بچوں سے وعدہ کر رکھا تھا رزلٹ آجائے تو آپ سب کو سیر کیلئے لے چلوں گا ہم کسی تفریحی مقام پہ جائیں گے کسی پارک میں جھولے جھولیں گے ہلا گلا کریں گے خوبصورت نظاروں سے آنکھوں کو تراوٹ ملے گی سب کے پسند کے کھانے ہوں گے اور بہت کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بچے کا رزلٹ ابھی باقی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو پروگرام کو پایہء تکمیل تک پہنچنے میں کچھ دیر تھی میں کل ہی مسز سے کہہ رہا تھا کہ ابھی بچوں کو بھی کہیں لے کے جانا ہے
اور پھر شام ڈھلے سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والی خبروں نے دل کی دنیا کو الٹ پلٹ کردیا،لاہور کے تفریحی پارک میں ہونے والے دھماکے نے خون کے آنسو رلا دیا جذبات کے اظہار کو الفاظ نہیں،اس باپ کے جذبات کیا ہوں گے کے جس کے تین بچے اس دھماکے میں شہید ہو گئے اور جس کے بیٹے نے آج گلشنِ اقبال جانے کی ضد کی تھی، اس خاندان کے لوگوں پہ کیا گزری ہوگی جن کے آٹھ پیارے اس دھماکے میں جان کی بازی ہار گئے، بابا اور ماما کی انگلی پکڑے سیر کو آنے اور جھولے جھولنے کی خواہش میں موت کی سولی پہ جھول جانے والی کٹی پھٹی لاشوں،کسمساتے پھولوں اور ننھی کلیوں،کے پرسے کو الفاظ میسر نہیں ہیں اس لئے کہ بہت سے احساسات وجذبات ایسے ہوتے ہیں جن کےاظہار کیلئے انسان اپنی تمام نثری، شعری اور ادبی صلاحیتوں کے باوجود صحیح الفاظ ڈھونڈھنے میں ناکام رہتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ الفاظ کے سارے خزانے میں، انکی ترجمانی کیلئے کوئی موزوں لفظ موجود نہیں ہے
لیکن غم واندوہ میں ڈوبے ملک میں،زخمی دلوں اور لہو لہو آنسوؤں سے لبریز آنکھیں لاہور کے ہسپتالوں میں دیکھنے والے اس منظر سے کچھ حوصلہ پاتی ہیں کہ خون دینے والوں کی ایک لمبی قطار ہے حوصلے بلند ہیں اور اپنے بچوں کو ساتھ لئے اپنے بیٹوں کو لہو دینے کیلئے ہسپتالوں میں موجود مائیں حوصلوں کو جلا بخشتی ہیں اور تو اور ڈیوٹی پہ موجود ایک ڈاکٹر کی تصویر بھی نگاہوں سے گزری جو سفید اوورآل میں ملبوس خون کی بوتل عطیہ کر رہا ہے
لیکن سوال تو یہ ہے ؟؟؟
کہ آخر کب تک ہم اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے اور ہمارے حکمران "دشمنوں" اور "دوست نما دشمنوں" کی سازشوں سے باخبر ہونے کے باوجود کب تک مصلحتوں کا شکار رہیں گے
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد