جمعرات، 15 اگست، 2013

یہ کس کا لہو ہے کون مرا

5 comments
ٹیلی ویژن کی سکرین پر جلتی لاشیں،گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور آنسو گیس کے دھوئیں نے ایک سوگوار منظر طاری کر رکھا تھا۔ معصوم لاشے،تڑپتے بدن، جلتے خیمے،نہتے مردوزن کے مقابل جدید ہتھیاروں سے لیس فوجی اپنے نشانے آزماتے رہے. خون کی ندیاں بہتی رہیں ۔ بچے بوڑھے اور جوان مردو خواتین کٹ کٹ کے گرتے رہے ۔ یہ منظر کشمیر ، افغانستان یا فلسطین کا نہیں بلکہ مصر کے شہر قاہرہ کی مشرقی سمت میں واقع میدان رابعہ العدویہ کا ہے ۔ جہاں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مظاہرین پر مصر ہی کی فوجی جنتا کے "شیر دل" جوانوں نے کل صبح سویرے حملہ آور ہو کر 2200 سے زائد معصوم اور مسلمانوں کو شہید کر دیا۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہویا کسی مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو پوری دنیا میں ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔

 مصر کے دارالحکومت میں دن دہاڑے 2200 سے زائد لوگ گولیوں سے بھون دئیے گئے زمین ان کے خون سے گل وگلزار بنا دی گئی

ننھے منے بچے والدین کے ہاتھوں میں جامِ شہادت نوش کر گئے۔


بہنیں اپنے بھائیوں کی باہوں میں دم توڑ گئیں۔

مسجدیں تاخت وتاراج کر دی گئیں

لیکن
 کسی جمہوریت کے چمپئن کے ماتھے پر کوئی بل نہیں پڑا کسی انسانی حقوق کے ٹھیکیدار کی آنکھوں میں آنسو نہیں چمکے۔ ایک ملالہ کے زخمی ہو جانے پر پوری دنیا کا میڈیا چیخ اٹھا لیکن کتنی ہی معصوم ملالائیں قاہرہ کے اس میدان میں خون میں لت پت ہوگئیں۔ کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ۔ کوئی آسمان نہیں ٹوٹا کسی اوباما کسی بان کی مون کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگی ۔ کیا صرف اس لئے کہ شہید ہونے والے اپنے سروں کو صرف یک رب کے سامنے جھکاتے تھے۔ کیا اس لئے کہ یہ شہداء رب کی زمین پر ر ب کے نظام کا جھنڈا بلند کئے ہوئے تھے ۔کیا اس لئے کہ ان لوگوں نے رب کی بجائے امریکہ کی خدائی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اور کیا اس لئے کہ ان لوگوں نے فلسطین کے مظلوموں کے درد کا درماں کیا تھا۔
قاہرہ کی سڑکوں اور گلیوں بازاروں میں بہنے والا یہ معصوم لہو پکار رہا ہے ۔ اے امت مسلمہ کے بے غیرت حکمرانوں کب تک تم فرعونوں کے ساتھی بنے رہو گے۔ کیا مصر کی سڑکوں پر بہنے والے لہو کا رنگ کوئی اور ہے. کیا جن لوگوں کا خون بہایا گیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ تمہارے زبانوں پر تالے کیوں ہیں۔ بولو جواب دو
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​
سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​

بدھ، 14 اگست، 2013

لہلہاتی رہے یہ دھرتی

2 comments

لفٹی چاچاہمارے شہر میں کب آیامجھے یہ تو معلوم نہ ہو سکا لیکن ا س کے ہاتھوں کے بنے دہی بڑھے بچوں اور بڑوں کی مرغوب غذا تھی۔سکول کے راستے میں بنی ا س کی دکان ہمیشہ ہمارے قدموں کی زنجیر بن جاتی اور بڑی بے چینی سے ہم بریک ٹائم کا انتظار کرتے کہ کب ہم لفٹی چاچاکے ہاتھوں کے بنے چٹ پٹے دہی بڑھے کھانے جا پہنچیں۔لفٹی چاچایوں تو بڑا ہنس مکھ بندہ تھا، من کا سچا ،سبھی سے پیار کرنے والا۔لیکن جانے اسے کبھی کبھار کیا دورہ پڑ جاتاکہ جلدی کا شور مچانے والے بچوں پر برہم ہو جاتا۔اور اس دن تو حد ہی ہو گئی جب اس کی دکان کے باہر لگی رنگ برنگی جھنڈیوں کے بیچوں بیچ لہراتی پاکستانی جھنڈے کے رنگوں پر مشتمل جھنڈیوں کو بچوں نے توڑ کر ساتھ لے جانے کی کوشش کی تو اس نے ایک بچے کویہ کہتے ہوئے تھپڑ دے مارا کہ تم میرے وجود کے ٹکڑے کر رہے ہو۔اس وقت تو اس کی وجود والی بات میری سمجھ میں نہ آسکی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب عمر کی منزلیں طے کرتے ہوئے جب میں نے سکول سے کالج اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھا تو ایک دن ماضی کو یاد کرتے ہوئے میں لفٹی چاچا کی دکان پر جا بیٹھا۔چاچے نے بہت محبت سے دہی بڑھے کھلائے اور گاہکوں کو نمٹانے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ گپ شپ بھی لگاتا رہا۔میں نے موقع دیکھتے ہوئے لفٹی چاچا سے اس بچے کو تھپڑ مارے کا قصّہ چھیڑ دیا تو یکدم لفٹی چاچا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگا بیٹا اس لڑکے نے پاکستانی پرچم کو کھینچا تو مجھے ایسے لگا کہ اس نے میرے جسم سے میرے روح کو کھینچ لیا اور غصّے میں آکر میں نے اسے تھپڑ دے مارا۔کاش تم لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ پاکستان ہم نے کتنی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔اس دھرتی کیلئے تو میرا س کچھ چھن گیا  میرا پاکستان جس کی چھاتی پر رواں دواں دریا اس کے بیٹوں کے خون سے سرخ کر دئے گئے۔ اس کی آغوش سے پھوٹتی رحمتوں میں اس وطن کی بیٹیوں کی تار تار عصمتوں کی خوشبو رچی بسی ہے' اس کے آنگن میں رقص کرتی ندیاں' اس کے پہاڑوں میں اچھلتے کودتے چشمے' اس کے میدانوں میں شاداں و فرہاں پری رو درخت' زیبا بدن سبزے' نورنگ پھول' پھیلتی سمٹتی روشنیاں' رشک مرجاں شبنمی قطرے' لہلہاتی فصلیں' مسکراتے چمن' جہاں تاب بہاریں اور گل پرور موسم اپنے پیچھے قربانیوں کی ایک لازوال داستان لئے ہوئے ہیں۔ بیٹا یہ میرا ملک صرف ایک ملک ہی نہیں بلکہ یہ میری تقدیر بھی ہے۔ یہ میری داستان بھی ہے' یہ میرا ارماں بھی ہے۔ میرے وجود کی مٹی میں وہ دلکشی نہیں جو جاذب نظر اور دلفریبی اس کی خاک میں ہے۔ یہ پھولوں کی دھرتی اور یہ خوشبوؤں کا مسکن ہی اب میرا سب کچھ ہے یہی میرا گھر بار یہی میرا خاندان اور یہی میری داستاں ہے۔ اس کے سینے سے اٹھنے والے مسائل کے ہوکے میرے دل میں چھبنے والی سوئیاں ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی طرف کوئی ٹیڑھی نظر سے دیکھے تو گویا وہ آنکھ نہیں' میرے جسم میں پیوست ہونے والا تیر ہوتا ہے۔ یہ تو وہ دھرتی ہےکہ جس کیلئے میں نے سب کچھ قربان کر دیا۔ اورصرف تن تنہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیچھے لاشوں،اور زخموں کی ایک داستان چھوڑ کے پاکستان چلا آیا۔
چاچا پاکستان کے قیام اپنے گھر بار کے لٹنے، اپنے والدین اور بھائیوں کی شہادت اور بہنوں کی لٹتی عزت کی کہانی سناتا رہا اس کی آنکھیں ساون کی طرح برستی رہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں جس کی بہنوں کی تار تار عصمتیں اور جس کے والدین اور بھائیوں کا لہو ہو اس سبز ہلالی پرچم کو کیسے سرنگوں ہونے دے سکتا ہے۔

بدھ، 7 اگست، 2013

یہی پیغامِ عید ہے

3 comments
عید الفطر کی مبارک ساعتیں لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہیں۔اللہ رب العزت بندوں کومزدوری دینے میں قطعی دیر نہیں لگاتے۔ ادھر ان کی ایک مہینے کی تربیت کے مراحل ختم ہوئے، ڈیوٹی پوری ہوئی اور اِدھر عید الفطر، انعام یایوں کہیے کہ مزدوری کی شکل میں ہمارے ذہن وفکر پر مسرتوں کا نغمہ گانے لگی۔یہ عید واقعتاً ان لوگوں کے لیے عید ہے جو رمضان کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوئے۔عیدکا دن ان روزہ داروں کے لیے خوش خبری کا دن ہے جنہوں نے اس ماہ مبارک میں عبادت کی، اپنے رب کو راضی کیا اور اس کے بدلے میں اس کی رضا بھی پائی اور اس ماہ کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے۔ انہوں نے اپنی عبادات اور روزوں سے اللہ رب العزت کی رحمت و مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا اور اپنے لیے ”جہنم سے خلاصی“ کا ایک بہت عمدہ پروانہ حاصل کیا۔ رسول کریمﷺ کا ارشادہے:”جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلةالجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رحمن و رحیم اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں:’اے محمدﷺ کی امت! اس کریم رب کی (بارگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور معاف فرمانے والا ہے۔‘
پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے:’کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں:’ہمارے معبود اور ہمارے مالک!اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔‘
اس پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:’اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ رہوکہ میں نے انہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔‘
پھر وہ اپنے تمام بندوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت و جلال کی قسم! آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔ اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (انہیں چھپاتا رہوں گا) میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں ( اور کافروں) کے سامنے رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاﺅ، تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘
اسلام دین فطرت ہے اسکی یہی خوبی اسکو دوسرے مذاہب سے ممتاز کر تی ہے۔ اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی میں تہواروں کو اک خاص اہمیت حاصل تھی۔ مگر ان کی افادیت سوائے عیش و عشرت، دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر اسلامی تہواروں نے نہ صرف عرب رسوم و رواج کی جگہ لے لی بلکہامّتکی تربیت پر ایسے نقوش چھوڑے کے ایثار و قر بانی انکی زندگیوں کا نمونہ بن گیا۔عید خوشیاں بانٹنے کا نام ہے ، آنسو پونچھنے کا نام ہے ۔اپنی خوشیوں میں ان لوگوں کو نہ بھول جائیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ہو سکتا ہے ساتھ والے گھر ، ساتھ والی گلی ، ساتھ والے محلے میں عید کسی کے لئے امتحان بن رہی ہو۔ہو سکتا ہے کوئی غریب ویران آنکھوں سے نئے کپڑوں کی فرمائش کرتے اپنے بچوں کو دیکھ رہا ہو،ہو سکتا ہے اس عید پہ کوئی سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی ناکام کوشش میں ہو،ہو سکتا ہے کہیں کوئی یتیم بچہ حسرت بھری نظروں سے اپنے چاروں طرف عید کے ہنگاموں کو دیکھ رہا ہو۔عید کے اس پر مسرّت موقع پر ان کو بھی یاد رکھئے ۔آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش کسی کے چہرے پر خوشیوں کی بہار بن سکتی ہے ۔
بس یہی پیغامِ عید ہے اور یہی حقیقی عید ہے






................................................................................

................................................................................
.