منگل، 21 جولائی، 2015

حصار

14 comments

اسلام آباد کے نواحی علاقے مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں اس گاؤں کا نام مجھے اچھی طرح سے یاد نہیں لیکن وہ منظر میں بھول نہیں پایا،جب گاؤں کی گلیوں میں خوبصورت بچے اور بچیاں ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے اور تو اور ٹافیاں اور بتاشے بیچنے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا میں حیرت سے ان بچوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسے مناظر تو شادی بیاہ کی تقریبات کا خاصہ ہوتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگے کپڑے ٹافیاں بتاشے اور مہکتے پکوانوں کی خوشبو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بہت چھوٹا تھا جب والدہ کاانتقال ہو گیا مجھ سے چھوٹا بھائی لگ بھگ کوئی دو سال کاہی ہو گااور مجھ سے بڑا کوئی دس سال کے لگ بھگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں میں ہماری کریانے کی ایک چھوٹی سی "ہٹی" ہماری گزر بسر کا ذریعہ تھی لیکن لین دین روپوں پیسوں کی بجائے اجناس کی شکل میں ہوتا تھا کام بہت اچھا تو نہیں تھا لیکن گزر بسر ہو ہی جاتی، والدہ کے انتقال کے ساتھ ہی "خوشحال" رشتہ داروں نے نہ جانے کیوں ہم سے گویا ناطہ توڑ لیا تھا،"گھرداری اور دکانداری"اکٹھے چلانا ،گھر کاکام کاج بھی ہوتا تو کھاناپکانا بھی دکان کھولنا بھی مجبوری ہوتی کہ اس کے بغیر کاروبار حیات چلنا ممکن نہ تھا پھر ایک دن گاؤں میں ایک "مستری" نے آکے اپنی دکان سجائی ، ایسے پرانے "تالوں" میں لوگ اس سے "چابیاں" بنواتے جن کی چابیاں گم ہو چکی تھیں ہر چابی کے عوض وہ "آٹھ آنے" وصول کرتا میں دن بھر اس کے پاس بیٹھا اسے چابیاں بناتے دیکھتا رہا اور شام کو گھر آکے والد صاحب سے کہا کہ آپ تو اپنے گھر کے کسی تالے میں جب "چابی" ٹوٹ جائے تو خود ہی چابی بنا لیتے ہیں اور آج وہ جو تالوں میں چابی ڈالنے والا آیا تھا وہ ایک دن میں اچھے خاصے پیسے کماکے لے گیا تو آپ بھی یہی کام کیوں نہیں شروع کردیتے، والد صاحب کو یہ بات پسند آئی اگلی صبح ہم نے ایک روپے کی کوئی درجن بھرچابیاں خریدیں اور میں اور والد صاحب دونوں بھائیوں کو پڑوسیوں کے سہارے گھر چھوڑ کر قسمت آزمائی کرنے نکل کھڑے ہوئیے بستی بستی قریہ قریہ گھومتے دن میں مزدوری کرتے اور رات کسی مسجد میں ہم دونوں "مسافر" شب بسری کے بعد اگلی صبح پھر سے مزدوری کو نکل کھڑے ہوتے،اللہ نے ہماری محنت میں برکت ڈال دی کام چل پڑا لوگ ہماری آمد کے منتظر رہتے ہم اپنا "آٹا"ساتھ رکھتے کبھی کوئی کام کروانے والا کام کے بدلے میں کھانا کھلا دیتا اور کبھی ہم اپنا آٹا کسی کو دے کے "روٹی" کے ساتھ ایکسچینج کر لیتے۔ دودھ بیچنے کا رواج تو تھا نہیں لوگ دودھ سے دہی،مکھن،لسی اور گھی بناتے اور وہی گھروں میں استعمال ہوتا جن کے گھر میں کوئی گائے بھینس نہ ہوتی وہ"لسی" پڑوسیوں سے مانگ لیتے ہمیں بھی کہیں نہ کہیں سے "لسی" مل جاتی اور یوں لسی کے ساتھ خوب سیر ہو کے کھانا کھاتے صبر شکر کرتے اور رات گاؤں کی مسجد میں بسر کرنے کے بعد اگلی صبح پھر کسی دوسرے گاؤں کا رخ کرتے ، ہفتے عشرے بعد اپنے "گاؤں" کا چکر لگا آتے، وقت پر لگا کے اڑتا رہا اور پھر ہم اسلام آباد کے نواحی گاؤں میں جا نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے نواحی علاقے مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں اس گاؤں کا نام مجھے اچھی طرح سے یاد نہیں لیکن وہ منظر میں بھول نہیں پایا،جب گاؤں کی گلیوں میں خوبصورت بچے اور بچیاں ادھر سے ادھر گھومتے پھر رہے تھے اور تو اور ٹافیاں اور بتاشے بیچنے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا میں حیرت سے ان بچوں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایسے مناظر تو شادی بیاہ کی تقریبات کا خاصہ ہوتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگے کپڑے ٹافیاں بتاشے اور مہکتے پکوانوں کی خوشبو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جاننے والے نے ہمیں اچھا سا کھانا کھلایا میں نے بھی خوب جی بھر کے کھانا کھایا اور پھر جو سوال بہت دیر سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا "والد صاحب" سے پوچھ ہی لیا، "چاچا جی" یہاں اس گاؤں میں آج کسی کی شادی ہے کیا اور والد صاحب کے جواب کی گونج آج بھی کہیں میرے ذہن کے "نہاں خانوں" میں گونجتی سنائی دیتی ہے 
نہیں پتر آج تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید کا دن ہے۔
وقت اور حالات نے محنت کی اس کمائی میں برکت عطاکی حالات بدلے گاؤں میں کریانے کی دکان خوب چل نکلی "کم منافع زیادہ سیل" کے فارمولے پہ کام چلتا رہا،گاؤں کے پرائمری سکول کے شفیق استاد "ماسٹر الف دین" صاحب کی کمال محبت سے میں نےمیٹرک تک تعلیم مکمل کر لی، ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر دوست بنے تو اس میدان میں چلا آیا۔
اور پھر اگلی صبح "ابا جی" کہنے لگے آج ایک عجیب سی بات ہوئی کسی نے گویا مجھے سوتے میں زور سے جھنجھوڑا اور کہنےلگا "ماضی کے دریچوں میں مت جھانکئیے"
"ابا جی" کا لہجہ کچھ اس انداز کا تھا کہ میں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور اب جب کہ میری انگلیاں کمپیوٹر کے "کی پیڈ" پر"ٹھک ٹھک" لکھنے میں مصروف ہیں میری آنکھوں کے سامنے "بار بار" آنسوؤں کے پردے حائل ہو جاتے ہیں۔
بچپن کی عیدوں کا تذکرہ ہوا، میں اپنی عید کاتذکرہ کیا کروں میں تواپنے "والد صاحب" کے بچپن کے عید کے حصار سے ہی کبھی نکل نہیں پایا، اور ان کے سامنے، ان کے زیرِ سایہ آج بھی ایک "بچہ" ہی ہوں 
بس اس کوہی کافی سمجھئے 
اور آخر میں حسبِ روایت ایسی ہی تحریرکیلئے میں ٹیگ کر رہا ہوں محترم ڈاکٹرجواد احمد خان، ملک غلام مصطفٰی،نورین تبسّم،اسرٰی غوری،ایم بلال ایماورجنابمحمد سلیمکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ان کی تحریروں کا انتظار رہے گا

جمعہ، 3 جولائی، 2015

32 برس پہلے کا روزہ

17 comments
جی ہاں 32 سال پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب نہ امن وامان کی صورتِ حال خراب تھی نہ نفرتوں کے بیج پھوٹے تھے،جب ایک ہی پیڈسٹل فین گھر کے سبھی افراد کو ہوا دینے کو کافی تھا اور جب نہ فریزر تھا تو نہ کولڈ ڈرنکس کی بہتات روزہ تو بس لسی اور تنور کی روٹی کھا کے رکھ لیا جاتا اور شکر یا گڑ کا شربت ہی سافٹ ڈرنک ہوتا اور اگر کہیں کسی گھر میں تھوڑی خوشحالی تھی تو وہاں "روح افزاء" ہی سب کچھ تھا، روزے پکوڑوں کے بغیر بھی افطار ہو جاتے اور جب پکوڑوں کی خواہش میں ہمارا پہلا "مکمل روزہ" میڈیسن کے ہاتھوں افطاری سے محض چند لمحے قبل جان ہار گیا 
سحری میں تنور پر پکتی روٹیوں کی "پٹک پٹک"کےساتھ بھی جب آنکھ نہ کھلتی توپاس سے گزرتی باجی چپکے سے پانی کا چھینٹا ہم پر مار جاتی اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کوئی کزن ایک چٹکی ہی کاٹ جاتا اور ہم بھی اٹھ جاتے،جب سخت گرمی کے موسم میں ہم جیسے"چھوٹے بچوں" کو روزہ نہ رکھنے دیا جاتا توسبھی کزنز آپس میں طے کرکے سوتے کہ جس کی بھی آنکھ کھل جائے وہ دوسروں کو لازماً جگائے گا تاکہ سب مل کے روزہ رکھ سکیں کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا کہ کوئی کزن اٹھ جاتا اور دوسروں کو نہ جگاتا کہ اس کے روزے دوسروں سے زیادہ ہو جائیں لیکن ہم بھی کہاں پیچھے رہنے والے ہوتے اگلے دن ، دن میں چار کی بجائے پانچ رزے رکھ کے حساب برابر کردیتے
میرے بچپن کا رمضان بھی آج ہی کے رمضان کی طرح خوب "گرما گرم" تھا۔ سحری میں تنور کی روٹی اور ساتھ میں دہی ، لسی اور گھی شکر توافطاری میں روح افزاء ، شکر کا شربت اور فروٹ میں تربوز ہی اس دور کی سوغات تھی لیکن ایک "عجیب" بات یہ تھی کہ اس دور کا روزہ "پکوڑوں" کے بغیر بھی افطار ہو جاتا تھا۔ ابا جی تراویح پڑھنےجاتے تو ہم بھی گھر سےسر پر ٹوپی سجائے بڑے نمازیوں کی طرح تراویح پڑھنے کے بہانے ساتھ آجاتے ادھر تراویح کی جماعت کھڑی ہوتی ادھرہم دوستوں کی فوج گلی میں "چھپن چھپائی" کھیلنے کو نکل پڑتی اور جب معلوم ہوتا کہ تراویح اختتام کے قریب ہے تو ہم بھی چپکے سے جا کے "آخری صف" میں ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوجاتے۔ افطاری میں روزے داروں سے بڑھ کے اپنے سامنے شربت کا گلاس رکھنا تو معمول تھا ہی تربوز پر بھی خوب ہاتھ صاف کرتے اور رات سونے سے پہلے صرف اس لئے "واش روم" نہ جاتے کہ سحری کے وقت پیشاب کے دباؤ سے آنکھ کھل جائے گی اور پھر کل روزہ رکھیں گے۔
وہ ایسا ہی گرمی کا اک دن تھا جب میں نے ضد کرکے پورا روزہ رکھنے کی ٹھان لی دوپہر بارہ بجے تک تو کام ٹھیک ہی چلتا رہا لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی عصر کے قریب میں نے ضد شروع کی کی افطاری میں میں تو "پکوڑے" بھی کھاؤں گا۔ ابا جان سے "دوروپے" لے کے جو پکوڑوں کی ریڑھی کے پاس پہنچا تو سر ہلکا سا چکرایا فوراً واپسی کی راہ لی لیکن ابھی "کلینک" سے چند قدم دور ہی تھا کی زور سے لڑکھڑایا ابا جان جو میری واپسی کے منتظر تھے کہ میں لوٹوں تو گھر جایا جائے فوراً مجھے تھامنے کو آگے بڑھے لیکن میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا چکا تھا ، میڈیسن کے ہاتھوں افطاری سے چند لمحے پہلے میرا "پہلا روزہ" دم توڑ گیا
رمضان کی سحری اور افطاری کے ساتھ وابستہ حسین یادیں جہاں زندگی کا خوبصورت سرمایہ ہیں وہیں ہر سال آنے والا "رمضان" ایک مہربان "ہستی" کی یادوں کو بھی تازہ کر جاتا ہے ایسے ہی ایک "رمضان" میں جب میں چوتھی کلاس کا طالب علم تھا 1983 کے 9 رمضان المبارک میں میری "ماں" اس دنیا سے رخصت ہو گئیں زندگی کے گزرتے لمحوں میں دکھ اور تکلیف کی بجائے سکھ اور چین کے لمحے ہمیشہ ان کی یادوں کو تازہ کر دیتے ہیں۔
میں شکر گزار ہوں محترمہ کوثر بیگ صاحبہ کا جن کی پہلی"رمضان تحریر"نے بچپن کےرمضان کو ایک تحریری چین(Chain) بنا دیا
خصوصی شکریہ محترم رمضان رفیق صاحب کا جنہوں نے مجھے خصوصی طور پر ٹیگ کیا اور یہ تحریر ضبطِ قلم میں آسکی
اختتام پر میں بھی کچھ لوگوں کو ٹیگ کرتا چلوں تاکہ کچھ اور خوبصورت یادوں سے ہم لطف اندوز ہو سکیں
محترم محمد سلیم ، نورین تبسّم ، اسرٰی غوری ، ایم بلال ایم ، غلام اصغر ساجد ، وجدان عالم اور محترم مصطفٰی ملک صاحب کی"رمضانی" تحریروں کا انتظار رہے گا

................................................................................

................................................................................
.