جمعرات، 19 فروری، 2015

سوشل میڈیا اور بندر کا استرا

2 comments
لوگوں کے"رنگ برنگے"لشکارے مارتے "ٹچ سکرین موبائل "دیکھ دیکھ کے اپنا بھی جی للچاتا کہ ہم بھی ایسا ہی ایک موبائل خرید لیں لیکن مہنگائی کےمنہ زور گھوڑے کے سامنے ایک نہ چلتی اور نتیجتاً اپنے 3310 کے ساتھ یاری نبھانی پڑتی
لیکن جب میرے پرانے نوکیا3310 نے انڈرائیڈ ایپلی کیشن کو قبول کیا تو لوگوں کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی اس پر "بی مانو" کے ساتھ ساتھ فیس بک، سکائپ،ٹویٹر اور وائبر سمیت بہت کچھ "الم غلم" انسٹال کر لیا حالانکہ نہ تو ہم نے "وائبر" پہ آکے "وائبریشن" لگوانی تھی نہ ہی"بی مانو" کے ساتھ "آنکھ مٹکا" کرنے کا وقت،ہاں البتہ فیس بک پہ آنا اور "ٹویٹر" پہ "ٹویٹ ٹویٹ" کھیلنے کے "چسکے" سے جان چھڑانا ممکن نہ تھا،
اینڈرائیڈ کی رنگ ونور میں چمکتی لش پش کرتی ایپس نے بالآخر پنگا لینے پر مجبور کر ہی دیا اور قرعہ فال Viber کے نام نکلا، ہم نے جھٹ سے اکاؤنٹ بنایا اور دوستوں کو بتانے کیلئے کہ ہم بھی Android موبائل رکھتے ہیں جھٹ سے السلام علیکم لکھا اور سب کو Send کر دیا اس خیال سے کہ سب لوگوں تک میراسلام پہنچے گا اور ہر کوئی یہ جان لے گا کہ ہم بھی Viber پہ آگئے ہیں لیکن "وائبر جی" نے ہمارے سلام کو گروپ کی شکل دے ڈالی اور جواب میں دوستوں کے وعلیکم السلام کے بعد کچھ "رنگین مزاج" دوستوں کے گرافکس اور پیغامات کے ایک نہ تھمنے والے سلسلے نے ہمیں حقیقت میں "وائبریشن" پہ لگا دیا صبح سویرے بیدار ہوتے ہی میرے آفیشل نمبر پہ ایک محترم ہستی کا پیغام میرا منتظر تھا براہِ کرم مجھے اس گروپ سے نکال باہر کرنے کی کوئی سبیل کیجئے ورنہ یہاں تومیسجز کا ایک طوفانِ بدتمیزی آیا ہوا ہے اور مجھے مجبوراً اس محترم ہستی کو گروپ سے نکالنے کی بجائے اس گروپ کو ہی ڈیلیٹ کرنے کیلئے "انکل گوگل" سے راہنمائی لینی پڑی،گروپ تو ڈیلیٹ ہو گیا لیکن ایک سبق مل گیا کہ بغیر سوچے سمجھے "بندروں" کے ہاتھ میں "استرا"تھما دینے سے سب کی ٹنڈ تو بنتی ہی ہے لیکن ساتھ میں اپنی درگت بھی بنتے دیر نہیں لگتی

بدھ، 21 جنوری، 2015

ضابطہ

1 comments

بچپن میں چینی کیلئے لمبی لائن میں کھڑے رہنے کا تجربہ ہوا تو لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سردیوں میں ایل پی جی سلنڈر کی دستیابی نایاب ہوگئی سلنڈر کا حصول جان جوکھوں کا کام تھااکثر لوگ رات کے وقت ہی ایجنسی کے سامنے سلنڈروں کو زنجیروں کے ساتھ باندھ کے لائن بنا جاتے ،کبھی لوگوں کو آٹے کیلئے لمبی لائن بنائے کھڑے دیکھا تو کبھی بجلی اور سوئی گیس کے بل جمع کروانے کیلئے لائن میں لگے سارا دن گزر جاتا، وقت گزرتا گیا اور پھر سی این جی کی لمبی لائن کا آغاز ہو ا تو یہاں بھی ڈرائیور رات کو ہی گاڑیاں لائن میں کھڑی کر جاتے ، لیکن جب سی این جی تین ماہ کیلئے لوڈشیڈنگ کے نرغے میں آئی تو خیال تھا کہ اب لائنوں سے اس قوم کی جان چھوٹ جائے گی لیکن گزشتہ چند روز سے لوگوں کو پٹرول کیلئے لائن میں لگے دیکھ بلکہ خود اس تجربے سے گزرتے ہوئے ماضی کی یادیں ایک بار پھر سے تازہ ہو گئیں کہ جب صبح سویرے نماز کے وقت ہم بھی ایل پی جی سلنڈر لئے لائن میں لگ جاتے تھے۔اس وقت ذہن میں ایک خیال آتا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی شخص ہماری باری رکھے رکھے اور جب ہمارا نمبرآئے تو ہم جھٹ سے آکے  اپنے حصّے کی چینی یا سلنڈر حاصل کر لیں ۔اس خواب کی تعبیر آج کے اخبار میں ایک خبر نظر سے گزرنے کے بعد حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے کہ جنوبی امریکہ کا ایک ملک وینزویلا ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے جہاں چینی،چاول،اور دیگر اشیاءِ خوردونوش کے حصول کیلئے صبح سویرے سے ہی لوگ قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس اثناء میں کچھ پیشہ ور لوگوں نے لائنوں  میں کھڑا ہونے کو اپنی آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے وہ صبح سویرے لائن میں لگ جاتے ہیں اور امیر لوگوں کیلئے سامان کی خریداری کرکے اپنی دیہاڑی کھری کرلیتے ہیں، اشیاءِ ضروریہ کی قلّت نے جہاں لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے وہیں یہ بحران کئی ایک گھرانوں کے پیٹ کا ایندھن فراہم کرنے کا سامان بھی کئے ہوئے ہے۔
ہزاروں میل کی مسافت پر بسنے والے جنوبی امریکہ کی اس ریاست کے باشندے ہوں یا اسلام کی بنیاد پر بننے والی مملکتِ خدادا پاکستان کے باسی ربِّ ذوالجلال نے اس دھرتی کے سینے پر بسنے والے ہر فرد کیلئے ایک ضابطہ طے کر دیا
 وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی ﴿۱۲۴﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا ﴿۱۲۵﴾ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ وَکَذٰلِکَ الۡیَوۡمَ تُنۡسٰی ﴿۱۲۶﴾ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ اَسۡرَفَ وَ لَمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبۡقٰی ﴿۱۲۷﴾

اور جو میرے ذکر(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کیلئے ہم دنیا کی زندگی کو تنگ کر دیں گے،اور قیامت کے روز اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے،وہ کہے گا” پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا”ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں ، تُو نے بُھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے۔اس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں )بدلہ دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر پا ہے۔
دنیا کی زندگی تنگ ہونے کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ان کو مالی مشکلات ہوں بلکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پیسے جیب میں ہوں اور اشیاءِ ضروریہ کیلئے مارے مارے پھرتے ہوں۔ پیسے ہاتھوں میں اٹھائے پٹرول ،گیس، بجلی، آٹے اور چینی کیلئے ترستے لوگوں کیلئے دنیا کی یہی زندگی قرآن کی زبان میں "مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا" ہے۔

بدھ، 17 دسمبر، 2014

میرا قلم لہو لہو میری زباں لہو لہو

4 comments

43 برس بعد 16دسمبر نے ایک بار پھر سے لہو لہودسمبر کی یاد تازہ کر دی،پشاورمیں آرمی پبلک سکول میں132بچوں سمیت 142 افراد کی شہادت سےدل ودماغ قابو میں نہیں ملک کے طول وعرض میں صفِ ماتم بچھی ہےہر فرد رنجیدہ ہے، اور تو اور ایسے حادثات میں زخمیوں اور شہیدوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے والے رضاکار بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں، آج صبح بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے ہوئے میں نے معصوم بچوں کے چہروں  کو دیکھا جو آج خلافِ معمول سر جھکائے شرارتوں کی بجائے سنجیدہ سنجیدہ اپنے مادرِ علمی کی جانب رواں دواں تھے،کل صبح آرمی سکول پشاور کے وہ طلبہ بھی ایسے ہی یونیفارم پہنے اپنے اپنے سکولوں کی طرف رواں دواں ہوں گے، لیکن گھروں سے سکول روانہ کرتے ہوئے والدین کو معلوم نہ تھا کہ وہ انہیں آخری بار پیار کر رہے ہیں۔ دہشت گردی نے میرے ملک کو لہو لہان کر دیا ہے مرنے والے معصوم اپنے پیاروں کو غم واندوہ میں ڈوبا چھوڑ کے منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں تو کتنے ہی زخموں سے چور،حکومت کی طرف سے زخمیوں اور شہداء کیلئے معاوضوں کا اعلان کیا جاچکا لیکن دلوں کے زخموں پہ مرحم کون رکھے گا، ہر سال سقوطِ ڈھاکہ کے زخم کے ساتھ ایک اورزخم کا اضافہ ہوگیا،ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیںبأَيِّ ذَنبٍ قتِلَت (تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا)۔ ان معصوموں کی کہانیوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر، کوئی وکیل تو کوئی تاجر۔بہت سے ایسے تھےجو بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ اور کئی ایک تو والدین کی واحد اولاد،ان والدین پر ٹوٹی قیامت کی ترجمانی کسی صورت ممکن نہیں۔ سبزکوٹ اور سویٹر پہنے کشاں کشاں سکول جانے والے ننھے منے فرشتہ سیرت یہ بچے سفید کفن اوڑھے لہو سے غسل کرکے اپنے ابدی سفر کو روانہ ہو گئے کئی ایک کے جنازے پڑھے جاچکے تو کئی ایک کیلئے تیاری آخری مراحل میں ہےقبروں پر پھول چڑھا کر فاتحہ پڑھ کرسبھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے،دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکےعزم کا اعادہ کیا جائے گا،شہداء کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور "آمدن، نشستنِ ،خوردن، برخواستن" کے مصداق اجلاس ختم ہو جائیں گے۔ اور پھر زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ یہ حادثہ دیگر حادثوں کی طرح وقت کی گرد میں کہیں گم ہو جائے گا،ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان ہوا ہے،لیکن کیا ایسے واقعات پر صرف سوگ منا لینا کافی ہے؟؟؟؟ کیا ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا ؟؟؟؟؟ اگر حملہ آوروں کا پتہ چلا لیا گیا وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے، تو کیا ان تک پہنچنے اور بے نقاب کرنے کی کوئی سعی بار آور ہوگی ؟؟؟؟ یا پھر یوں ہی میری ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی
اجاڑ رستے،عجیب منظر،
ویران گلیاں ، یہ بند بازار
کہاں کی خوشیاں کہاں کی محفل،
شہر تو میرا لہو لہو ہے۔
وہ روتی مائیں،
بےہوش بہنیں لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں۔
اے پیارے بھیا ،
سفید کُرتا تھا سرخ کیوں ہے ؟؟؟

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

محبّت جیت جاتی ہے

10 comments

پرائمری سکول میں ٹاٹ پربیٹھےتختی لکھنے کے دوران میں دوسروں کی دوات سےقلم کا"ڈوبہ" لگانا سب سے بڑی شرارت تصورکی جاتی تووہیں خوبصورت تختی لکھنا ایک اعزاز گردانا جاتا،جب اساتذہ تعلیم کو پروفیشن نہیں فرض سمجھتے تھے اور "مار نہیں پیار" کا فلسفہ تو ابھی دور کہیں بہت بلکہ دور تھا لیکن "پولیس اور تھانہ" اس وقت بھی خوف کی علامت اور صرف خون ہی نہیں بلکہ "طالب علموں کی تختیاں" خشک کرنے کی علامت بھی تھا :) ۔انہی دنوں کی بات ہے "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کی گردان کرتا میں گیلی تختی کو خشک کرنے کی ناکام سعی میں مصروف تھا لیکن تختی تھی کہ تھانے کا نام سن کر بھی سوکھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سردیوں کی اس دوپہر میں جب سکول کی بریک ٹائم ختم ہونے میں ابھی چند منٹ ہی باقی تھے کہ مجھے یاد آیاکہ "پکڑن پکڑائی" کھیلنے کی دھن میں کل کی لکھی تختی تو میں نے دھوئی ہی نہیں اورپھر میں بھاگم بھاگ تختی دھو لایا، تختی دھو تو لایا لیکن آج سورج انکل بھی کہیں دور جا چھپے تھے اورمیں ماسٹرجی کے خوف سے گول گول گھومتا سکول کے گراؤنڈ میں تختی کو سکھانے کیلئے چکر لگاتا اسے سنائے جا رہا تھا "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کہ شاید تھانے کا خوف اسے خشک ہونے پر مجبور کردے کہ دفعتاً رمضان میاں نہ جانے کہاں سے آٹپکے اورتختی سوکھنے کی بجائےرمضان میاں کے ماتھے پر ایک بڑا سا زخم چھوڑ گئی،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھااور ادھر میرا خوف کے مارے خون خشک ہوچلا تھا،بات ہیڈماسٹرصاحب تک پہنچی اورانہوں نے "کمال محبّت" سے میری "چھترول" کرکے مجھے کل اپنا والد صاحب کو ساتھ لانے کا کہ کرسکول سے نکال دیااور یوں میری "اَن سوکھی" تختی سکول میں رہ گئی اور میں گھر آگیا شام میں ابا حضور کے سامنے بات رکھی گئی اور دوسرے دن ابا جان میرے ساتھ سکول آئے ، مجھے معافی مل گئی اور میں ہنسی خوشی اپنی کلاس میں پہنچ گیا۔لیکن یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب آخری پیریڈ میں ماسٹر صاحب نے تمام طلبہ کو اپنی اپنی تختیاں نکالنے کو کہا، اور جنہوں نے تختیاں نہیں لکھی تھیں ان کی شامت آگئی میری سوکھی تختی میرا منہ چڑا رہی تھی گویا مجھے کہ رہی ہو کل تو مجھے نہ سوکھنے پر تھانے لے جانے کی دھمکی دے رہا تھالیکن آج خود خوب پھنسا ہے ناں۔ ماسٹر صاحب نے ان تمام چھ طلبہ کو مرغا بن جانے کا آرڈردیاجوتختی نہیں لکھ کےلائے تھے،جھجھکتے جھجھکتے سب مرغا بن گئے اور اس سے پہلے کہ پٹائی شروع ہوتی ایک طالب علم نے دوڑ لگا دی اور کلاس سے فرار ہو گیا ماسٹر صاحب نے سب کو کھڑا کیا اور ایک سرے سے مارنا شروع کیا پہلی باری میری ہی تھی میرے ہاتھوں پہ دس ڈنڈے برس چکے تھے کہ دفعتاً چھٹی کی گھنٹی بج گئی، ماسٹر صاحب نے باقی لڑکوں کو چھوڑتے ہوئے کہا کہ جاؤ نامخولو( غیر معقول آدمی) کل تختیاں لکھ کے لانا۔ میں جو دس ڈنڈے کھا کر بھی بے شرموں کی طرح کھڑا تھا اس ناانصافی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ دن گزرتے گئے پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج سے ہوتے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا لیکن وہ واقعہ کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی تازہ ہو جاتا ، ماسٹر صاحب کی نا انصافی کے خلاف ایک گانٹھ میرے دل میں موجود تھی، عملی زندگی میں قدم رکھے برس گزر گئے بچپن کے دوست معلوم نہیں کہاں تھے کہ ایک دن میرے کچھ مہمان آئے بیٹھے تھے،اور میں کلینک میں مریضوں کے بنچوں پر بیٹھا تھا والد صاحب مریضوں کا چیک اپ کر رہے تھے کہ ایک لمبے قد کے بزرگ کلینک میں داخل ہوئے کچھ دیر میری طرف غور سے دیکھنے کے بعد ابا جان کی طرف بڑھ گئے ان کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی،آپ کا ایک بیٹا میرے پاس پڑھا کرتا تھا اور آپ اکثر اس کی خبر گیری کیلئے سکول آتے تھے آج میرا دل چاہا کہ اس سے ملوں، ان کی آواز سن کے میں بے اختیار اندر کی جانب لپکاسفید داڑھی اور خوبصورت چہرے والے ماسٹر اقبال صاحب آج 26سالوں بعد میرے سامنے تھے جو محبّت سے مجھے ملنے آئے تھے،ان کی محبتوں کے سامنے ان کے خلاف دل میں بن جانے والی گانٹھ، ان کے خلاف سارے گلے شکوے کہیں دور گم ہو گئے تھے۔ میں ہار گیا ان کی محبت جیت گئی اس لئے کہ نفرتوں کے مقابلے میں "محبّت جیت جاتی ہے"

منگل، 25 نومبر، 2014

ایک خوبصورت دن

10 comments
جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ عام میں شرکت کا پروگرام بنا تو بہت سے دوستوں کے ساتھ ملاقات کا پروگرام بھی ساتھ میں ہی ترتیب پا گیا،لاہور پہنچتے ساتھ ہی جو لاگ ان ہوا تو پہلا پیغام محترم بھائی مصطفٰی ملک کا موصول ہوا مجھے کال کیجئے آپ کا نمبر نہیں مل رہا اور پھر جونہی میں نہ کال ملائی اور یوں تھوڑی دیر بعد ہی ملک صاحب سے سوشل میڈیا کیمپ میں ملاقات ہو گئی۔
 
ملک صاحب بار بار بتا رہے تھے"یار او بلال آریا وا" اور میں سمجھ  نہیں پا رہا تھاکہ ملک صاحب کس "بلال" کا ذکر کررہے ہیں۔لیکن مغرب کے بعد جب سفید رنگ کی "نگوں والے بٹن" لگی قمیض شلوار میں ملبوس نوجوان کی قیادت میں اردو بلاگرز کا ایک گروپ سوشل میڈیا کیمپ میں داخل ہوا اورجومیں آگے بڑھ کر ملا تو ملک صاحب نے تعارف کا فریضہ سرانجام دیا
یہایم بلال ہیں اور پھر میں تو گویا خوشی کے مارے اچھل ہی پڑا پاک اردوانسٹالر کے موجد ایم بلال ایم میرے سامنے تھے ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں تھے میرے پاس کہ ان کی بدولت ہمیں کمپیوٹر پر ہر جگہ اردو لکھنے کی سہولت میسر آئی،ان کے ساتھ ملنسار اورہنس مکھ سے کاشف نصیرہیں۔ اور ارے میں نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں مجھے ملتے ہی آنکھوں میں شرارت سجائےکہنے لگے دیکھنا باوا بھی یہیں لاہور میں ہوتا ہے جی ہاں تو یہ ہیں کراچی سے تشریف لائے وقار اعظم ۔اور یہ "ننھا منّا" سا لڑکا جوکبھی "غیث المعرفہ" ہوتا ہے تو کبھی غلام اصغر ساجد بلاشبہ قابلِ قدر بھی ہے توایک اچھا لکھاری بھی، اور یہ بانکا سجیلا جوان مفکروں کی طرح ناک پہ چشمہ ٹکائے کون ہے بھلا معلوم نہیں اب نظر کی کمزوری ہے یا مفکر نظر آنے کا شوق لیکن چشمہ تو بہر حال خوب سجا  :)  محمد عبداللہ ہیں یہ .تصویر بنواتے وقت جھٹ سے کرسی پہ "دولہا میاں" بنے بیٹھے یہ ہیں عاطف بٹ۔ اوریہ نٹ کھٹ سا نوجوان اپنے آپ کو رضی اللہ خان بتاتا ہے، اور یہ ہیں محمداسد اسلم جنہوں نے یہ فوٹو پوسٹ کرنے کے بعد مجھے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی جو ابھی ابھی میں نے قبول بھی کرلی ۔غرض یہ ایک شاندار دن تھا جب بہت سے بلاگر مل بیٹھے۔ ملک صاحب نے تو خدمت سے معذرت کر لی کہ اب یہاں کہاں سے چائے پانی آئے لیکن جماعت اسلامی کے مرکزی ناظم آئی ٹی شمس الدین امجد اور ناظم آئی ٹی پنجاب میاں محمد زمان نے کمال محبت سے تمام بلاگرز کیلئے ریفریشمٹ کا اہتمام کیا اور جو میں وہاں سے اٹھ کے محترم بھائی فیض اللہ خان کے پاس آیا تو کسی نے میرے حصّے کی ریفریشمنٹ بھی ہضم کرلی ظالموجس نے بھی وہ کھایاہے ناں مجھے معلوم ہے وہ اگر نام بتا دیا ناں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

................................................................................

................................................................................
.