منگل، 27 مئی، 2014

دوتصویریں معاشرے کے البم سے

7 comments
پینٹ شرٹ میں ملبوس،آنکھوں پر Ray-ban کا چشمہ لگائے،کلین شیو، 50 کے پیٹے کا وہ آدمی میرے کلینک میں داخل ہوا تو پہلی نظر دیکھنے میں لبرل قسم کا آدمی لگا۔ یہ میری اور اس کی پہلی ملاقات تھی دو دن پہلے ہی میں نے اسے فون کیا تھا اس نے میری میز پر 50000 روپے رکھے اور بتایا یہ عشر کی رقم ہے میں نے "پھلائی" کچھ درخت
بیچےتوسوچااس کا عشر آپ کودےآؤں.میں(کہ جو"داڑھی" رکھ کر اپنے آپ کو بہت دین دارسمجھنے لگ گیا تھا)حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا، میری حیرانگی کو بھانپتے ہوئے کہنے لگےدرخت بھی زمین سے حاصل ہونے والی فصل ہی کی تو مانند ہوتے ہیں ناں اس لئے اس فصل پر بھی عشر لاگو ہوتا ہے اس لئے میری اس فصل کا عشر50000روپے بنتا ہے جو آپ "آغوش" کیلئے رکھ لیں میں نے ان کے نام کی رسید کاٹی اور ان کے حوالے کر کے شکریہ اداکیا تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی
ڈاکٹر صاحب شکریہ کیسا یہ تو ایک فرض تھا جو ادا کیا گیا
شکریہ تو آپ کا جو ہمیں اس فرض کی ادائیگی کا موقع فراہم کرتے ہیں
اوروہ جانے کیلئے کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اوراپنے لئے بے پناہ احترام چھوڑ گئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حاجی صاحب اپنے اہل وعیال کے ساتھ ایک طویل عرصے سے میرے پاس علاج معالجے کیلئے تشریف لاتے ہیں علاقے کے ایک بڑے زمیندار ہیں،میں نے سوال کیا کتنی گدم ہو جاتی ہو گی آپ کی فرمانے لگے کوئی دو ہزار بوری سے تو زائد ہی ہو جاتی ہوگی، میں نے عشر کے حوالے سے ایک بروشر ان کے پوتے کے ذریعے ان تک پہنچایا اور کچھ فیڈ بیک کیلئے ان سے رابطہ کیا تو فرمانے لگے جی ایک بیگ تو ہم پہلے ہی بھجوا چکے ہیں چلیں دیکھتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ آپ کیلئے بھی کوئی گنجائش نکل آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کہاں تو درختوں کی پیداوار پر بھی عشر کی رقم اٹھائے مستحق تلاش کرتے لوگ اور کہاں دوہزار بوری سے زائد گندم پر بھی عشر کی ادائیگی میں پس وپیش
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ ہی عرصہ بعد مجھے ایک  نواحی دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا تو جنگل میں منگل کا سماں دیکھا دور تک پھیلی ہوئی چار دیواری کے ساتھ ساتھ میری گاڑی دیر تک محوِ سفر رہی پوچھنے پر معلوم ہوا یہ انہیں خان صاحب کی ملکیّتی زمین ہے جو میرے پاس کچھ عرصہ پہلے عشر کی رقم لے کے آئے تھے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اور آج جب میں نے حاجی صاحب سے ان کی فصلوں کی صورتحال کی بابت پوچھا تو فرمانے لگے بس جی ڈاکٹر صاحب اب کی بار تو حالات بہت خراب ہو گئے بارشوں سے کٹائی شدہ گندم تباہ ہوگئی بھوسہ سیاہ ہو گیا اور مشکل ہے کہ اخراجات بھی پورے ہو پائیں
بے شک سچ فرمایا اللہ رب العزت نے کہ
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے7 بالیں نکلیں اور ہر بال میں 100دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی سورہ بقرہ آیت261

اتوار، 11 مئی، 2014

مبارکباد یا تعزیت

12 comments

موبائل کی مسلسل "ٹنٹناتی" ہوئی میسج ٹون نے مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیا تھا دیکھا تو رات کے سوا بارہ بج رہے تھے اور موبائل کی سکرین پر ایک سو سے زائد پیغامات اپنی آمد کا اعلان کر رہے تھے ان باکس کھولا تو معلوم ہوا آج میں اپنی عمرِ عزیز کے 39 سال پورے کر چکا ہوں مدّت سے سالگرہ منانا ہمارے معاشرے کی ایک اہم رسم بنتی جا رہی ہے، ذاتی طور پرمیں نے کبھی زندگی میں سالگرہ نہیں منائی نہ کبھی اس دن کو کوئی خاص ایکٹیویٹی پیشِ نظر رہی۔ میری تاریخ پیدائش11 مئی1975ہے۔ پوری زندگی میں ہر سال یہ دن آتا اور گزر جاتا، جس طرح سال کے باقی تمام ایام گزرتے ہیں نہ کبھی یہ خیال گزرا کہ سالگرہ کا دن آیا ہے ، نہ کبھی کسی نے یاد دہانی کرائی پہلی بار شاید میری بیگم نے مجھے شادی سے پہلے" سالگرہ مبارک" کا کارڈ بھیجا تھا لیکن اب توسالگرہ منانا  معاشرے میں ایک وائرس کی طرح پھیل گیا ہے آج   جب میری عمر39 برس ہو چلی تو کل سے دوستوں نے پیار بھرے پیغامات کا ڈھیر لگا دیا ہے کہ "مبارک ہو" میرے دوست احباب نے جس محبت و اپنائیت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیاوہ بلاشبہ باعث تشکر ہے،
صاحبو۔۔۔۔۔۔۔!!!!! ایک چھوٹا بچہ جب ایک سال یا دو سال کا ہوتا ہے تو فطری طور پر والدین کو ایک حسین سا احساس ہوتا ہے کہ نرم و نازک کلی، جس کے مرجھا جانے کے سو خطرات تھے، ایک پھول بن کر بہار دکھلا رہی ہے، تاہم اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ سرمایہءحیات جو ایک برف کی سِل کے مترادف ہے۔ مسلسل گھلتا اور پگھلتا چلا جا رہا ہے۔ ہر گھڑی منادی ہو جاتی ہے کہ مہلت عمل گھٹ رہی ہے بقولَ شاعر
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
 ذاتی طور پر کبھی سالگرہ منائی اور نہ ہی منانا پسند کی ،اسکی شرعی حیثیت پرتو اہلِ علم ہی زیادہ بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں،بہرحال زمانے کا چلن جو بن جاتا ہے، اچھے ، بُرے سبھی لوگ اس کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ یہی ہوتی ہے تہذیبی یلغار! سکولوں میں بچے اور بچیاں دیکھتے ہیں کہ ان کے دوست اور سہیلیاں برتھ ڈے مناتے ہیں تو اس دن کو نہ منانا وہ اپنی سُبکی سمجھتے ہیں اور اگر والدین اس رسم کے عادی نہیں ہوتے تو عموماً ان کے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ چلتی ہوا کے رُخ پر وہ بھی چلیں۔ ہاں وہ بچے جن کی اٹھان ہی اسلامی تہذیب کے اندر ہوئی ہو، گھر کے ماحول میں اسلامی طرزِ زندگی اور قرآن و سنت کی معاشرت کا چرچا ہو، صحابہؓ و صحابیاتؓ اور سلف صالحین کے واقعات سے نو خیز کلیوں اور غنچوں کو سیراب کیا جاتا رہے تو وہ کبھی احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وہ وقت کے دھاروں کے ساتھ بہہ جانے کی بجائے اپنے اندر وقت کا دھارا موڑ دینے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں، ہماری قومی تاریخ میں کسی عظیم شخصیت نے نہ سالگرہ منائی، نہ اسے ایک تقریب بنایا، کیک کاٹنا اور دیگر سارے نخرے مغربی تہذیب کی نقالی سے زیادہ کچھ نہیں کہ سالگرہ کی خوشی منائی جاتی ہے، چراغاں، رنگارنگ تقریبات اور بے شمار لغویات اس کے لازمی حصے ہوتے ہیںمغرب سے جہاں بہت سی فضولیات ہم نے وصولی سالگرہ انہی میں سے ایک ہے،بہرحال اب ہم "مومن" تو ہیں نہیں کہ ہر وقت"موت" کو یاد کرتے پھریں ،منافق ہیں اس لئے سال گرتے اور دوستوں کے پیغامات یاد دلاتے ہیں "موت" کی منزل مزید قریب ہوئی ،ہم جیسوں کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی لیکن "سود وزیاں" پر غور کرنے کا موقع مل جاتا ہے ،اپنے حالات پر غور کرو تو دین کے رہے نہ دنیا  کے ،دنیا منہ سے چھوٹی نہیں اور جنّت کے "خواب" دن میں بھی دیکھتے پھرتےہیں ،سو ایسے کسی بھی موقع پر یاد دہانی سے کم از کم "گریبان" میں جھانکنے کا موقع ضرور مل جاتا ہے ،تو انکا شکریہ جنہوں نے دعاؤں میں یاد رکھا نیک تمنائیں دیں!!!!!!!
اور ان کا بھی " شکریہ" جو اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد نیک تمناؤں کا اظہار کریں گے !!!!! 
اور آخر میں بس ایک بات کہیہ زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ ایک سال گزرنے پر معلوم نہیں، ہم مبارکباد کے مستحق ہوتے ہیں یا تعزیت کے! اس کا حساب تو ہر شخص خود ہی کر سکتا ہے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟

منگل، 6 مئی، 2014

کیسا مسیحا

9 comments
وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھی زاروقطار روتے ہوئے ڈاکٹر کو بددعائیں دئیے جارہی تھی اس کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ساری طفل تسلیاں بے کار تھیں ساتھ آنے والی خاتون الگ سے پریشان تھی۔
چند دن پہلے ہی وہ خاتون میرے پاس گردے میں اٹھنے والے شدید درد کی دوا لینے آئی تھی دوا دینے سے درد تو وقتی طور پر ٹھیک ہو گیا لیکن مرض کی بہتر تشخیص کیلئے میں نے اسے چند ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا کیونکہ اس کے بقول یہ درد اس سے پہلے بھی اکثر بہت شدّت کے ساتھ ہوتا رہا تھا اور دس سال قبل تو ایک نیفرالوجسٹ کے مشورے پر ایک گردے میں پتھری کا آپریشن بھی کروا چکی تھی، اس لئے میں نے اسے Sonography اور KUB X.Ray کیلئے ایک اچھی شہرت کے حامل ڈائگنوسٹک سنٹر ریفر کر دیا۔دوسرے ہی دن مریضہ نے فون کرکے آنے کا وقت طے کر لیا۔اس کی رپورٹس میرے سامنے رکھی تھیں دائیں گردے میں پتھری کی نشاندہی کی گئی تھی

لیکن ساتھ ہی ایک عجیب بات تھی اس رپورٹ میں
Left Kidney absent

ڈائیگنوسٹک سنٹر کال کرکے متعلقہ سونالوجسٹ سے بات کرنے پر معلوم ہواکہ اس خاتون کا ایک گردہ آپریشن کے ذریعے نکال دیا گیا ہے، جب میں نے اس خاتون سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹرنے یہی کہا تھا کہ گردے میں پتھری بن گئی ہے اور اس کا حل آپریشن کے سوا کچھ بھی نہیں اس نے ہمیں پتھری کے بارے میں اتنا خوفزدہ کیا کہ ہم مجبوراً آپریشن پر تیار ہوگئے


اور اس نے آپریشن کے بعد گردے سے نکلنے والی بتھری بھی ہمیں دکھائی


لیکن جب میں نے اسے بتایا کہ ڈاکٹر نے بذریعہ آپریشن پتھری نکالنے کی بجائے تمہارا گردہ ہی نکال دیا ہے تو اس نے زاروقطار رونا شروع کر دیا
 خاتون رو رہی تھی اور اس ڈاکٹر کو بددعائیں دے رہی تھی کہ میں نے اسے کسی وکیل سے مشورے کے بعداس ڈاکٹرکے خلاف مقدمہ کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ کچھ عرصہ قبل ہی ٹریفک کے ایک حادثے میں اس ڈاکٹرکی گاڑی کو آگ لگ گئی اور جل کر راکھ ہوگیا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس ڈاکٹر نے متعدد مریضوں کی پتھری کو آپریشن کے ذریعے نکالنے کے بہانے ان کا ایک گردہ نکال لیا۔
اپنی عارضی خوشیوں کیلئے لوگوں کی زندگیوں کو جہنّم بنا دینے والا ناجائز طور پر کمائی جانے والی اپنی ساری دولت دنیا میں ہی چھوڑ کر اس دنیا میں ہی جہنم واصل ہو گیا

منگل، 29 اپریل، 2014

بے حسی موت ہے بیدار زمانے کیلئے

4 comments


اس تصویر کی کاٹ کتنی گہری ہے ایک بوڑھی خاتون اپنے بچوں کے باپ کیلئے دربدر کی ٹھوکریں  کھا رہی ہے یہی نہیں بلکہ وہ گمشدہ افراد  کے لواحقین کیلئے ایک سہارا اور ان  کیلئے اٹھنے والی ایک توانا آواز بھی ہے۔ دکھوں اور تکالیف کی ماری اس کمزورخاتون کی آواز سے خوفزدہ حکمران یہ بات نہیں جانتے کہ مظلوم کی آہ اور رب کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا
آمنہ مسعود جنجوعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کبھی اس سے ملا نہیں، میں نے کبھی اس سے دیکھا نہیں، شاید ایک آدھ بار کبھی اس سے فون پر بات ہوئی  تھی، غیر قانونی طورپر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہو جانے والے افراد کیلئے، اپنا دکھ بھلائے دوسروں کیلئے انصاف کے حصول کیلئے کوشاں، گلی گلی ،شہر شہر ان کیلئے آواز بلند کرتی پھرتی ہے ، اسلام آباد کے مضبوط قلعوں میں بلند حکمران اس کمزور سی خاتون کی آواز اور جدوجہد سے اس قدر پریشان ہیں کہ اسلام آباد کی فضاؤں نے کل وہ منظر دیکھا کہ ہر دردِدل رکھنے والا شخص اپنے دل میں ایک چبھن محسوس کئے بغیر  نہ رہ سکا،آمنہ مسعود جنجوعہ  اور اس کے ساتھیوں پر تشدد کی انتہا کر دی گئی، لاٹھیوں اور مکوں  سے زدو کوب کرتے ہوئے انہیں سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا ،تف ہے ایسے حکمرانوں اور ان کے چیلوں چانٹوں پر جو اپنے حقوق کیلئے اٹھنے والی ایک کمزور آواز بھی برداشت نہیں کر سکتے
ظلم وتشدّد اور اس کمزور خاتون کو اٹھا کر پولیس گاڑی میں ڈالنے کی تصویریں دیکھ کر مجھے تاریخ کے جھروکوں سے ایک حکمران یاد آرہا ہے، عین حالت جنگ میں جب ہر روز سینکڑوں شہ سوار موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور ہر لشکر اپنی فتح کیلئے دوسرے کو تہ تیغ کر دینے کیلئے کمر بستہ تھا۔ایک عیسائی عورت روتی پیٹتی ہوئی سلطان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے کہ جنگ زدہ ماحول اور دھول اڑاتے لشکروں کے درمیان اس کا لخت جگر کہیں کھو گیا ہے۔یہ بات بجا کی فریاد کرنے والی دشمن قوم سے تعلق رکھتی تھی لیکن وہ ایک ماں تھی اور یہ فرزند ہی اس کی کل متاع تھی۔
سبز آنکھوں والے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ اردگرد کی تمام آبادیوں کا احاطہ کرلیا جائے اور اس عورت کا بچہ تلاش کر کے لایا جائے۔
اور پھر ۔۔۔۔
ابھی ایک پہر بھی نہیں گزرا تھا کہ مغرب سے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہونے والوں میں شامل اس خاتون کا لخت جگر تلاش کر لیا گیا،وہ خوشی سے دیوانہ وار آگے بڑھی اور سلطان کے آگے سجدہ ریز ہو گئی۔
نہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان کی آواز فضاء میں گونجی  
یہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا گیا۔اب تم اپنے لوگوں میں واپس لوٹ جاؤ۔
وہ عظیم الشان حکمران جسے دنیا  "سلطان صلاح الدین ایوبیؒ " کے نام سے جانتی ہے یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ
"معاشرے امن وانصاف میں زندہ رہتے ہیں ،ناانصافی اور بدامنی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے"

ہے کوئی ایسا شخص جو ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ بات بتا دے۔
زندگی نام ہے احساس کی بیداری کا 
بے حسی موت ہے بیدار زمانے کیلئے

جمعہ، 25 اپریل، 2014

صدقہ جاریہ

11 comments
 مدینہ منوّرہ کی میونسپلٹی میں یہ باغ حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پررجسٹرڈ ہے یہی نہیں بلکہ مدینہ منوّرہ کےایک بنک میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پرباقاعدہ ایک کرنٹ بنک اکاؤنٹ بھی موجود ہے جس اکاؤنٹ میں اس باغ کی آمدن جمع ہوتی ہے اوریہ بات جان کربھی آپ حیران ہوں گےکہ حضرت عثمان بن عفانؓ کےنام پرآج بھی پانی اوربجلی کابل آتاہے۔آج ساڑھے چودہ سوسال کاعرصہ گزرنےکے بعد بھی حضرت عثمان بن عفانؓ کا نام مدینہ کی فضاؤں ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں روشن ہے
آئیے تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں.مدینہ کی اس بستی میں پینے کا پانی نایاب ہے لے دے کےمحض ایک ہی میٹھےپانی کا کنواں ہےجوایک یہودی کی ملکیّت ہےجہاںوہ اپنی من مانی قیمت پر پانی فروخت کرتاہے،مسلمانوں کی اس تکلیف کی خبر نبی مہربان ﷺ تک پہنچتی ہے۔تو آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کون ہے جو اس کنویں کو خرید کر اللہ کیلئے وقف کردے جس کے بدلے میں اللہ تعالٰی اسےجنّت میں ایک چشمہ عطا کرے گا,یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن عفانؓ اس یہودی کے پاس پہنچتے ہیں اوراس کنویں کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں،کنواں چونکہ منافع بخش آمدن کا ذریعہ تھا اس لئے یہودی اسے فروخت کرنے سے انکار کردیتا ہے،اب جنابِ عثمانؓ ایک اور تدبیر کرتے ہیں کہ اچھا پورا کنواں نہ سہی تو آدھا ہی میرے ہاتھ فروخت کر دو،ایک دن کا پانی تمہارا ہو گا ایک دن کا میرا،یہ سن کے یہودی اپنی فطری لالچ کے ہوتھوں مجبور ہوجاتا ہےاورسوچتا ہےکہ شاید عثمانؓ اپنی رقم کو پوراکرنےاورزیادہ منافع کمانے کے لالچ میں پانی مہنگا فروخت کریں گے اور یوں میرے گاہکوں میں کوئی کمی نہ آئے گی اور اس طرح مزید منافع کمانے کا موقع میسّر آئے گا، آدھا کنواں حضرت عثمانؓ کےہاتھوں فروخت کردیا۔حضرت عثمانؓ نے اپنی باری کے دن مسلمانوں کیلئے مفت پانی کے حصول کا اعلان کردیا تولوگ انؓ کی باری کے روز اگلے دن کیلئے بھی پانی ذخیرہ کر لیتے اور یوں یہودی اپنی باری کے روز منہ دیکھتا رہ جاتا اور کوئی گاہک اس کے کنویں کا رخ نہ کرتابس اسی بناء پر کنویں کا باقی حصّہ بھی حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں فروخت کردیااس دوران ایک آدمی نے آپؓ سے تین گنا منافع پر یہ کنواں خریدنا چاہا تو آپؓ نے فرمایامجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیشکش ہے اس آدمی نے کہا میں چار گنا منافع دوں گاتو آپؓ نے فرمایا مجھے اس سے بھی زیادہ کی پیشکش ہے تو اس آدمی نے کہا آخر وہ کون ہے جو تمہیں اس سے زیادہ دے گا تو آپؓ نے فرمایا میرا رب جو مجھے ایک نیکی پر دس گنااجر دینے کی پیشکش کرتا ہے۔وقت تیز رفتاری سے اپنی منازل طے کرتا رہا اور مسلمان اس کنویں سے اپنی پیاس بجھاتے رہے سیّدنا عثمانؓ کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں،کنویں کے گراگرد کھجوروں کا ایک باغ بن گیا،مدینہ میں عثمانی سلطنت قائم ہوئی تو اس باغ کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوئی اور یہ باغ پھلنے پھولنے لگا،بعد ازاں سعودی حکومت کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد1550ہوگئی،مدینہ کی میونسپلٹی میں یہ باغ بعد ازاں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر رجسٹرڈ ہوا،سعودی وزارتِ زراعت یہاں کی کھجور مارکیٹ میں فروخت کرتی اور اس باغ کی آمدن کو حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پربنک میں جمع کرتی ہے اور اس کا ایک حصّہ غرباء اور مساکین میں تقسیم ہوتا ہے، اب اس اکاؤنٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ خرید لیا گیا جہاں "فندق عثمان بن عفانؓ" کے نام سے ایک ہوٹل کی تعمیرکا منصوبہ بنایا گیاجس کی سالانہ50ملین ریال آمدن متوقع تھی جس کا آدھا حصّہ غرباء اور مساکین میں تقسیم ہوتا لیکن حرم کی توسیع کے منصوبہ کے پیشِ نظر جہاں دیگر تعمیراتی کام روک دئے گئے ہیں وہیں اس ہوٹل کی تعمیر بھی روک دی گئی۔
بے شک سچ فرمایا اللہ رب العزت نے کہ
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالے نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، بڑھا دیتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ہے۔(سورۃالبقرہ۔آیۃ 261)
اللہ تعالٰی حضرت عثمان بن عفانؓ کی قبر کو نور سے منوّر کر دے کہ ان کی قربانی کو اس اندازمیں برکت عطا کی گئی قیامت تک کیلئے ان کیلئے صدقہ جاریہ کا انتظام ہو گیا
برادرِبزرگ ابو احمد مدنی حاجی محمد اقبال مغل کی وساطت سےچند اشعار حضرت عثمان بن عفانؓ کی نذر
اللہ غنی حد نہیں انعام و عطا کی 

وہ فیض پہ دربار ہے عُثمان غنیکا
جو دل کو ضیاء دے جو مقدرکوجلاء دے

وہ جلوہ دیدار ہے عثمان غنی کا
جس آئینہ میں نوُر الہی نظر آئے

وہ آئینہ رُخسار ہے عُثمان غنی کا

................................................................................

................................................................................
.