پیر، 28 دسمبر، 2015

اشکے کہ زدل خیزد

4 comments
ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔ ابا جان بھی چلے گئے (انا للہ وانا الیہ راجعون )،جوانوں کی سی ہمّت،عزم و حوصلے کا کوہِ گراں کبھی ان کے ساتھ جو پیدل چلنا پڑے تو ان کا ساتھ دینا مشکل ہو جاتا78سال کی عمر میں بھی چاق وچوبند،دل ،شوگر ،پھیپھڑوں اور گردوں کے عوارض کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا،زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی اور اہلِ خانہ کی نمازوں کیلئے فکر مند رہے وفات سے تین روز قبل تک نہ صرف پنج وقتہ نمازبلکہ تہجد کیلئے بھی باقاعدگی سے اہتمام کرتے رہے،پوری زندگی اللہ کے دین اور اللہ کی مخلوق کی خدمت میں وقف کئے رکھی،نہ صرف لوگوں کی جسمانی صحت بلکہ ان کی روحانی صحت کیلئے بھی فکر دامن گیر رہتی قرآن سے لوگوں کو جوڑنے اور زندگیوں کو منوّر کرنے کیلئے شہر میں قرآن کلاس کی روایت شروع کی اور ہزاروں مردو خواتین تک قرآن کے پیغام کو پہنچانے کیلئے پروفیسر عرفان احمد صاحب کے ذریعے مسلسل کئی بار قرآن کلاسز کا اہتمام کروایا حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ فریضہ اقامت دین کیلئے وقف تھا،ان کی ساری زندگی کی تگ و دو اللہ کی رضا کے حصول کیلئے تھی اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اللہ کی رضا کا ذریعہ بنایایہی وجہ تھی کہ ان کی رخصتی پر لوگوں نے گواہی دی کہ واقعی یہ اللہ کا بندہ لوگوں کی بے لوث خدمت کرتا تھادور تک پھیلی ہوئی جنازے کی صفیں دیکھ کر بڑے بوڑھوں نے گواہی دی کہ آج تک اس قبرستان میں دفن ہونے والے کسی شخص کا اتنا بڑا جنازہ ہم نے نہیں دیکھا،انسان ساری زندگی تگ ودو کرتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل کر لے لیکن دمِ رخصت معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو پایا کہ نہیں لیکن ابا جان کی خوش نصیبی تھی کہ لوگوں نے گواہی دی کہ یہ شخص کامران ٹھہرا۔
اباجان کا بچپن کسمپرسی کی حالت میں گزرا بچپن ہی سے محنت کے عادی تھے والدہ کی وفات کے بعد گھر اور گھر داری کو بھی چلایا تو کاروبارِ زندگی بھی ،لیکن کبھی بھی خودی اور خودداری پر آنچ نہ آنے دی۔حق کی تلاش میں شیعیّت سے دیوبند اور دیوبند سے جماعت اسلامی تک کے سفر کی داستان لکھنے کیلئے کئی صفحات درکار ہیں ،جہاں بھی گئے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت صفِ اوّل میں شمار کئے گئے ،گاؤں میں اہل تشیع کے سرکردہ لوگوں کی کمیٹی کے سینئر ممبر رہے تو سپاہِ صحابہ کے جنرل سیکرٹری بھی بنے ،دین کی دعوت کو لے کر قریہ قریہ لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی دھن میں تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت بھی گزارا،مولانا غلام سرور مرحوم(علامہ اقبال کالونی راولپنڈی والے) کے ساتھ شناسائی ہوئی تو ان کے ذریعے سیّد ابولاعلٰی مودودیؒ کے لٹریچر تک رسائی ہوئی ،جماعت اسلامی کے کارکن بنے تو یہی تحریک ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونابنی اور پھرزندگی کے آخری لمحوں تک اسی کے ساتھ وابستہ رہے جماعت اسلامی زون 17کے امیر رہے ،امیرِ شہر کی ذمہ داریاں نبھائیں طویل عرصہ سے وقتِ آخر تک ضلعی مجلسِ شوریٰ کے منتخب رکن رہے اور الخدمت فاؤ نڈیشن کی کوئی بھی سرگرمی ان کی شرکت کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی۔قیدوبند کی صعوبتیں گلی،محلے کی مخالفتیںاوروڈیرہ شاہی کی دشمنی ان کی منزل کو کھوٹا نہ کر سکی۔ اکثر ایک بات کہتے کہ میں نے نماز کی درستگی اور اپنی ذات کی اصلاح تبلیغی جماعت سے ،مشن اور نصب العین کیلئے مالی ایثار اہلِ تشیع سے اورمخالفتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق کیلئے ڈٹ جانے کا سبق جماعت اسلامی سے سیکھا،زندگی میں مشکل حالات کا مقابلہ جوانمردی سے کیا تو اللہ نے اپنی بے بہا نعمتوں اور رحمتوں سے بھی نوازا لیکن معاشرتی روایات کے برعکس مالی آسودگی ان کے رہن سہن اور چلت پھرت پراثر انداز نہ ہو سکی ،ایمانداری اور سادگی ان کی زندگی کا خاصہ تھی ہمیشہ سفید رنگ کے کپڑے پہنتے سادہ غذا استعمال کرتے ،انہوں نے کبھی اپنے ماضی سے رشتہ نہیں توڑا،عزیزوں رشتہ داروں اور اہلِ محلہ کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی تھے دکھ سکھ میں کام آنا غریبوں کی مدد کرنا حاجت مندوں کے کام آنا ان کی نمایاں خصوصیات تھیں کتنے ہی گھروں کے چولہے ان کی بدولت گرم رہتے ،ہمارے کلینک پر مدارس کے طلبہ کو مفت علاج معالجے کی سہولیات میسر تھیں ، انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کیا۔ہومیوپیتھک طریقہ علاج کو ذریعہ معاش بنایا تواسے صرف رزق روزی کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت اور خدمت خلق کا ذریعہ بھی سمجھا ،مریضوں کے مسائل کو سلجھانے اور ان کی بیماری کو صحت میں بدلنے کیلئے اپنے تمام تر صلاحیتوں کو صرف کیااپنے پیشے اور فن میں طاق تھے اور پورے اخلاص کے ساتھ دکھی انسانیّت اور ہومیو پیتھی کی خدمت کی ،کبھی کلینک میں ایلوپیتھک ادویات کو گھسنے نہیں دیا منافع اور ڈسکاؤنٹ کی بجائے ہمیشہ معیار کو ترجیع دی۔
2006میں پہلی بار ہارٹ اٹیک ہوا تین دن بعد ہسپتال سے واپس لوٹے تو طبیعت بہتر ہوتے ہی دوبارہ زندگی کی مصروفیات کی طرف لوٹ آئے،ڈاکٹر نے انجیو گرافی کا مشورہ دیا تو ہنس کر کہنے لگے ڈاکٹر صاحب جو زندگی تھی وہ تو میں گزار چکا ہوں اب توجو دن مل جائیں وہ بونس ہے کیوں مجھے چکروں میں ڈالتے ہیں بس جو زندگی باقی ہے وہ سکون سے گزر جائے یہی کافی ہے،عیدالاضحٰی پر اجتماعی قربانی کیلئے جانوروں کی خریداری میں مگن رہے کئی بار بہت دور تک پیدل چل کے بھی جانا پڑا جس کے باعث تھکاوٹ ہو جاتی لیکن اگلے دن پھر سے تازہ دم ہو کے ساتھیوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے اسی بھاگ دوڑ میں ان کی طبیعت ناساز ہوئی اور پھر یکم اکتوبر 2015کو دل کی شدید تکلیف کے باعث انہیں اے ایف آئی سی راولپنڈی لے جایا گیاچند دن کے بعد طبیعت پھر سے بحال ہونا شروع ہوگئی مسجد تک چل کے چلے جاتے لیکن کمزوری حد سے زیادہ بڑھ رہی تھی پھیپھڑوں میں شدید انفیکشن اور سانس کی تکلیف بھی ساتھ میں ہوگئی 25نومبر کو ایس ایم حسین ساملی سینیٹوریم مری میں ایڈمٹ ہوئے پانچ دن بعد اچانک تکلیف میں شدت پیدا ہوئی وہاں سے ڈی ایچ کیو راولپنڈی،پھر آر آئی سی، اور پھر وہاں سے پمز ہاسپٹل اسلام آباد منتقل کیا گیاجہاں دو دن تک مسلسل آکسیجن پر رہے اور پھر یکم اور دو دسمبر منگل اور بدھ کی درمیانی شب اللہ کے دین کایہ سپاہی اپنی مستعار زندگی کے 78برس مکمل کرکے رب ذوالجلال کے حضور اس انداز میں حاضر ہوگیا کہ مرنے سے چند گھنٹے قبل تک بھی انہیں اپنی اور اپنی اولاد کی نمازوں کی فکر تھی عصر کے وقت مجھ سے پوچھا کہ کیا چار نہیں بجے جب میں نے بتایا کی چار بج چکے ہیں تو کہنے لگے تو پھر جا کے نماز پڑھ آؤ.
میں بہت چھوٹا تھا جب 21جون 1983کو میری والدہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اباجان نے والدہ کی وفات کے بعد ہمیں نہ صرف باپ بلکہ ماں کا پیار بھی دیا جب امّی جان کا انتقال ہوا تو اس روز منگل کا دن تھا اور آج جب ابا جان اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بدھ کا دن تھا،آج ساڑھے32برس گزرنے کے بعد بس یوں محسوس ہوتا ہے کہ منگل کی سہ پہر میں نے اپنی والدہ کو دفن کیا اور ٹھیک 24گھنٹے بعد بدھ کی سہ پہر ابا جان منوں مٹی تلے جا سوئے ہیں ساڑھے بتیس برس نہیں بلکہ صرف ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو بہت ہی محبت کرنے والی اور بے لوث دعاؤں کے خزانوں سے ہم محروم ہو گئے،
رب کائنات کا دستور ہے یہاں آنے والا ایک دن رخصت ہوتا ہے کوئی کتنا بھی جی لے اسے ایک دن جانا ہے ، اللہ رب العزت ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کی آخرت کی منزلوں کو آسان کرے آمین

................................................................................

................................................................................
.