یہ90 کی دہائی کا تذکرہ ہے جب میں نے گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس دور میں گلی کے کسی ایک گھر میں ٹیلی ویژن ہوتاتھا جہاں شام کے وقت ہم جا کے ڈرامہ دیکھا کرتے اور جب"گلی ڈنڈا" اور "بنٹے کھیلنا" مشہور زمانہ کھیل تھے تو "پولکا آئس کریم" کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ اسی دور کی بات ہے سال چھ مہینے گزرتے تو ایک سائیکل والا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ شہر میں وارد ہوتا سکول کے راستے میں بنے "ڈاک بنگلے" کے گراؤنڈ میں ڈیرہ لگاتا ایک دائرہ میں گھاس پھونس صاف کرتااور درمیان میں شامیانہ لگ جاتا اور ساتھ میں لاؤڈ سپیکر پر گانے بجنے لگ جاتے اس سائیکل سوار اور اس کے ساتھیوں کو لوگ "رنگیلا" کے نام سے پکارتے بس جی گراؤنڈ تیار ہونے کی دیر ہوتی رنگیلا صاحب اپنی سائیکل پر بیٹھتے اور سائیکل دائرے میں گھمانے لگ جاتے سپیکر پر اعلان شروع ہوجاتے کہ "رنگیلا ایک بار پھر آپ کے شہر میں" رنگیلا دن کے اوقات میں مختلف کرتب دکھاتا جو سکول ٹائم کے بعد ہماری واحد تفریح ہوتی، رنگیلا سائیکل پر رنگ برنگے کرتب دکھاتا،سائیکل پر ہی نہاتا، کپڑے بدلتا اور میوزک کی تال پر خود بھی جھومتا گاتا اور سائیکل کو بھی نچاتا پھرتا، اکٹھے ہونے والے لوگ اسے داد دیتے کوئی 2 اور کوئی ایک روپیہ اسے انعام دیتا،عام طور پر یہ کھیل دو سے تین دن جاری رہتا اور پھر مقامی انجمن تاجران کے کوئی "حاجی صاحب" یا پھر کوئی "نونی خان" ٹائپ مقامی کونسلر آتا اور سو پچاس روپے انعام میں دے کر اسے سائیکل سے اتارنے کی رسم ادا کر دیتا۔علاقے کا ایک سردار مقامی ایم پی اے تھا رنگیلے نے اعلان کیا کہ اب کی بار اس وقت تک سائیکل سے نہیں اترے گا جب تک "سردار صاحب" بنفسِ نفیس تشریف نہیں لاتے اور اسے انعام میں 5000 روپے دے کر سائیکل سے نہیں اتارتے وہ سائیکل چلاتا رہے گا اور بالکل بھی نیچے نہیں اترے گا، لوگوں کو معلوم تھا سردار صاحب جو کبھی الیکشن کے بعد نظر نہیں آتے "رنگیلے" کی رسمِ اترائی" ادا کرنے کب آئیں گے رنگیلے کی ضد سن کر اس سے پہلے آنے والے حاجی صاحب اور نونی خان بھی نہ آئے اور سردار صاحب نے تو آنا ہی نہ تھا۔ رنگیلے کا سائیکل چلا چلا کے برا حال تھا 72 گھنٹے گزر گئے تو کچھ لوگوں نے شہر کے مشہور چائے فروش "بشیرے" کو سو روپے دئیے اور اس نے جاکے رنگیلے کی"سائیکل اترائی"کی رسم ادا کر دی
گزشتہ چند روز سے ٹیلی ویژن سکرین دیکھتے دیکھتےرنگیلا بہت یاد آرہا ہے اورسوچ رہا ہوں دیکھوکب کوئی"بشیرا"جاتاہےاوران جھومتےگاتے "رنگیلوں" کو سائیکل سے اتارنے کی رسم ادا کرتا ہے۔
:: ہر انسان رنگیلا بھی ہے رنگساز بھی۔ چاہےتو رنگوں کی پچکاریاں اِدھراُدھر پھینک کررنگ بکھیردے اور نہ کر سکےتو کوئی ایک رنگ اوڑھ کر رنگیلا بن جائے۔
زبر دست مماثلت
انسان کا تخیل اور یادداشت ایسی ہی باکمال چیز ہے ۔ ۔ ۔ ایک لمھے میں کہاں سے کہاں لے جائے ۔ ۔ ۔
ہے آدمی بجائے خود اِک محشرِ خیال