جمعہ، 22 مئی، 2015

سیؔد منوؔر حسن کی کھری کھری باتیں

12 comments
 کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں قائم اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی وسیع وعریض عمارت کے کانفرنس روم میں ہم ٹھیک وقت پر پہنچے تھے اس لئے کہ ہمیں اپنے میزبان کی "پابندئِ وقت" کی خوبی کا بخوبی علم تھا معلوم ہوا وہ ٹریفک جام کی وجہ سے 5 منٹ لیٹ ہیں اور یہ پانچ منٹ گزرتے ہی روشن پیشانی سادہ لباس اور چہرے پہ مسکراہٹ سجائے "سید منور حسن" ہمارے درمیان موجود تھے سب سے فردًا فرداً ہاتھ ملایا خیریت پوچھی تعریف وتعارف کے مرحلہ طے ہوا،ادرے میں اردو بلاگرز کی آمد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا،اردو کے علاوہ دیگر زبانوں پر کام سے حوالے سے معلومات لیں،انہیں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی زبانوں میں اردو کے علاوہ سندھی اور پشتو کے استعمال کرنے والے بھی موجود ہیں،مختلف سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات لیں،اور اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی اسی دوران "گرما گرم" چائے آ گئی اور چائے کی "چسکیوں" کے درمیان گفتگو کا موضوع کراچی کی صورتحال کی طرف آگیا ، "سیّد صاحب" نے اس حوالے سے تفصیلی اور بے لاگ گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ایم کیو ایم کو ٹارچر کر کے یا اس کو نشانہ بنا کے الیکشن لڑا گیا تو ہمیشہ ایم کیو ایم کو ووٹ پڑا کیونکہ عصبیت ایسی چیز ہے کہ اگر اسے چھیڑا جائے تو یہ ملٹی پلائی کرتی ہےایم کیو ایم نے مہاجر کارڈ کو بہت کامیابی سے کھیلا ہے کہ وہ لوگ جو ایم کیو ایم کو چھوڑ کے دوسری جانب چلے گئے تھے انہوں نے بھی یہ اعلان کیا کہ آدھے مہاجر ہونے سے پورا مہاجر ہونا بہتر ہے،یہ ایک ایسا حلقہ تھا جہاں مہاجر ووٹ بہت بڑی تعداد میں ہے اور پنجابی یا پختون ووٹ نہ ہونے کے برابر، بنیادی بات یہی ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے مہاجروں کو انڈر پریشر کرنے کی کوشش کی گئی عمران خان نے مہاجروں کو گالی دی تو جماعت اسلامی نے بھی مہاجروں کے ساتھ مس بی ہیو(Misbehave) کیا اور یہی وجہ ہے کہ 25 سے 30 پزار ووٹ صرف اس وجہ سے ایم کیو ایم کو زائد پڑے،یہ ایک تلخ حقیقت  ہے کہ یہ الیکشن سیریس ہو کے لڑا ہی نہیں گیا۔
بدلتے ہوئے عالمی اور ملکی حالات میں اسلامی جماعتوں کے مستقبل، مصر بنگلہ دیش،الجزائراور خود پاکستان میں اسلامی تحریکوں کے گرد تنگ ہوتے دائروں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا جسے اب "گلوبل ویلج"کا نام دیا جاتا ہے اس گلوبل ویلج کی ساری معلومات آپ کی انگلیوں کے پوروں تلے ہیں لیکن ان معلومات کے ذرائع آپ کے کنٹرول میں نہیں یہ انفارمیشن سے زیادہ ڈس انفارمیشن کی دنیا ہےجو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آپ کی نہیں بلکہ غیروں کی دنیا ہے اور داعش سے لے کر گنتے چلے جائیں تو بے شمار واقعات ایسے ہیں جو ڈس انفارمیشن کا نتیجہ ہیں ایشو یہ نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا،ایشو یہ ہے کہ اس کے باوجود ہم موجود ہیں،موت کی سزائیں سنا دی گئیں، لوگ جیلوں میں بند ہیں لیکن آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ تمام دائروں میں ہمارا وجود باقی ہے اتنے بڑے پیمانے پرامریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں موجود رہیں لیکن وہاں کچھ بگاڑ نہیں پائے ابھی بھی کم از کم 37 صوبے ایسے ہیں کہ جہاں شریعت نافذ ہے وہاں عدالتوں کے تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں حکومت کی قائم کردہ عدالتیں بھی موجود ہیں لیکن کوئی ان کی طرف رجوع ہی نہیں کرتا کیونکہ نہ وہاں انصاف نہ فوری ملتا ہی نہ مفت بلکہ وہاں انصاف ملتا ہی نہیں ۔
چھوٹے چھوٹے دائروں میں بھی اسلامی اور جہادی تحریکیں ہیں یہ سب لوگ زندہ ہیں اوران کی گردنوں پر سر قائم ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ بمباری ،ڈرون حملے، بم دھماکے،گرفتاریاں ، سزائیں اور قیدوبند کے باوجود ان کے قدم آگےبڑھے ہیں ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی اور ان کو ختم کرنا ممکن نہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریکوں کے پاس  جوعلاج ہے وہ کرتے رہنا چاہئیے،رستے بن رہے ہیں، نکل رہے ہیں ریاست کے اعتبار سے صرف ترکی کی ایک ریاست ہے جو آپ کی پشتیبان ہے باقی تو کہیں کہیں جزوی حمایت ہے
پاکستان کے اسلام پسند نوجوان موجودہ سیاسی سسٹم سے مایوس نظر آتے ہیں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پالیٹکس کی گیم ہے یوتھ کا مسئلہ تہ در تہ ہے پاکستان کے باہر یورپ اور امریکہ اور مڈل ایسٹ میں پاکستان کے بہت زیادہ نوجوان جابز کیلئے گئے ہیں لیکن ان نوجوانوں نے اپنے آپ کو اسلامی تحریکوں کے ساتھ منسلک رکھا ہے پاکستان میں بڑی تعداد جو بیرون ملک سے اسلامی تحریک سے متاثرہوئی انہوں نے وہاں سیاسی کام کے علاوہ سارے کام کئے اور صلاحیتوں کو زنگ آلود نہیں ہونے دیا،لیکن پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں آکربڑی تعداد ڈس سیٹسفائیڈ ہوئی ہے اوران کے  اس مؤقف کو رد نہیں کیا جاسکتا،یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد جو یہ سمجھتی ہے کہ ہم غلط کر رہے ہیں ان کا ایک بہت بڑا گروپ جو جہاداور جہادی تحریکوں کی طرف چلا گیا اگرچہ اس سے تحریک کو نقصان پہنچ بھی رہا ہے اور ہوا بھی ہے،لیکن ان کی قدر کرنا چاہئیے اوران کوواپس دھارے میں لانے کیلئے کوششیں جاری رہنی چاہئیں،بہت اچھے حالات سننے کی نوید ملے کی تو اسلام کے نام لینے والے ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہو جائیں گے،بہت ساری چیزیں پلان کرنے کے باوجود نہیں ہو پاتیں، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اچھی پلاننگ بھی کریں لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بہت ساری چیزیں بغیر پلان کئے بھی ہو جاتی ہیں
اسلامی جمعیّت طلبہ کے غیر مؤثر ہونے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کے الیکشن ختم ہونے کے بعد بڑی تعداد میں باصلاحیت لوگوں کا جمعیت کی طرف آنا کم ہوا ہے ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں کا پرائیویٹ سیکٹر میں چلے جانا بھی ہے جہاں جمعیت کا داخلہ ہی ممنوع ہے جس کی وجہ سے جمعیت کو ہی نہیں پوری تحریک کو نقصان ہوا ہے یہ بھی اسلامی تحریک کے سوتوں کو خشک کرنے کی مسلسل کوششوںکا ایک حصؔہ ہے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سیکولرازم جتنا مضبوط آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں رہا، اور آج کا سیکولرازم  کسی نظریے کا نام نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی نظریہ اور فلسفہ سرے سے ہے ہی نہیں لیکن نقصان پہنچانے کیلئے اورلوگوں کے نظریے اور ترجیحات بدلنے کیلئے اتنا بھی کافی ہے۔
اس کا علاج اور حل کیا ہے اس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سید منور حسن کا کہنا تھا کہ اس کا علاج تو یہی ہے ایک یا دو بڑی کامیابیاں ضروری ہیں اور ان میں سے ایک الیکشن میں کامیابی بھی ہے اور پاکستان میں تو الیکشن کی کامیابی تو پنرہ بیس سیٹوں کی کامیابی بھی شمار کی جاتی ہے، اور اگر ایسا ممکن ہو گیا تو امید ہے کہ حالات کی بہتری کی کوئی امید نظر آتے ہی عوام  بڑی تعداد میں آپ کے ساتھ ہوں گے جیسے  کچھ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے اور کچھ بعد میں۔
سوشل میڈیا پر اسلامی تحریک کے کارکنان کے نام پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریکوں کے بہت کم لوگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں آپ لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے اس خلاء کو پرکیا ہے اور اب جب کہ دنیا میں حالات کے اعتبار سےان گنت پلیٹ فارم وجود میں آئے ہیں تو جن کے بارے میں معلوم نہ ہو اس کی مخالفت نہ کریں ممکن ہے کہ ہم غلط فہمی کی بنیاد پر کسی صحیح چیز کی مخالفت کر بیٹھیں اور وہ نقصان کا باعث بن جائے،جن کے بارے میں معلوم ہو ان کی سپورٹ کریں اور اس کا ساتھ دیں 
سید منور حسن کے ساتھ 30 منٹ کی طے شدہ ملاقات لگ بھگ ایک گھنٹہ تک جای رہی سید صاحب نے کمال محبت سے ہمیں وقت دیا اورملاقات کے اختتام پر دروازے تک ہمیں رخصت کرنے آئے ایسے لوگ پہاڑی کا وہ چراغ ہوتے ہیں جو خود جلتے اور دوسروں کو اپنی روشنی میں راستہ دکھاتے ہیں۔

جمعرات، 14 مئی، 2015

اردو سے اردو سورس تک

14 comments

میں نے قدم قدم چلنا شروع کیا۔ امّی، ابّا اور چاچا،ماما زبان سے نکلا،گھر اور گلی محلّے کے "بولتے لوگوں" کی باتیں میری سمجھ میں آنا شروع ہوئیں تو ارد گرد کے سبھی لوگوں کو "ہندکو" ہی بولتے پایا اور تو اور محلے کے جس "گرلز پرائمری" سکول میں مجھ لڑکے کو "پڑھ لکھ" کے "بڑا آدمی" بننے کیلئے بھیجا گیا وہاں کی زبان بھی "ہندکو" ہی تھی۔ لے دے کے پوری کلاس میں ایک "بی بی " ہی ایسی تھی جو اردو بولتی تھی اور جس کی دیکھا دیکھی ہم بھی "گلابی اردو" میں بات کرنے کی کوشش کرتے سنا تھا وہ بھی "کراچی" سے آئی تھی گزرتے وقت اور حالات نے پھر ثابت کیا کہ پاکستانی معاشرے میں رابطے کی زبان تو اردو ہی ہے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں بغیر بولے،بغیر لکھے،بغیر سمجھے اور بغیر پڑھے انسان کتنے حقیر ہوتے اگر ان کی کوئی زبان نہ ہوتی، زبان اظہار کا ذریعہ ہے اور یہی انسانوں کی پہچان بنتی ہے اور جب بات اردو کی ہو تو یہ میری اور آپ کی پہچان بنتی ہے،مادری زبانوں کی اہمیّت اپنی جگہ لیکن چترال کی بلندیوں سے کراچی کے پانیوں اور کشمیر کی وادیوں سے گوادر کے ساحلوں تک اس ملک کی98 فیصد آبادی کا رابطے کا ذریعہ اردو ہے،جب ہم اردو کی بات کرتے ہیں تو اس پر احسان نہیں کرتے بلکہ "اردو" کا احسان ہے کہ ہم "اردو" میں لکھتے ہیں، اسے بولتے ،سمجھتے اور اس میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں جب اردو بولنا باعثِ عار اور"منہ ٹیڑھا" کر کے انگلش بولنا باعثِ فخر گردانا جارہا ہے کراچی کے چند اردو بلاگرز نے جامعہ کراچی میں"اردو سوشل میڈیا سمٹ" کا انعقاد کر کے اپنے حصّے کی شمع جلانے،اپنے حصّے کا پودا لگانے کی کوشش کی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ شمع کب ایک رشن چراغ اور یہ ننھا پودا کب ایک پھل آور درخت کا روپ دھارتے ہیں۔
8 مئی کو اس ایک روزہ "اردوسوشل میڈیا سمٹ" میں بحیثیت "اردو بلاگر" دیگر اردو بلاگر دوستوں ایم بلال ایم،محمد سعد،وجدان عالم،غلام اصغر ساجد،مرزاغلام عباس اورمہتاب عزیز کے ساتھ شمولیّت کا دعوت نامہ ملا تو تو ہم بھی "بچپن کی ناکام محبت" کو دل میں بسائے کراچی کیلئے عازم سفر ہوئیے جہازکے ٹائروں نے رن وے کو چھوا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بج اٹھی پروگرام کے روحِ رواں برادرِ محترم کاشف نصیر مخاطب تھے"ہم سیکورٹی کے مراحل سے گزر رہے ہیں اگر آپ کو تھوڑے انتظآر کی زحمت برداشت کرنا پڑے تو ہم آپ سے پیشگی معذرت خواہ ہیں" جلد ہی جامعہ کراچی کے مہمان خانے میں پہلے سے موجود پنجاب بھر سے آئے ہوئے اردو بلاگرز کے درمیان موجود تھا،دو احباب کے علاوہ سبھی چہرے میرے لئے ناآشنا تھے لیکن یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے سے آشنا ہوں یوں تپاک سے  یوں ملے کہ اپنی محبتوں کا اسیر کرلیا۔
جامعہ کراچی کا ایچ ای جے آڈیٹوریم پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا لوگ کرسیوں کے علاوہ سیڑھیوں پہ بھی بیٹھے تھے جو ان کی اردو سے محبت کا ثبوت تھا،مقررین کی تقریریں ہوں،منتظمین کے انتظامات ہوں یا مذاکرے کی روداد،اس کے متعلق لکھنے کیلئے تو الگ سے ایک بلاگ پوسٹ کی ضرورت ہے۔
یہ بحث ایک طرف کہ"اردو سوشل میڈیا سمٹ" میں بلاگنگ یا بلاگرز کیلئے کیا کیا گیا یہ بات بہرحال قابلِ تحسین اور منتظمین قابلِ مبارکباد ہیں کہ یہ سب اس زبان کے فروغ کیلئے تھا کہ جس میں ہم لکھتے، پڑھتے ،بولتے، سوچتے اور خواب دیکھتے ہیں،اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا کہ یہ سمٹ اردو کی ترقی میں کوئی کردار ادا کر سکا یا کہ نہیں۔ اس کو منظم کرنے والے اور اس میں شریک ہونے والے ایک طرف اس کی کامیابی کے شادیانے بجا رہے ہیں تو دوسری طرف بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے پیٹ میں اٹھنے والے "مروڑوں" کیلئے کوئی دوا کارگر نہیں ہو رہی۔
مجھ جیسے "ہندکو سپیکنگ" کیلئے "اردو" سے "اردوسورس" تک کا یہ سفر ایک منفرد تجربہ تھا جہاں اور کچھ ملا یا نہیں سمٹ میں شریک شرکاء کی محبتیں سمیٹنے کاذریعہ ضرور ثابت ہوا۔شکریہ کراچی، شکریہ اردو سورس، شکریہ اردو سوشل میڈیا سمٹ
مخالفت برائے مخالفت اور اصلی نقلی کے چکروں سے نکل کر اردو کی ترویج وترقی کیلئے اٹھنے والے قدم قابلَ تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ غلطیوں سے سبق سیکھیں جو کمی رہ گئی اسے دور کرنے کی کوشش کریں امید ہے اگلے برس ایک بہتر تنظیم اور مؤثر پروگرام کے ساتھ اردو سوشل میڈیا 2016 کا انعقاد جذبون کو مزید مہمیز کا باعث بنے گا

جمعہ، 1 مئی، 2015

مزدوروں کادن

1 comments
ایک عجیب رواج چل پڑا ہے بس سال میں ایک دن منا لو اور پھر سب بھول جاؤ کبھی ماؤں کا دن تو کبھی استاد کادن کبھی مزدوروں کا دن تو کبھی محبت اور پیار کا دن اور اغیار کی دیکھا دیکھی ہم بھی اب بس "سن" ہی مناتے ہیں آج پاکستان کے طول وعرض میں بھی مزدوروں کا دن منانے کیلئے قومی تعطیل ہے لیکن مزدور بیچارا پھر بھی اپنی دیہاڑی تلاش کرنے کو چوکوں اور چوراہوں میں کھڑا ہے چوک میں کھڑے مزدور سے جب میں نے سوال کیا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج ملک میں تمہارے نام پر چھٹی ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا "صاحب لیکن میں چھٹی نہیں کر سکتا اس لئے کہ اگر چھٹی کروں گا تو شاکو میرے بچے بھوکے ہوں گے مزدوری اس لئے کرتا ہوں کہ دو وقت کی روٹی روزیکا بندوبست ہو جائے مجھے کیا پاکستان چھٹی کرے یا پوری دنیا مجھے تو مزدوری کرنا ہے" 

پاکستان کا مزدور اپنے حقوق سے کس قدر دُور ہےاس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عام محنت کرنے والا شخص، دیہاڑی کرنے والا اورمِل ورکر غریب، کمرتوڑ اورمنہ زور مہنگائی کے ہاتھوں مسائل کے گرداب میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ مہنگائی کے عفریت نے اکثریتی آبادی کو دووقت کی روٹی سے بھی محروم کردیا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 300 سے 400 فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور افراطِ زرمیں اضافے اور بجلی کی عدم دسیتابی نے پاملک بھر کے لاکھوں مزدوروں کو بے روزگار کر دیا ہے ان حالات میں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ایک دن منا لینے سے کیا ہم کسی کا حق ادا کر سکتے ہیں؟
نبی مہربان ﷺ نے تو اپنے ہاتھ سے مزدوری کرنے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا اور یہ حکم ارشاد فرمایا کہ مزدورکی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکرو۔ مزدورکی اُجرت کم ادا کرنے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ روز ِقیامت مَیں اس شخص کے خلاف ہوںگا جو مزدور سے پورا کام لے مگر اس کو اُجرت پوری نہ دے۔آپ ﷺ نے ایک بدو(دیہاتی) سے ہاتھ ملایا تو اس کے ہاتھوں کی سختی سے متعلق اس سے استفسار کیا اس شخص نے جواب دیا کہ رزقِ حلال کمانے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے پتھرکی ایک کان میں کام کرتا ہوں جس کی وجہ سے میرے ہاتھ سخت ہو گئے ہیں سرکارِ دوجہاںﷺ نے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ جو ہاتھ رزقِ حلال کمانے کیلئے پتھر کوٹتے ہوئے سخت ہو جائیں وہ اس قابل ہیں کہ ان "نبوّت" ان کا بوسہ لے 
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ محض ایک دن منانے کی بجائے ہم آگے بڑھیں اور معاشرے میں مزدور کو اعلٰی مقام دیں کہ جس کی محنت کی بدولت نظامِ زندگی رواں داں ہے

................................................................................

................................................................................
.