بدھ، 21 جنوری، 2015

ضابطہ

1 comments

بچپن میں چینی کیلئے لمبی لائن میں کھڑے رہنے کا تجربہ ہوا تو لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سردیوں میں ایل پی جی سلنڈر کی دستیابی نایاب ہوگئی سلنڈر کا حصول جان جوکھوں کا کام تھااکثر لوگ رات کے وقت ہی ایجنسی کے سامنے سلنڈروں کو زنجیروں کے ساتھ باندھ کے لائن بنا جاتے ،کبھی لوگوں کو آٹے کیلئے لمبی لائن بنائے کھڑے دیکھا تو کبھی بجلی اور سوئی گیس کے بل جمع کروانے کیلئے لائن میں لگے سارا دن گزر جاتا، وقت گزرتا گیا اور پھر سی این جی کی لمبی لائن کا آغاز ہو ا تو یہاں بھی ڈرائیور رات کو ہی گاڑیاں لائن میں کھڑی کر جاتے ، لیکن جب سی این جی تین ماہ کیلئے لوڈشیڈنگ کے نرغے میں آئی تو خیال تھا کہ اب لائنوں سے اس قوم کی جان چھوٹ جائے گی لیکن گزشتہ چند روز سے لوگوں کو پٹرول کیلئے لائن میں لگے دیکھ بلکہ خود اس تجربے سے گزرتے ہوئے ماضی کی یادیں ایک بار پھر سے تازہ ہو گئیں کہ جب صبح سویرے نماز کے وقت ہم بھی ایل پی جی سلنڈر لئے لائن میں لگ جاتے تھے۔اس وقت ذہن میں ایک خیال آتا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی شخص ہماری باری رکھے رکھے اور جب ہمارا نمبرآئے تو ہم جھٹ سے آکے  اپنے حصّے کی چینی یا سلنڈر حاصل کر لیں ۔اس خواب کی تعبیر آج کے اخبار میں ایک خبر نظر سے گزرنے کے بعد حقیقت کا روپ دھارتی نظر آرہی ہے کہ جنوبی امریکہ کا ایک ملک وینزویلا ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے جہاں چینی،چاول،اور دیگر اشیاءِ خوردونوش کے حصول کیلئے صبح سویرے سے ہی لوگ قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں ، اس اثناء میں کچھ پیشہ ور لوگوں نے لائنوں  میں کھڑا ہونے کو اپنی آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے وہ صبح سویرے لائن میں لگ جاتے ہیں اور امیر لوگوں کیلئے سامان کی خریداری کرکے اپنی دیہاڑی کھری کرلیتے ہیں، اشیاءِ ضروریہ کی قلّت نے جہاں لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے وہیں یہ بحران کئی ایک گھرانوں کے پیٹ کا ایندھن فراہم کرنے کا سامان بھی کئے ہوئے ہے۔
ہزاروں میل کی مسافت پر بسنے والے جنوبی امریکہ کی اس ریاست کے باشندے ہوں یا اسلام کی بنیاد پر بننے والی مملکتِ خدادا پاکستان کے باسی ربِّ ذوالجلال نے اس دھرتی کے سینے پر بسنے والے ہر فرد کیلئے ایک ضابطہ طے کر دیا
 وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَعۡمٰی ﴿۱۲۴﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا ﴿۱۲۵﴾ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ وَکَذٰلِکَ الۡیَوۡمَ تُنۡسٰی ﴿۱۲۶﴾ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ مَنۡ اَسۡرَفَ وَ لَمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ؕ وَ لَعَذَابُ الۡاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبۡقٰی ﴿۱۲۷﴾

اور جو میرے ذکر(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کیلئے ہم دنیا کی زندگی کو تنگ کر دیں گے،اور قیامت کے روز اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے،وہ کہے گا” پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا”ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں ، تُو نے بُھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے۔اس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں )بدلہ دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر پا ہے۔
دنیا کی زندگی تنگ ہونے کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ان کو مالی مشکلات ہوں بلکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پیسے جیب میں ہوں اور اشیاءِ ضروریہ کیلئے مارے مارے پھرتے ہوں۔ پیسے ہاتھوں میں اٹھائے پٹرول ،گیس، بجلی، آٹے اور چینی کیلئے ترستے لوگوں کیلئے دنیا کی یہی زندگی قرآن کی زبان میں "مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا" ہے۔

................................................................................

................................................................................
.