اتوار، 28 جون، 2015

میرا محسن

3 comments
دو اجنبی طائف کی گلیوں اور بازاروں میں ایک ایک دروازے پر دستک دیتے ایک ایک دل کی دنیا کو بسانے کی کوشش میں صبح سے شام کر گزرتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی دعوت پہ لبیک کہے کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی بات سننے پہ آمادہ ہو، کوئی ایک بھی نہیں جو ان کی دعوت کو اپنے دل میں جگہ دینے والا ہو۔دعوت کو سننا اور اسے قبول کرنا تو درکنار انہوں نے تو مذاق اور ٹھٹھے کی بھی انتہا کردی کوئی کہتا ہے اچھا تم کو نبی ﷺ بنا کر بھیجا ہے اللہ میاں کو کوئی اور نہیں ملا تھا کہ جس کو نبی بنا کر بھیجتا طنز کے کیسے کیسے نشتر اور تیر تھے جو ان پر چلائے نہیں گئے لیکن پھراسی پرہی بس نہیں کیا گیا طعن وتشنیع اور طنزومزاح کے تیروں سے دل تو زخمی تھا ہی کہ واپس لوٹتی اس عظیم ہستیﷺ اور ان کے ساتھی کے پیچھے گلی کے بچوں اورآوارہ لڑکوں کو لگا دیا اور نتیجتاً اتنا پتھراؤ آپﷺ پر کیا جاتا ہے ،اتنی کنکریاں ماری جاتی ہیں کہ جسمِ اطہر سے خون نکل نکل کر نعلین مبارک میں جم جاتا ہے اور اس حال میں آپﷺ ایک درخت کے نیچے سستانے کو ٹھہرتے ہیں کہ جبریل امین علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے ساتھ پہاڑوں کے فرشتے کو لایا ہوں اگر آپﷺ حکم کریں تو اس بستی کے گرد ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا کر اس کو تہس نہس کردےاس لئے کہ آج آسمانوں پر اللہ رب العزت بھی بڑا غضبناک ہے کہ اس کے محبوب بندے کو یوں ستایا گیا ہے یہی نہیں بلکہ پتھروں سے لہو لہان کرکے خالی ہاتھ لوٹایا گیا ہے بس آپ ایک اشارہ کیجئے کہ اس بستی کورہتی دنیا تک کیلئے عبرت کا نشان بنا دیا جائے، کس قدر سنہری پیشکش ،ابھی چند لمحوں پہلے ہی جن لوگوں نے ظلم کی انتہا کر دی خون میں نہلا دیا، پاگل اور مجنوں کہا ان سے بدلہ لینے کا موقع ہاتھ آگیا تھا لیکن آپ ﷺ جبرئیل امین علیہ السلام کی زبانی اس پیشکش کو سنتے ہیں تو فرماتے ہیں نہیں جبرئیل یہ نہیں تو ان کے بعد والے ایمان لے آئیں گے، وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں ایمان لے آئیں گی ان کی نسلوں میں کوئی تو ہوگا کہ جو ان راہوں پہ چلے گا،  یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج انہیں فنا کے گھاٹ اتار کے مستقبل کے متعلق کوئی امید قائم کی جاسکے،بلاشبہ ایسے الفاظ تو کوئی ایسی ہی ہستی کہہ سکتی ہے جورحمۃاللعالمین ہوجس کے دل ودامغ میں بس انسانوں کی خیر خواہی ہی پیشِ نظر ہو۔ نبی اکرم ﷺ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام سے یہ بات کہتے ہیں اور پھر ضبط کا دامن ٹوٹ جاتا ہے اور سجدے میں گر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں پروردگار! یہ تو نے مجھے کن کے حوالے کر دیا جو میری بات ہی نہیں سنتے ، میری بات کو دل میں جگہ ہی نہیں دیتے، لیکن اس گلے اور شکوے کے بعد فرماتے ہیں پروردگار! اگر تو اسی پر راضی اور خوش ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوں
لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں درودو سلام نبی مہربان ﷺ کی بصیرت پر کہ "یہ لوگ نہیں تو ان کے بعد آنے والے وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں تو ان راہوں پہ چلیں گی" 
کبھی آپ نے سوچا یہ میں اور آپ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور نبی ﷺ کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں یہ نبی ﷺ کے اسی صبر اور رحمۃاللعالمین ہونے کا نتیجہ ہے، وہ جو نبیﷺ نے فرمایا تھا "یہ لوگ نہیں تو ان کے بعد آنے والے وہ نہیں تو ان کی آئندہ نسلیں تو ان راہوں پہ چلیں گی" گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ انہی اہلِ طائف کی بدولت اسلام مجھ تک اور آپ تک پہنچا ہجرتِ مدینہ کے 92 برس بعد 10 رمضان المبارک 92 ہجری میں محمد بن قاسم ایک مسلمان بیٹی کی پکار پرسندھ کے راستے برصغیر میں داخل ہی نہیں ہوا بلکہ اسلام کی ٹھنڈی ہوائیں بھی اپنے ساتھ لایا 
لاکھوں درودوسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر جن کے نعلین بارک خون سے لت پت ہوئے اور ان کی اس قربانی کے نتیجے میں اہلِ طائف کی اولاد میں سے محمد بن قاسم ،اسلام کا داعی بن کے پورے برصغیر کی تاریک فضاؤں کو اسلام کی روشنی سے منور کر گیا
بلاشبہ وہ میرا محسن ہے 

منگل، 2 جون، 2015

اٹل حقیقت

1 comments

سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے اسے ایک عمر گزر گئی محنت و مشقت تو اس کی "گھٹی" میں "رچی بسی" تھی، اپنے ہاتھوں سے برتن بنانا آباؤ اجداد سے اس کا پیشہ چلا آرہا تھا،اس کے بیٹے گاؤں کی زندگی ترک کرکے شہر میں جابسے لیکن اس نے گاؤں چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ بس"جینا مرنا" یہیں ہو گا، محنت مشقت کےعادی اس شخص کی صحت بھی بلا کی تھی "خشک روٹیاں" کھا کے 80 سال کی عمر میں بھی جوان دِکھتا تھا،عجیب سادہ آدمی تھا زندگی کی 80 بہاریں گزار دیں لیکن کبھی گاڑی میں سفر نہیں کیا اس خوف سے کہ گاڑیوں کے ایکسیڈنٹ میں لوگ مر جاتے ہیں،
"تایا جان" اس کا تذکرہ کر رہے تھے اور میں کمال حیرت سے ان کی باتیں سنے جا رہا تھا کیا آج کے دور میں بھی ایسا ممکن ہے کہ کوئی پیدل سفر کو گاڑی پہ سفر کرنے پہ ترجیح دے لیکن مجھے بتایا گیا کہ وہ تو 30 میل دور بسنے والی ہمشیرہ سے ملنے بھی ہمیشہ "پیدل" ہی چل دیتا تھا ،اور کل صبح بھی ہمشیرہ سے ملنے کیلئے گاؤں سے پیدل نکل کھڑا ہوا۔ کوئی تین میل ہی چلا تھا کہ پرانے "گرائیں" غلام نبی سے ملاقات ہوگئی اور جب دو دیوانے یار مل بیٹھے تو روڈ کنارے ہی محفل سجا لی باتوں ہی باتوں میں وقت گزرنے کااحساس ہی نہ ہوا اور فرشتئہ اجل آپہنچا روڈ سے گزرنے والی کار کا ٹائر نکلا اور گاڑی "مست اونٹ" کی طرح "جھومتی" ان دونوں لنگوٹیوں سے آٹکرائی۔ "جمعہ خان" جو کبھی موت کے خوف سے گاڑی پہ سوار نہ ہوا تھا گاڑی ہی کی ٹکر سے داعیِ اجل کو لبیک کہہ گیا اور اس کا "لنگوٹیا" یار موت وحیات کی کشمکش میں ہسپتال جا پہنچا۔ موت کے خوف سے گاڑی میں سوار نہ ہونے والا "چاچا جمعہ خان" اس بات سے بے خبر رہا کہ موت تو انسان کے سائے کی طرح ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے جو ایک اٹل حقیقت ہے اور جس سے فرار ممکن نہیں۔ 
بے شک سچ فرمایا اللہ ب العزت نے
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ 
تم جہاں کہیں (بھی) ہوگے موت تمہیں (وہیں) آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں (ہی) ہو(سورۃ النساء  آیت 78)

................................................................................

................................................................................
.