بلال ایم ، غلام اصغر ساجد ، وجدان عالم اور محترم مصطفٰی ملک صاحب کی"رمضانی" تحریروں کا انتظار رہے گا

................................................................................

................................................................................
.