بدھ، 17 دسمبر، 2014

میرا قلم لہو لہو میری زباں لہو لہو

4 comments

43 برس بعد 16دسمبر نے ایک بار پھر سے لہو لہودسمبر کی یاد تازہ کر دی،پشاورمیں آرمی پبلک سکول میں132بچوں سمیت 142 افراد کی شہادت سےدل ودماغ قابو میں نہیں ملک کے طول وعرض میں صفِ ماتم بچھی ہےہر فرد رنجیدہ ہے، اور تو اور ایسے حادثات میں زخمیوں اور شہیدوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے والے رضاکار بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں، آج صبح بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے ہوئے میں نے معصوم بچوں کے چہروں  کو دیکھا جو آج خلافِ معمول سر جھکائے شرارتوں کی بجائے سنجیدہ سنجیدہ اپنے مادرِ علمی کی جانب رواں دواں تھے،کل صبح آرمی سکول پشاور کے وہ طلبہ بھی ایسے ہی یونیفارم پہنے اپنے اپنے سکولوں کی طرف رواں دواں ہوں گے، لیکن گھروں سے سکول روانہ کرتے ہوئے والدین کو معلوم نہ تھا کہ وہ انہیں آخری بار پیار کر رہے ہیں۔ دہشت گردی نے میرے ملک کو لہو لہان کر دیا ہے مرنے والے معصوم اپنے پیاروں کو غم واندوہ میں ڈوبا چھوڑ کے منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں تو کتنے ہی زخموں سے چور،حکومت کی طرف سے زخمیوں اور شہداء کیلئے معاوضوں کا اعلان کیا جاچکا لیکن دلوں کے زخموں پہ مرحم کون رکھے گا، ہر سال سقوطِ ڈھاکہ کے زخم کے ساتھ ایک اورزخم کا اضافہ ہوگیا،ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیںبأَيِّ ذَنبٍ قتِلَت (تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا)۔ ان معصوموں کی کہانیوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر، کوئی وکیل تو کوئی تاجر۔بہت سے ایسے تھےجو بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ اور کئی ایک تو والدین کی واحد اولاد،ان والدین پر ٹوٹی قیامت کی ترجمانی کسی صورت ممکن نہیں۔ سبزکوٹ اور سویٹر پہنے کشاں کشاں سکول جانے والے ننھے منے فرشتہ سیرت یہ بچے سفید کفن اوڑھے لہو سے غسل کرکے اپنے ابدی سفر کو روانہ ہو گئے کئی ایک کے جنازے پڑھے جاچکے تو کئی ایک کیلئے تیاری آخری مراحل میں ہےقبروں پر پھول چڑھا کر فاتحہ پڑھ کرسبھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے،دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکےعزم کا اعادہ کیا جائے گا،شہداء کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور "آمدن، نشستنِ ،خوردن، برخواستن" کے مصداق اجلاس ختم ہو جائیں گے۔ اور پھر زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ یہ حادثہ دیگر حادثوں کی طرح وقت کی گرد میں کہیں گم ہو جائے گا،ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان ہوا ہے،لیکن کیا ایسے واقعات پر صرف سوگ منا لینا کافی ہے؟؟؟؟ کیا ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا ؟؟؟؟؟ اگر حملہ آوروں کا پتہ چلا لیا گیا وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے، تو کیا ان تک پہنچنے اور بے نقاب کرنے کی کوئی سعی بار آور ہوگی ؟؟؟؟ یا پھر یوں ہی میری ماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں گی
اجاڑ رستے،عجیب منظر،
ویران گلیاں ، یہ بند بازار
کہاں کی خوشیاں کہاں کی محفل،
شہر تو میرا لہو لہو ہے۔
وہ روتی مائیں،
بےہوش بہنیں لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں۔
اے پیارے بھیا ،
سفید کُرتا تھا سرخ کیوں ہے ؟؟؟

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

محبّت جیت جاتی ہے

10 comments

پرائمری سکول میں ٹاٹ پربیٹھےتختی لکھنے کے دوران میں دوسروں کی دوات سےقلم کا"ڈوبہ" لگانا سب سے بڑی شرارت تصورکی جاتی تووہیں خوبصورت تختی لکھنا ایک اعزاز گردانا جاتا،جب اساتذہ تعلیم کو پروفیشن نہیں فرض سمجھتے تھے اور "مار نہیں پیار" کا فلسفہ تو ابھی دور کہیں بہت بلکہ دور تھا لیکن "پولیس اور تھانہ" اس وقت بھی خوف کی علامت اور صرف خون ہی نہیں بلکہ "طالب علموں کی تختیاں" خشک کرنے کی علامت بھی تھا :) ۔انہی دنوں کی بات ہے "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کی گردان کرتا میں گیلی تختی کو خشک کرنے کی ناکام سعی میں مصروف تھا لیکن تختی تھی کہ تھانے کا نام سن کر بھی سوکھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سردیوں کی اس دوپہر میں جب سکول کی بریک ٹائم ختم ہونے میں ابھی چند منٹ ہی باقی تھے کہ مجھے یاد آیاکہ "پکڑن پکڑائی" کھیلنے کی دھن میں کل کی لکھی تختی تو میں نے دھوئی ہی نہیں اورپھر میں بھاگم بھاگ تختی دھو لایا، تختی دھو تو لایا لیکن آج سورج انکل بھی کہیں دور جا چھپے تھے اورمیں ماسٹرجی کے خوف سے گول گول گھومتا سکول کے گراؤنڈ میں تختی کو سکھانے کیلئے چکر لگاتا اسے سنائے جا رہا تھا "تختی تختی دو دانے نہیں سکنا تے چل تھانے" کہ شاید تھانے کا خوف اسے خشک ہونے پر مجبور کردے کہ دفعتاً رمضان میاں نہ جانے کہاں سے آٹپکے اورتختی سوکھنے کی بجائےرمضان میاں کے ماتھے پر ایک بڑا سا زخم چھوڑ گئی،خون تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھااور ادھر میرا خوف کے مارے خون خشک ہوچلا تھا،بات ہیڈماسٹرصاحب تک پہنچی اورانہوں نے "کمال محبّت" سے میری "چھترول" کرکے مجھے کل اپنا والد صاحب کو ساتھ لانے کا کہ کرسکول سے نکال دیااور یوں میری "اَن سوکھی" تختی سکول میں رہ گئی اور میں گھر آگیا شام میں ابا حضور کے سامنے بات رکھی گئی اور دوسرے دن ابا جان میرے ساتھ سکول آئے ، مجھے معافی مل گئی اور میں ہنسی خوشی اپنی کلاس میں پہنچ گیا۔لیکن یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب آخری پیریڈ میں ماسٹر صاحب نے تمام طلبہ کو اپنی اپنی تختیاں نکالنے کو کہا، اور جنہوں نے تختیاں نہیں لکھی تھیں ان کی شامت آگئی میری سوکھی تختی میرا منہ چڑا رہی تھی گویا مجھے کہ رہی ہو کل تو مجھے نہ سوکھنے پر تھانے لے جانے کی دھمکی دے رہا تھالیکن آج خود خوب پھنسا ہے ناں۔ ماسٹر صاحب نے ان تمام چھ طلبہ کو مرغا بن جانے کا آرڈردیاجوتختی نہیں لکھ کےلائے تھے،جھجھکتے جھجھکتے سب مرغا بن گئے اور اس سے پہلے کہ پٹائی شروع ہوتی ایک طالب علم نے دوڑ لگا دی اور کلاس سے فرار ہو گیا ماسٹر صاحب نے سب کو کھڑا کیا اور ایک سرے سے مارنا شروع کیا پہلی باری میری ہی تھی میرے ہاتھوں پہ دس ڈنڈے برس چکے تھے کہ دفعتاً چھٹی کی گھنٹی بج گئی، ماسٹر صاحب نے باقی لڑکوں کو چھوڑتے ہوئے کہا کہ جاؤ نامخولو( غیر معقول آدمی) کل تختیاں لکھ کے لانا۔ میں جو دس ڈنڈے کھا کر بھی بے شرموں کی طرح کھڑا تھا اس ناانصافی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ دن گزرتے گئے پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالج سے ہوتے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا لیکن وہ واقعہ کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی تازہ ہو جاتا ، ماسٹر صاحب کی نا انصافی کے خلاف ایک گانٹھ میرے دل میں موجود تھی، عملی زندگی میں قدم رکھے برس گزر گئے بچپن کے دوست معلوم نہیں کہاں تھے کہ ایک دن میرے کچھ مہمان آئے بیٹھے تھے،اور میں کلینک میں مریضوں کے بنچوں پر بیٹھا تھا والد صاحب مریضوں کا چیک اپ کر رہے تھے کہ ایک لمبے قد کے بزرگ کلینک میں داخل ہوئے کچھ دیر میری طرف غور سے دیکھنے کے بعد ابا جان کی طرف بڑھ گئے ان کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی،آپ کا ایک بیٹا میرے پاس پڑھا کرتا تھا اور آپ اکثر اس کی خبر گیری کیلئے سکول آتے تھے آج میرا دل چاہا کہ اس سے ملوں، ان کی آواز سن کے میں بے اختیار اندر کی جانب لپکاسفید داڑھی اور خوبصورت چہرے والے ماسٹر اقبال صاحب آج 26سالوں بعد میرے سامنے تھے جو محبّت سے مجھے ملنے آئے تھے،ان کی محبتوں کے سامنے ان کے خلاف دل میں بن جانے والی گانٹھ، ان کے خلاف سارے گلے شکوے کہیں دور گم ہو گئے تھے۔ میں ہار گیا ان کی محبت جیت گئی اس لئے کہ نفرتوں کے مقابلے میں "محبّت جیت جاتی ہے"

................................................................................

................................................................................
.