اتوار، 28 فروری، 2016

میں کیوں لکھتا ہوں ؟

7 comments

کاغذ اور قلم بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ قلم اور تختی کا بچپن سے قائم رشتہ اس وقت کی بورڈ اور سکرین میں بدل گیا جب میں نے انٹر نیٹ پر رنگ برنگے اردو بلاگ دیکھے،میں مشکور ہوں جناب مصطفٰی ملک صاحب کا جن کی تحریک نے مجھ جیسے طالبعلم کو اردو بلاگرز کی صف میں لا کھڑا کیا ،اور حقیقت یہی ہے کہ میں آج بھی کلاس میں سب سے آخری رو میں بیٹھا وہ طالب علم ہوں جسے اپنا سبق یاد نہیں ہوتا ۔
بس احساسات کی ایک دولت ہے جو بے چین کرتی ہے تو خیالات قلم کے ذریعے قرطا س پہ بکھرتے چلے جاتے ہیں اوریوں کمپیوٹر کے کی بورڈ پہ ٹھک ٹھک چلتی انگلیاں ان خیالات کو پردہ سکرین پر الفاظ کی صورت ڈھا ل دیتی ہیں جس کی نتیجے میں ایک ذہنی سکون اور ایک نامکمل سی آسودگی طبیعت میں در آتی ہے کہ میں نے اپنے حصّے کاکام مکمل کر لیااس لئے کہ
ڈھنگ کی بات لوگ سن لیں گے

شوروغوغا کے باوجود حسن


حرفِ آرزو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہشوں اور آرزؤں کو زبان دینے،کچھ دل کی باتیں آپ تک پہنچانے اور کچھ آپ کی باتیں سننے،کچھ پرانے قصّے دہرانے،شاندار ماضی کا تذکرہ کرنے،اس دیس اور اس دیس کے گلی کوچوں اور چوکوں چوراہوں اس کی بستیوں اور گوٹھوں میں رچی بسی حسِین روایات اور خوشبوؤں کا نام ہے گویا محسوسات سے معنویّت کا سفر حرفِ آرزو کا عنوان ہے

یہ سوال میں نے خود اپنے آپ سے کیا
کہ آخر میں کیوں لکھتا ہوں؟؟؟؟؟
تو دل کے کسی نہاں خانے سے کوئی آوازجواب بن کے ابھری کہ تم زندگی کی اس چہل پہل میں سرگرداں کیوں نظر آتے ہو،تمہاری آنکھیں کیوں اردگرد کے مناظر کو دیکھتی اور ذہن کے پردوں میں محفوظ کرتی چلی جاتی ہیں ،اور کیوں تمہارا تھکن سے چور بدن نیند کی وادیوں میں اتر کر پرسکون ہو جاتا ہے
تب مجھے معلوم ہواکہ خوابوں اور خیالوں ۔۔۔۔۔۔۔ تجربے اور مشاہدے اور سوچ وفکر کو لفظوں کا پیرہن دے کر قلم وقرطاس کے حوالے کرنا میری فطرت کا تقاضا ہے،لکھنا میرا شوق ہے جسے میرے قارئین کے تبصروں اور ان کی حوصلہ افزائی نے جلا بخشی،مطالعے نے مجھے لفظوں کا چناؤ سکھایاتو حالات و واقعات نے اس شوق کو جنون بنا ڈالا،
مستقبل میں میں اپنے بلاگ کو کہاں دیکھتا ہوں تو بس اتنا ہی کہوں گا
اپنا چہرہ ہو ہر اک تصویر میں
فن یہی ہے اور یہی ہے معراجِ فن
یہ دو منٹ کی وہ تقریر ہے جو اردو بلاگرز کی منتخب تحاریرپر مشتمل کتاب "بے لاگ"کی تقریب رونمائی میں 28 فروری 2016 کو الحمرا ہال لاہور میں کی گئی۔

پیر، 28 دسمبر، 2015

اشکے کہ زدل خیزد

4 comments
ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔ ابا جان بھی چلے گئے (انا للہ وانا الیہ راجعون )،جوانوں کی سی ہمّت،عزم و حوصلے کا کوہِ گراں کبھی ان کے ساتھ جو پیدل چلنا پڑے تو ان کا ساتھ دینا مشکل ہو جاتا78سال کی عمر میں بھی چاق وچوبند،دل ،شوگر ،پھیپھڑوں اور گردوں کے عوارض کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا،زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی اور اہلِ خانہ کی نمازوں کیلئے فکر مند رہے وفات سے تین روز قبل تک نہ صرف پنج وقتہ نمازبلکہ تہجد کیلئے بھی باقاعدگی سے اہتمام کرتے رہے،پوری زندگی اللہ کے دین اور اللہ کی مخلوق کی خدمت میں وقف کئے رکھی،نہ صرف لوگوں کی جسمانی صحت بلکہ ان کی روحانی صحت کیلئے بھی فکر دامن گیر رہتی قرآن سے لوگوں کو جوڑنے اور زندگیوں کو منوّر کرنے کیلئے شہر میں قرآن کلاس کی روایت شروع کی اور ہزاروں مردو خواتین تک قرآن کے پیغام کو پہنچانے کیلئے پروفیسر عرفان احمد صاحب کے ذریعے مسلسل کئی بار قرآن کلاسز کا اہتمام کروایا حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ فریضہ اقامت دین کیلئے وقف تھا،ان کی ساری زندگی کی تگ و دو اللہ کی رضا کے حصول کیلئے تھی اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اللہ کی رضا کا ذریعہ بنایایہی وجہ تھی کہ ان کی رخصتی پر لوگوں نے گواہی دی کہ واقعی یہ اللہ کا بندہ لوگوں کی بے لوث خدمت کرتا تھادور تک پھیلی ہوئی جنازے کی صفیں دیکھ کر بڑے بوڑھوں نے گواہی دی کہ آج تک اس قبرستان میں دفن ہونے والے کسی شخص کا اتنا بڑا جنازہ ہم نے نہیں دیکھا،انسان ساری زندگی تگ ودو کرتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کر لے لیکن دمِ رخصت معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو پایا کہ نہیں لیکن ابا جان کی خوش نصیبی تھی کہ لوگوں نے گواہی دی کہ یہ شخص کامران ٹھہرا۔
اباجان کا بچپن کسمپرسی کی حالت میں گزرا بچپن ہی سے محنت کے عادی تھے والدہ کی وفات کے بعد گھر اور گھر داری کو بھی چلایا تو کاروبارِ زندگی بھی ،لیکن کبھی بھی خودی اور خودداری پر آنچ نہ آنے دی۔حق کی تلاش میں شیعیّت سے دیوبند اور دیوبند سے جماعت اسلامی تک کے سفر کی داستان لکھنے کیلئے کئی صفحات درکار ہیں ،جہاں بھی گئے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت صفِ اوّل میں شمار کئے گئے ،گاؤں میں اہل تشیع کے سرکردہ لوگوں کی کمیٹی کے سینئر ممبر رہے تو سپاہِ صحابہ کے جنرل سیکرٹری بھی بنے ،دین کی دعوت کو لے کر قریہ قریہ لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی دھن میں تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت بھی گزارا،مولانا غلام سرور مرحوم(علامہ اقبال کالونی راولپنڈی والے) کے ساتھ شناسائی ہوئی تو ان کے ذریعے سیّد ابولاعلٰی مودودیؒ کے لٹریچر تک رسائی ہوئی ،جماعت اسلامی کے کارکن بنے تو یہی تحریک ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونابنی اور پھرزندگی کے آخری لمحوں تک اسی کے ساتھ وابستہ رہے جماعت اسلامی زون 17کے امیر رہے ،امیرِ شہر کی ذمہ داریاں نبھائیں طویل عرصہ سے وقتِ آخر تک ضلعی مجلسِ شوریٰ کے منتخب رکن رہے اور الخدمت فاؤ نڈیشن کی کوئی بھی سرگرمی ان کی شرکت کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی۔قیدوبند کی صعوبتیں گلی،محلے کی مخالفتیںاوروڈیرہ شاہی کی دشمنی ان کی منزل کو کھوٹا نہ کر سکی۔ اکثر ایک بات کہتے کہ میں نے نماز کی درستگی اور اپنی ذات کی اصلاح تبلیغی جماعت سے ،مشن اور نصب العین کیلئے مالی ایثار اہلِ تشیع سے اورمخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق کیلئے ڈٹ جانے کا سبق جماعت اسلامی سے سیکھا،زندگی میں مشکل حالات کا مقابلہ جوانمردی سے کیا تو اللہ نے اپنی بے بہا نعمتوں اور رحمتوں سے بھی نوازا لیکن معاشرتی روایات کے برعکس مالی آسودگی ان کے رہن سہن اور چلت پھرت پراثر انداز نہ ہو سکی ،ایمانداری اور سادگی ان کی زندگی کا خاصہ تھی ہمیشہ سفید رنگ کے کپڑے پہنتے سادہ غذا استعمال کرتے ،انہوں نے کبھی اپنے ماضی سے رشتہ نہیں توڑا،عزیزوں رشتہ داروں اور اہلِ محلہ کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی تھے دکھ سکھ میں کام آنا غریبوں کی مدد کرنا حاجت مندوں کے کام آنا ان کی نمایاں خصوصیات تھیں کتنے ہی گھروں کے چولہے ان کی بدولت گرم رہتے ،ہمارے کلینک پر مدارس کے طلبہ کو مفت علاج معالجے کی سہولیات میسر تھیں ، انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کیا۔ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو ذریعہ معاش بنایا تواسے صرف رزق روزی کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت اور خدمت خلق کا ذریعہ بھی سمجھا ،مریضوں کے مسائل کو سلجھانے اور ان کی بیماری کو صحت میں بدلنے کیلئے اپنے تمام تر صلاحیتوں کو صرف کیااپنے پیشے اور فن میں طاق تھے اور پورے اخلاص کے ساتھ دکھی انسانیّت اور ہومیو پیتھی کی خدمت کی ،کبھی کلینک میں ایلوپیتھک ادویات کو گھسنے نہیں دیا منافع اور ڈسکاؤنٹ کی بجائے ہمیشہ معیار کو ترجیع دی۔
2006میں پہلی بار ہارٹ اٹیک ہوا تین دن بعد ہسپتال سے واپس لوٹے تو طبیعت بہتر ہوتے ہی دوبارہ زندگی کی مصروفیات کی طرف لوٹ آئے،ڈاکٹر نے انجیو گرافی کا مشورہ دیا تو ہنس کر کہنے لگے ڈاکٹر صاحب جو زندگی تھی وہ تو میں گزار چکا ہوں اب توجو دن مل جائیں وہ بونس ہے کیوں مجھے چکروں میں ڈالتے ہیں بس جو زندگی باقی ہے وہ سکون سے گزر جائے یہی کافی ہے،عیدالاضحٰی پر اجتماعی قربانی کیلئے جانوروں کی خریداری میں مگن رہے کئی بار بہت دور تک پیدل چل کے بھی جانا پڑا جس کے باعث تھکاوٹ ہو جاتی لیکن اگلے دن پھر سے تازہ دم ہو کے ساتھیوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے اسی بھاگ دوڑ میں ان کی طبیعت ناساز ہوئی اور پھر یکم اکتوبر 2015کو دل کی شدید تکلیف کے باعث انہیں اے ایف آئی سی راولپنڈی لے جایا گیاچند دن کے بعد طبیعت پھر سے بحال ہونا شروع ہوگئی مسجد تک چل کے چلے جاتے لیکن کمزوری حد سے زیادہ بڑھ رہی تھی پھیپھڑوں میں شدید انفیکشن اور سانس کی تکلیف بھی ساتھ میں ہوگئی 25نومبر کو ایس ایم حسین ساملی سینیٹوریم مری میں ایڈمٹ ہوئے پانچ دن بعد اچانک تکلیف میں شدت پیدا ہوئی وہاں سے ڈی ایچ کیو راولپنڈی،پھر آر آئی سی، اور پھر وہاں سے پمز ہاسپٹل اسلام آباد منتقل کیا گیاجہاں دو دن تک مسلسل آکسیجن پر رہے اور پھر یکم اور دو دسمبر منگل اور بدھ کی درمیانی شب اللہ کے دین کایہ سپاہی اپنی مستعار زندگی کے 78برس مکمل کرکے رب ذوالجلال کے حضور اس انداز میں حاضر ہوگیا کہ مرنے سے چند گھنٹے قبل تک بھی انہیں اپنی اور اپنی اولاد کی نمازوں کی فکر تھی عصر کے وقت مجھ سے پوچھا کہ کیا چار نہیں بجے جب میں نے بتایا کی چار بج چکے ہیں تو کہنے لگے تو پھر جا کے نماز پڑھ آؤ.
میں بہت چھوٹا تھا جب 21جون 1983کو میری والدہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اباجان نے والدہ کی وفات کے بعد ہمیں نہ صرف باپ بلکہ ماں کا پیار بھی دیا جب امّی جان کا انتقال ہوا تو اس روز منگل کا دن تھا اور آج جب ابا جان اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بدھ کا دن تھا،آج ساڑھے32برس گزرنے کے بعد بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ منگل کی سہ پہر میں نے اپنی والدہ کو دفن کیا اور ٹھیک 24گھنٹے بعد بدھ کی سہ پہر ابا جان منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں ساڑھے بتیس برس نہیں بلکہ صرف ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو بہت ہی محبت کرنے والی اور بے لوث دعاؤں کے خزانوں سے ہم محروم ہو گئے،
رب کائنات کا دستور ہے یہاں آنے والا ایک دن رخصت ہوتا ہے کوئی کتنا بھی جی لے اسے ایک دن جانا ہے ، اللہ رب العزت ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی آخرت کی منزلوں کو آسان کرے آمین

منگل، 22 ستمبر، 2015

طلاق

4 comments

موبائل کی مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیا تھا لیکن اتنی دیر میں کال کٹ چکی تھی،نمازِفجر کے فوراً بعد سے مسلسل سفر کے بعد واپس لوٹتے ہی میں ذرا کمر سیدھی کرنے کو جو لیٹا تو جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا,تھوڑی ہی دیر میں کال دوبارہ آنے گی کال اٹینڈ کرنے پر بتایا گیا کوئی نور شاہ صاحب بات کر رہے ہیں میں نے عرض کیا جی فرمائیے کہنے لگےوہ جی آپ سے معلومات لینی ہیں کہ میرے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور اس کی بیوی تین ماہ کی حاملہ ہے تو کہیں سے کوئی فتوٰی مل جائے ہم نے سنا ہے کہ حاملہ عورت کو طلاق نہیں ہوتی، میں نے اپنی معلومات کے مطابق ان کی خدمت میں عرض کیا کہ دیکھئے کہ طلاق ایک ایسی چیز ہے جو مذاق میں بھی واقع ہوجاتی ہے، کہنے لگے نہیں جی دیکھیں ناں وہ غصے میں تھا تو اس نے یہ حرکت کر ڈالی میں نے پوچھا کہ کیا کوئی خوشی سے بھی طلاق دیتا ہے طلاق تو ہمیشہ غصے ہی میں دی جاتی ہے، کہنے لگے پھر بھی اگر مسئلہ حل ہو جائے میں نے انہیں کہا کہ یہ مسئلہ تو پھر کوئی "مفتی صاحب" ہی حل کر پائیں گےان صاحب کا فون بند ہو گیا لیکن میرے لئے مطالعے کی جستجو پیدا کر گیاقرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے طلاق کے احکامات پر مشتمل "سورۃ الطلاق" کے نام سےایک پوری سورۃ نازل فرمائی،میں نے اس کا مطالعہ کیا اور جو باتیں مجھے قرآن وحدیث کی رو سے سمجھ آئیں سوچا آپ سے بھی شئر کرتا چلوں،امید ہے اہلِ علم حضرات میری کسی بھی غلطی کی تصحیح فرمائیں گے۔
طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔ چار الفاظ پر مشتمل ایک ایسا لفظ ہے جو منہ سے نکالنے کے ساتھ مرد اورعورت ایک دوسرے کیلئے حرام ہو جاتے ہیں،اورشوہر کسی بات کے رد عمل یا بغیر رد عمل کے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔چونکہ جنابِ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ثلاث جدهن جد وهزلهن جد : النکاح والطلاق والرجعة.(ترمذی، ابوداؤد) تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کریں پھر بھی درست ہیں اور مذاق کریں پھر بھی صحیح مراد ہے اور وہ تین چیزیں  نکاح، طلاق اور رجوع ہیں بیوی حاملہ ہو یا غیر حاملہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ بیوی مرد پر حرام ہو گئی ہے بغیر حلالہ کے اسکے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔
طلاق کی تین اقسام ہیں
نمبر 1:طلاق بدعت--------  ایک ساتھ میں تین طلاقیں دینے کو طلاقِ بدعت کہا جاتا ہے جو غیر شرعی اور غیر پسندیدہ طریقہ ہے ۔ اس میں رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی،طلاقِ بدعت کی کئی صورتیں ہیں مچلاً یہ کہ ماہواری کے دوران طلاق دینا،یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں میاں بیوی آپس میں جنسی تعلق قائم کر چکے ہوں یا ایک ہی مجلس یا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں بیک وقت دے ڈالے۔ اس طرح طلاق دینے سے طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے لیکن طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ ایک طلاق دے دو دے یا تین، جتنی طلاقیں دے اتنی ہی دفعہ طلاق واقع ہو جاتی ہے 
نمبر 2:طلاق حسن -------- اس طریقے میں عورت کو تین طہر میں الگ الگ تین بار طلاق دی جاتی ہے لیکن یہ طریقہ بھی ٹھیک نہیں کہ اس طرح عدّت کے اختتام پر دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہتی
نمبر 3:طلاق احسن -------- طلاق دینے کا یہ طریقہ سب سے بہتر ہے کی ایک طہر میں ایک طلاق دو اور پھر عدت گزر جانے دو اس طریقے میں عدت کی مدت کے دوران دوبارہ رجوع کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے اور اگر فرض محال عدّت گزر جاتی ہے تومرد اور عورت دوبارہ نکاح کرکے پھر سے میاں بیوی بن سکتے ہیں طلاق کا یہ طریقہ سب سے بہتر تصوّر کیا جاتا ہے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طہر سے کیا مراد ہے ----------- عورت ماہواری (Manses) سے پاک ہو اور میاں بیوی نے اس دوران آپس میں جنسی تعلق قائم نہ کیا ہو اس عرصے کو طہر کہتے ہیں 
سورۃ طلاق میں اللہ رب العزت نے طلاق کا طریقہ کار بہت واضح انداز میں بیان فرما دیا ہے اور عدّت کی مدّت،حاملہ عورتوں کی عدّت اورجنہیں ماہواری نہیں آتی ان کی عدّت کے متعلق بہت وضاحت فرمائی ہے
ارشادِ ربانی ہے
اے نبی ﷺ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کیلئے طلاق دیا کرو۔اورعدت کا زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو ، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔ (زمانہ عدت میں ) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں،  الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی )کوئی صورت پیدا کر دے  پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں ) روک ر کھو، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بننے والو ) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیۓ ادا کرو۔
یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوۓ کام کرے گا اللہ اس کے لیۓ مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیۓ وہ کافی ہے ۔ اللہ اپنا کام پورا کرے کے رہتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کے لیۓ ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ اور یہی حکم ان کا ہے ۔ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو  جاۓ ۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ۔ جو اللہ ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔
ان کو (زمانہ عدت میں ) اسی جگہ رکھو جو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیۓ ان کو نہ ستاؤ۔
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جاۓ ۔ اور پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو ) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو، بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو ۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں ) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلالے گی۔ خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے ، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے ۔

پیر، 17 اگست، 2015

محبت دلیل کی محتاج نہیں

8 comments
برسوں پہلے جب اس کے والد کی مالی حالت اتنی اچھی نہ تھی کپڑے تو لے دے کے نئے بن ہی جاتے وہ بھی کبھی عید ،بقر عید پر لیکن سویٹر یا جوتے تو اکثر ہی "لندن بازار" سے خریدنے پڑتے،اللہ کے سہارے زندگی کی گاڑی چلی جارہی تھی شکر تھا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آتی اور گزر بسر اچھے انداز میں ہو ہی جاتی روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی اور یوں سفید پوشی کا بھرم قائم تھا، وقت اپنی رفتار سے چلا جا رہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا بازار سے گزرتے ہوئیے اس کے والد نے اسے نئے جوتے خرید دئیے اور "بچہ" نئے جوتے خرید کے پھولے نہ سمایا، نئے جوتوں سے اس کی محبت "دیکھنے والی" تھی، ذرا مٹی لگ جاتی تو فوراً کپڑا لے کے اسے صاف کرتا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو قمیض کے کونے سے ہی اپنی "گرگابی" صاف کر لیتا اس کے دوست جوتوں سے اس کی "محبت" پر اس کا مذاق اڑاتے لیکن وہ دیوانہ اپنے جوتوں کی محبت میں دو سال تک گرفتار رہا تاآنکہ اس کی  "گرگابی" موسموں کے سردوگرم کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی وہ تو اب بھی اسے اپنے سے جدا نہ کرتا لیکن  ایک دن جب وہ گھر پر موجود نہ تھا اس کی بڑی بہن نے ان ٹوٹے جوتوں کو اٹھا کے گھر کے پچھواڑے کچرے  کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ مہینہ بھر گزرا ہوگا کہ چھت پہ کھیلتے ہوئیے "کپڑے کی بنی گیند" بھی اسی پچھواڑے جا گری. گیند تلاش کرتے کرتے جونہی اس کی نظر اپنے جوتوں پہ پڑی اس نے جھٹ سے آگے بڑھ کے انہیں اٹھا لیا، کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے "ہونٹ" اپنی گمشدہ "گرگابی" پر رکھ دئیے اور اسے "چوم" لیا 
کہ "محبت" تو "محبت" ہوتی ہے ناں جو ٹوٹے پھوٹے، پھٹے پرانے ہونے کی  دلیل کی محتاج نہیں ہوتی

پیر، 10 اگست، 2015

آزادی کا جشن 90 کی دہائی میں

4 comments

اس گروپ کے ساتھ مجھے بھی پاکستان جانا ہے 
مگر کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ کی تو ابھی چھٹی نہیں بنتی
وہ اصل میں ناں میں 14 اگست پاکستان میں منانا چاہتا ہوں 
اور پھر مجھے چھٹی مل گئی 
یہ آج سے 25 برس پہلے کی بات ہے جب میں پاکستان کی سرحدوں سے دور تھا اور پاکستان آکر دھوم دھام کے جشنِ آزادی میں شریک ہونے کیلئے بے چین،اور جونہی مجھے چھٹی ملی بھاگم بھاگ پاکستان پہنچ گیا،تاکہ یہاں آکے پھر سے اس رونق سے لطف اندوز ہو سکوں جو یہاں کا خاصہ تھا
بچپن سے جڑی "جشنِ آزادی" کی حسین یادیں بس آج یادیں ہی ہیں کہ اب توہرسال آنے والا 14 اگست یونہی خاموشی سے گزر جاتا ہے
سکول میں چھٹیوں کے باوجود یکم اگست کو شہر کی مساجد میں سکول کھل جانے کے اعلانات ہوتے اور ساتھ ہی سکول میں حاضر نہ ہونے والے بچوں کے نام خارج کردینے کی وارننگ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اگلے ہی روز 90٪ طلبہ سکولوں میں حاضر ہوجاتے گراؤنڈ سے گھاس پھونس کوصاف کیا جاتا سب مل کے کلاس روم کی صفائی کرتے کہیں سفیدی کی ضرورت ہوتی تو "چونا" لگا کے کلاس روم کوچمکا دیتے، اور یوں چند ہی دنوں میں سکول خوب نکھرا نکھرا چمکا چمکا نظر آنے لگتا، 14 اگست کی صبح ہی صبح سارا سکول رنگ برنگی جھنڈیوں اور پاکستانی پرچموں سے سج دھج جاتا ،ہاں یاد آیا اس سے پہلےنمازِفجرمیں مسجد میں تقسیم ہونے والی "سرخ مٹھائی" اس بات کا اعلان ہوتی کہ آج پاکستان کا یومِ آزادی ہے، پاکستانی کی سلامتی کیلئے خصوصی دعاؤں کے بعد اونچی آواز میں آمین کی صدائیں اب قصہ پارینہ ہو چکیں ، سکول میں دن بھر رنگا رنگ پروگرامات، ترانے، ملی نغمے اور تقریری مقابلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوزیشن ہولڈرز میں انعامات کی تقسیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں یہ سارادن ہنستے کھیلتے اچھلتے کودتے اور عید کی طرح خوشیاں مناتے گزرتا، تحریکِ پاکستان، مہاجرین کی آمد اہلِ پاکستان کی ہمدردی وغم گساری اور اخوت وبھائی چارے کے سارے قصے انہیں تقاریب میں سنے تو نسیم حجازی کے "خاک اور خون" نے تحرکِ پاکستان کی "حقیقتوں"سے آشنا کیا اوریوں ہم اپنے آپ کو تصور ہی تصور میں ان قافلوں کا حصہ دیکھت رہے۔
14 اگست کی شام میں ان سجی سجائی رنگ برنگ جھنڈیوں کا سمیٹنا،گری پڑی  پاکستانی جھنڈے کے رنگ کی جھنڈیوں کو اٹھا کے چومنا آج بھی یاد آتا ہے تو یادوں کا ایک سیلِ رواں ہے جو امڈتا چلا آتا ہے،"پپو" کے ہاتھوں چھن جانے والی"پاکستانی جھنڈیوں"پر رونا مجھے آج بھی اچھی طرح یاد آتا ہے
بچپن میں سیکھا ہوا پاکستان سے محبتوں کا سبق "خون" کی طرح جسم میں گردش کرتا ہے تو ان لوگوں کیلئے دل سے بے شمار دعائیں نکلتی ہیں جوان جذبوں کو پروان چڑھانے کا باعث بنے
پاکستان زندہ باد

................................................................................

................................................................................
.