اتوار، 13 مارچ، 2016

تباہی کا طوفان

5 comments

شیر خان میرا پڑوسی تھا،میں نے ہوش سنبھالا تو اسے اسی مکان میں رہائش پذیر دیکھا اس کی بیوی ماسی نوراں اس کی ماموں زاد بھی تھی، "شیرا" سارے محلے کے بچوں کا "ماما" اور نوراں سب کی "ماسی" ۔ شیر خان پیشے کے لحاظ سے مستری تھا محنت مزدوری کرتا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا،رب نے اسے چار خوبصورت بیٹیوں سے نوازا تھا،بیٹے کی خواہش اسے پاگل بنائے رکھتی، بیٹے کیلئے ایک اور شادی کی خواہش گھر میں جھگڑوں کو جنم دیتی اکثر "برتن ٹکراتے"  اور پھر خاموشی چھا جاتی کچھ دن گزرتے کہ یہ "کھٹ مکھٹ" پھر سے شروع ہو جاتی، روز روز کی "چخ بخ" بڑھتی چلی گئی اوراب اکثر ایسا ہوتا کہ بات "برتنوں کے ٹکرانے" سے "مار کٹائی" کی صورت اختیار کر جاتی، شیر خان غریب تو تھا ہی "مسکین" بھی تھا بیوی کی نسبت کمزور لیکن تھا ایک محبت کرنے والا آدمی، جتنی اسے بیٹے کی چاہ تھی اس سے کہیں بڑھ کے اپنی بیوی اور بیٹیوں سے محبت کرتا اور اسی محبت میں اس نے اپنا مکان بھی بیوی کے نام کر دیا تھا لیکن مقابلے میں یہ ماں بیٹیاں اس کی بیٹے کی خواہش پر اس سے خوب جھگڑا کرتیں اور پھر ایک دن ماں بیٹیوں نے مل کر اس کی پٹائی کر دی،اگر بات پٹائی تک ہی رہتی تو اور بات تھی ماں بیٹیاں تھانے جا پہنچیں اور یوں زندگی میں پہلی بار شیرخان کو رات حوالات میں گزارنا پڑی صبح محلے کے چند بزرگوں کی مدد سے معاملہ رفع دفع ہو گیا، ماسی نوراں بہت خوش خوش ہر کسی کو بتاتی پھِرتی کہ ایک رات تھانے گزار کے آیا ہے ناں تو اب بالکل "سیدھا" ہو گیا ہے ایک ہفتہ بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ معلوم ہوا "ماما شیرا" نے ماسی نوراں کو طلاق دے دی اور نئی شادی کر لی،شیرا بیٹے کا باپ بن پایا یا نہیں یہ تو معلوم نہ ہو پایا لیکن یہ پانچوں ماں بیٹیاں مرد کے سائے سے محروم ہو گئیں اب گھر کا بوجھ بھی  انہیں خود ہی اٹھانا تھا نوراں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی اور اس کی "پھول سی بچیاں" لوگوں کے برتن مانجھتیں، وقت پر لگا کے اڑتا رہا بچیاں اہلِ محلہ کی کوششوں سے پیا دیس سدھار گئیں اور ماسی نوراں منوں مٹی تلے جا سوئی مامے شیرے اور ماسی نوراں کے نام وقت کے گرداب میں کہیں گم ہو گئے لیکن پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے حقوق خواتین نامی بل نے مجھے پھر سے "ماسی اور ماما" یاد دلا دئے
خواتین کے حقوق کے نام پر بل منظور کرنے والوں کو شاید معلوم نہیں کہ مرد کو پولیس کے ذریعے گھر سے نکال دیا جائے تو واپسی کے سارے رستے بند ہو جاتے ہیں ، مرد کے پاس وہ تارپیڈو ہے جس سے گھر کی کشتی تباہی سے دوچار کی جاسکتی ہے ،کوئی جج مرد کو طلاق دینے سے نہیں روک سکتا ، عورت تو غصے میں بس روٹھ سکتی ہے روٹھ کر میکے نکل جاتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی اور شوہر اس کو منا کر لے آتا ہے ، مگر شوہر یہ ذلت برداشت نہیں کرے گا طلاق دے کر نکلے گا اور کوئی قانون مرد کو طلاق دینے سے نہیں روک سکے گا ،ان قانون سازوں نے عورت سے ہمدردی نہیں کی بلکہ اسے اجاڑنے کی بنیاد رکھ دی ہے، اس قانون سے معاشرے میں طلاق اور گھروں کے اجڑنے کا وہ طوفان اٹھے گا کہ کہیں بھی کسی کو پناہ نہیں ملے گی اور جب طوفان آتے ہیں ناں تو اونچے محلوں میں بسنے والے بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ پاتے

5 comments:

  • 13 مارچ، 2016 کو 6:24 PM

    ایسا ہی ہے ، معلوم نہیں کس احمق نے یہ بل بنایا اور کس جاہل نے اسے اسمبلی میں پیش کیا ؟

  • 13 مارچ، 2016 کو 6:45 PM
    گمنام :

    یہ عورت کو محفوظ کرنے کا بل بلکہ عورت کا گھر اجاڑنے کا پورا پکا پروگرام ہے۔
    ہر عورت نُوراں کی طرح خاموشی سے بچیاں پالتے منوں من مٹی میں نہیں جا سوتی۔ بلکہ گھر اجڑنے کے بعد مردو زن آزاد ہوجائیں تو عفت و حیا کہیں دور جا منہ چھپاتی ہے۔
    اور یہی اس منصوبے کا نتیجہ ہے اور مغرب ذدہ دین بیزار کچھ خواتین کو این جی اوز کے نام پہ یہ ٹارگٹ دیے ایک زمانہ ہونے کو آیا ہے۔ اور اب ان کی کوششیں رنگ لارہی ہیں۔
    غیرت ہوتی تو ارباب اختیار ایسی این جی اوز کا پتہ پوچھتے۔ تحقیق کرتے۔ قدغن لگاتے۔ پابندی عائد کرتے۔ مگر یہاں تو ارباب اختیار ہی ان ایج جی اوز اور مغرب ذدہ لوگوں کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔
    خواتین کے حقوق تو پہلے سے ہی بہت ہیں۔ اسلام اور پاکستانی قوانین نے بھی وضح کر رکھے ہیں۔ انھیں بحال کریں۔ مگر کیسے؟ تعیلم و تربیت سے۔ مناسب روزگار سے۔ خاندان کو معاشی مسائل سے بچا کر طاور یہ تعلیم و تربیت اور روزگار اور معاشی مسائل کون حل کرے گا۔ درست کرے گا؟ یہ کس کے فرائض میں آتا ہے؟
    حکومت کے فرائض اور ذمہ داری میں آتا ہے۔ اور حکومتیں سدا کی نالائقی کے پیش نظر توپوں سے مکھیاں مارنے کی قائل۔
    کیا اس حقوق نسواں نامی بل سے خواتین کو حقوق مل جائیں گے؟
    نہیں۔ مگر گھر اور خاندان اور گھر ضرور برباد ہونگے

    جاوید گوندل۔ بارسیلونا، اسپین۔

  • 13 مارچ، 2016 کو 7:39 PM

    بہت اعلیٰ تحریر ہے. مرد کی ان معاملات میں برداشت کم ہے.دجال کے پاکستانی غلام کم فہم ہیں. یورپ اور امریکہ کے مردوں کو اس جگہ لے جانے میں کئی عشرے لگے ہیں. کافی برین واشنگ اور سوشل انجینحرنگ کیگئی ہے یہ احمق حکمران ایک جست میں وہ مقاصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں.

  • 13 مارچ، 2016 کو 11:42 PM

    یہ مغرب کی دین ہے، ادھر کی نقل کررہے ہیں مگر نتیجہ یہ ہے کہ ادھر لوگ بیسیوں برس گزار کر بھی شادی نہیں کرتے کہ اسکے بعد بہت پنگے ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں بھی یہی ہوجائے گا، گرل فرینڈ یا پھر معشوق یا پھر منگیتر، نہ شادی ہوگی نہ تھانے کچہری کی توبت آوے گی۔

  • 14 مارچ، 2016 کو 6:43 PM

    متفق ۔۔ گو پاکستانی خواتین کی اکثریت اپنے مرد رشتہ داروں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے پھر بھی یہ بل ان کے حالات بہتر کرنے کے بجائے بگاڑے گا زیادہ ۔۔ جس طبقے کی خواتین اسکی حمایت کر رہی ہیں ان کے لیے تو یہ کار آمد ہوسکتا ہے لیکن خواتین کی اکثریت جو دیہات میں رہتی ہے ان کے لیے یہ مزید تباہی و بربادی کا باعث ہوگا ۔۔ ایک موثربرادری/ پنچائیت سپورٹ سسٹم کے بغیر خاندانوں کی تباہی اور لاوارث خواتین کی تعداد میں اضافے کا باعث ہوگا ۔۔ تھانہ پولس اور مقدمات پہلا نہیں آخری آپشن ہونا چاہیے عائلی جھگڑوں میں

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

................................................................................

................................................................................
.