ہفتہ، 30 اگست، 2014

حکمتِ ربانی

3 comments

ٹھنڈی آہیں بھرتی ، ہائی بلڈ پریشر اور بے خوابی کا شکار یہ مریضہ آج جب دوسری بار میرے کلینک میں آئی تو پہلی بار کی نسبت قدرے بہتر تھی،اور آج اتفاق سے جس وقت وہ آئی میرے کلینک میں اس وقت کوئی مریض بھی نہ تھا،اس کا بلڈ پریشر بھی پہلے سے کم تھا او رکچھ وقت کیلئے اب نیند بھی آجاتی تھی اس کے ساتھ آنے والی اس کی بیٹی علاج سے مطمئن تھی۔آج میں نے اس کے مرض کی تہ تک پہنچنے کی ٹھان لی ،میرے اس سوال پر کہ باجی یہ تکلیف شروع کیسے ہوئی وہ خاتون پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور ایک عجیب بات کہی کہ میں نے خدا سے مقابلہ کیا ناں ،سو مجھے اس کی سزا مل رہی ہے،ڈاکٹر صاحب دعا اکیجئے میرا مولا مجھے معاف کر دے میں نے اس کو کھل کر رونے دیااور اس کیلئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس منگوایا،پانی پی چکنے کے بعد کچھ پرسکون ہوئی تو میں نے اس سے سوال کیاکہ آخر آپ نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کے مدمقابل پاتی ہیں ۔اس نے ایک گہرا سانس لیا کچھ دیر تک سوچتی رہی اور پھر سر اٹھا کر یوں مخاطب ہوئی




ڈاکٹر صاحب میری شادی کو 10برس بیت چکے تھے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا گھر میں ہر طرح کی آسائشیں موجود تھیں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کی وجہ سے ہر وقت گھر میں رونق رہتی، لیکن میں تھی کے بیٹے کی خواہش میں پاگل ہوئی جاتی تھی لیکن جب ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی توبیٹے کی خواہش مزید بڑھ جاتی، میرا خاوند اس حال میں بھی خوش تھا لیکن میں نے اپنا بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کسی اور کا بیٹا گود لینے کا فیصلہ کر لیا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک طلاق یافتہ خاتون شادی ہو کر ہمارے محلّے میں آگئی جس کا پہلی شادی سے ایک نومولود بچہ تھاجسے دوسرے خاوند نے پرورش کرنے سے انکار کر دیا جب میں نے یہ سنا تو اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے اس کے ہاں جا پہنچی اس خاتون کی منّت سماجت کی کہ وہ بچہ مجھے دے دو میں اسے اپنا بیٹا سمجھ کے پالوں گی،میری باتیں سن کر تو گویا اس خاتون کیلئے بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداقخوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہااور اپنا بچہ میرے حوالے کرنے پر تیّار ہوگئی۔ میں نے اس سے بچہ لیا اور خوش خوش اپنے گھر کو لوٹ آئی،اب وہ بچہ میری آنکھوں کا تارا تھا میں اس کے لاڈ اٹھاتے نہ تھکتی،بیٹیوں کو بھی گلہ رہنے لگا کہ آپ اب ہمیں کم پیار کرتی ہیں لیکن میں جو بچہ مل جانے پرخوشی سے اتراتی پھرتی تھی مجھے کس کی پرواہ تھی ۔وہ بڑا ہوا تو اسے اچھے سکول میں داخل کروایا اس کی ہر خواہش پوری کی وقت تیزی سے گزرتا رہاتاآنکہ اس نے میٹرک کر لیامیں نے بہت کوشش کی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے لیکن اس نے کہا کہ وہ اپنے باپ کے کاروبار میں اس کا ہاتھ بٹائے گا میں خوش تھی کہ بڑھاپے میں میرے خاوند کو سہارا مل گیا۔لیکن ابھی میری اصل آزمائش باقی تھی میرے خاوند نے اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئیکاروبار اس کے نام کردیا اور اسے ایک گاڑی بھی خرید دے تاکہ کاروباری سلسلے میں دوسرے شہر جانے میں اسے مشکل نہ پیش آئے۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے اس بیٹے کا اٹھنا بیٹھنا غلط سوسائٹی میں ہو گیا ہمیں معلوم ہوا تو سمجھانے کی کوشش پر گلے پڑنے کو آگیا،کچھ ہی عرصہ بعد اپنے محلّے ہی کے ایک دوست کو معمولی تلخ کلامی پر قتل کر ڈالا اور ہماری نیک نامی پر ایک اور دھبہ لگا کر آج کل جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے،ڈاکٹر صاحب میں نے خدا کا مقابلہ کیا اس نے مجھے بیٹا نہیں دیا ناں تو میں نے کسی اور کے بچے کو اپنا بیٹا بنا کر اس کی ولدیت کے خانے میں اپنے خاوند اور خود کو اس کی ماں کہلوا کر فخر کا اظہار کیا تو خدا نے مجھے دنیا میں ایسی سزا دے دی کہ اب بیٹا کال کوٹھڑی میں سزا کا منتظر ہے محلّے میں سر اٹھا کے جینے کے قابل نہیں رہے اور بیٹے کی محبّت دل ہلائے دیتی ہے معلوم نہیں اس کا کیا بنے گااورانہیں سوچوں میں راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں
وہ خاتون دوا لینے کے بعد اپنے گھر لوٹ گئی لیکن مجھےقرآن مجید کی سورہ شورٰی کی ان  آیات  کی تفسیر سمجھا گئی گئی  جن میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
 لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا(سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 49 ،50)
اللہ فرماتے ہیں کہ میں زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہوں پیدا کرتا ہوں جو چیز چاہتا ہوں جس کو چاہتاہوں بیٹیاں عطا کرتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں بیٹے ۔ چاہوں تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دوں اور میں مالک ہوں چاہوں تو کچھ بھی نہ دوں ۔

منگل، 19 اگست، 2014

بچپن کی یادیں،سائیکل والا رنگیلااور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 comments

یہ90 کی دہائی کا تذکرہ ہے جب میں نے گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس دور میں گلی کے کسی ایک گھر میں ٹیلی ویژن ہوتاتھا جہاں شام کے وقت ہم جا کے ڈرامہ دیکھا کرتے اور جب"گلی ڈنڈا" اور "بنٹے کھیلنا" مشہور زمانہ کھیل تھے تو "پولکا آئس کریم" کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ اسی دور کی بات ہے سال چھ مہینے گزرتے تو ایک سائیکل والا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ  شہر میں وارد ہوتا سکول کے راستے میں بنے "ڈاک بنگلے" کے گراؤنڈ میں ڈیرہ لگاتا ایک دائرہ میں گھاس پھونس صاف کرتااور درمیان میں شامیانہ لگ جاتا اور ساتھ میں لاؤڈ سپیکر پر گانے بجنے لگ جاتے اس سائیکل سوار اور اس کے ساتھیوں کو لوگ "رنگیلا" کے نام سے پکارتے بس جی گراؤنڈ تیار ہونے کی دیر ہوتی رنگیلا صاحب اپنی سائیکل پر بیٹھتے اور سائیکل دائرے میں گھمانے لگ جاتے سپیکر پر اعلان شروع ہوجاتے کہ "رنگیلا ایک بار پھر آپ کے شہر میں" رنگیلا دن کے اوقات میں مختلف کرتب دکھاتا جو سکول ٹائم کے بعد ہماری واحد تفریح ہوتی، رنگیلا سائیکل پر رنگ برنگے کرتب دکھاتا،سائیکل پر ہی نہاتا، کپڑے بدلتا اور میوزک کی تال پر خود بھی جھومتا گاتا اور سائیکل کو بھی نچاتا پھرتا، اکٹھے ہونے والے لوگ اسے داد دیتے کوئی 2 اور کوئی ایک روپیہ اسے انعام دیتا،عام طور پر یہ کھیل دو سے تین دن جاری رہتا اور پھر مقامی انجمن تاجران کے کوئی "حاجی صاحب" یا پھر کوئی "نونی خان" ٹائپ مقامی کونسلر آتا اور سو پچاس روپے انعام میں دے کر اسے سائیکل سے اتارنے کی رسم ادا کر دیتا۔علاقے کا ایک سردار مقامی ایم پی اے تھا رنگیلے نے اعلان کیا کہ اب کی بار اس وقت تک سائیکل سے نہیں اترے گا جب تک "سردار صاحب" بنفسِ نفیس تشریف نہیں لاتے اور اسے انعام میں 5000 روپے دے کر سائیکل سے نہیں اتارتے وہ سائیکل چلاتا رہے گا اور بالکل بھی نیچے نہیں اترے گا، لوگوں کو معلوم تھا سردار صاحب جو کبھی الیکشن کے بعد نظر نہیں آتے "رنگیلے" کی رسمِ اترائی" ادا کرنے کب آئیں گے رنگیلے کی ضد سن کر اس سے پہلے آنے والے حاجی صاحب اور نونی خان بھی نہ آئے اور سردار صاحب نے تو آنا ہی نہ تھا۔ رنگیلے کا سائیکل چلا چلا کے برا حال تھا 72 گھنٹے گزر گئے تو کچھ لوگوں نے شہر کے مشہور چائے فروش "بشیرے" کو سو روپے دئیے اور اس نے جاکے رنگیلے کی"سائیکل اترائی"کی رسم ادا کر دی
گزشتہ چند روز سے ٹیلی ویژن سکرین دیکھتے دیکھتےرنگیلا بہت یاد آرہا ہے اورسوچ رہا ہوں دیکھوکب کوئی"بشیرا"جاتاہےاوران جھومتےگاتے "رنگیلوں" کو سائیکل سے اتارنے کی رسم ادا کرتا ہے۔

جمعرات، 7 اگست، 2014

سِکھوں کے گنے،طالب علم اور فیس بک کا لائک

1 comments
لوگوں کے سکھوں کے بارے میں لطیفے سن سن کر اور سکھوں کے بے وقوف ہونے کی باتیں کرتے دیکھ کر سکھ برادری سر جوڑ کے بیٹھی اور اس بات  پر سوچ بچار شروع ہوئی کہ کوئی ایسا کام یا کارنامہ سرانجام دیا جائے کہ لوگوں پر عقل مند ہونے کی دھاک بیٹھ جائے، برادری کے سرپنچوں نے طرح طرح کے مشورے دئیے، کافی بحث ومباحثہ ہوا اور طے یہ پایا کہ علاقے کے لوگوں کی بہتری کیلئے ایک سکول بنایا جائے جہاں بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست ہو مشورہ دینے والے کی خوب واہ واہ ہوئی اور اس سے پہلے کہ اجلاس برخواست ہوتا ایک "عقلمند سکھ" نے سوال کر ڈالا یہ سکول بنے گا آخر کہاں اور پھر یہ بات بھی طے ہوگئی کے علاقے کے ایک تگڑے "زمیندار سکھ" نے سکول کیلئے زمین دینے کا اعلان کر دیا ابھی اجلاس ختم ہوا ہی تھا اور سردارلوگ اپنے گھروں کو روانہ ہونے ہی کو تھے کہ ایک اور سرپنچ کے ذہن میں معلوم نہیں کیسے یہ بات آگئی کہ آخر زمین بھی مل ہی جائے گی لیکن سکول کی بلڈنگ بنانے کیلئے ایک اچھی خاصی رقم درکار ہو گی تو یہ بندوبست بھی کر کے ہی جایا جائے اور بالآخر سردار آپس میں سر جوڑے سکول کی تعمیر کیلئے فنڈ کے انتظامات کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے کہ درمیان میں ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا، گاؤں کے ایک بااثر سکھ نے دہائی دی کہ سردارو تم سکول تو بنا ہی لو گے لیکن دریا کے اس پار جو ہمارے مخالفین کا گاؤں ہے ناں ان کے بچے بھی اس سکول میں لازمی ایڈمشن لیں گے کیونکہ ہم سکول میں کسی کو بھی داخلہ لینے سے منع کرنے سے تو رہے اور اگر وہ یہاں سکول میں پڑھنے آئیں گے ناں تو تو واپسی پر ہمارے کماد کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے گنے ضرور توڑ کے لے جائیں گے اور اس طرح ہماری فصل کا تو ستیا ناس ہو جائے گا سرپنچوں کے سربراہ نے فیصلہ دیا کہ سکول بنانے سے پہلے اس گاؤں کے بچوں سے نمٹ لیا جائے جو ہماری فصلوں کے دشمن بن کر ان کی تباہی کا سامان کریں ان کی خوب ٹھکائی ہونی چاہئیے۔ تمام سکھ کرپانیں سجائےدریا پار کے گاؤں پر حملہ آور ہوئے اور بچوں کا مار مار کر بھرکس نکال دیا جو بچانے کو آئے تو ان کو بھی خوب پھینٹی لگائی عورتوں نے ہاتھ جوڑے کہ آخر بتاؤ تو سہی ہم سے کیا غلطی ہو گئی  تو سکھوں کے لیڈر نے ترنگ میں آکر کرپان لہرائی اور کہا
 " ہور چوپو گنے"

بس جی ہم بھی فیس بک پر ایک سٹیٹس کو لائک کر کے "گنے چوپنے" کا مزہ کیا لے بیٹھے کہ اب "سرداروں" سے ہماری چھترل ہو رہی ہے، اور یار لوگ ہمیں دیکھتے ہی کہتے ہیں "ہور چوپو گنے"
نوٹ:اس پوسٹ کو کسی خاص پسِ منظر میں ہرگزنہ لیاجائے،ایسا کرنے والا نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا
پنجابی سے اردو ترجمہ ہو چوپو (اور چوسو) ـــــــــــ گنے (گنڈیری)

بدھ، 25 جون، 2014

ماہِ مبارک

3 comments

اس کے قدموں کی چاپ دل کی دھڑکن کی طرح ٹھک ٹھک کرتی قریب سے قریب تر ہورہی ہے، وہ جو گزشتہ برس "دکھی" ہو کے چلا گیا تھا ایک بار پھر سے اپنی "رحمتوں" کے جام لڈھانے آرہا ہے،محبت سے پکارتے ہوئے، ایک آس لئے، اپنے بھرے دامن کے ساتھ ، بہت کچھ لٹانے کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دکھ تو اس بات کا ہے کہ وہ جنہیں بہت کچھ دینے کو آتا ہے وہ منہ لپیٹے پڑے رہتے ہیں اور وہ جو بہت کچھ لٹانے آتا ہےوہ سب کچھ لئے پھر سے لوٹ جاتا ہے، وہ جو ہر سال آتا ہےاس سال بھی قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہےآئیے اس کی دستک کی آواز کو سنیں، اس کی صدا پر لبیک کہیں،اس لئے کہ اگر ہم نے اب بھی اس کی آواز کونہ سنا اس کی پکار پر لبیک نہ کہا تو کون جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اگلے برس جب یہ ماہ مبارک آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں نہ پائے
زندگی کے کس قدر قیمتی لمحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی مبارک ساعتیں
جب ہر آن اسی کا دھیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بولنا اسی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب خاموشی بھی اسی کیلئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اضطراب میں تسکین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بے چینی میں چین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب بھوک اور پیاس بھی عبادت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب منہ سے اٹھنے والی بدبو مشک وعنبر سے بھی قیمتی ٹھہرے
ہاں ایسے ہی مبارک لمحات کہ سنبھلنے والے کیلئے سنبھالنے والاخود اللہ رب العزت ہو
لیکن
ایسے میں باعثِ افسوس ہے اس کیلئے جس کیلئے رمضان کا چاند کچھ بھی نہ لایا،جس کیلئے سورج کا طلوع وغروب روزانہ کی روٹین ہی رہی، جو اپنے آپ کو چرتے پھرتے جانوروں سے الگ نہ کر پایا،جو اپنے اور ان کے درمیان کوئی فرق،کوئی امتیاز نہ کر سکا، نہ جس کے دن بدلے نہ دل بدلا، اور ایسی رحمتوں کی موسلا دھار بارش میں بھی جو اپنے دامن کو بھر نہ سکا
یہ ہمارا طرزِ عمل ہے جو ہمارے اور ہماری بھلائی کے درمیان حائل ہے، یہ ہم ہی ہیں جو رحمتوں سے اپنا دامن بھر نہیں پاتے،یہ ہمارے اعمال ہیں جو ہمیں ڈبو دیتے ہیں،ہماری کشتیوں میں پڑنے والے شگاف کسی اورکی نہیں ہماری اپنی غلطی کے باعث ہیں،الہامی ہدایات کے فانوس کو خاطر میں نہ لانے پر منظر سے پسِ منظر تک بس حیرانی ہی حیرانی اور وجود سے لپٹی تنہائی ہی رہ جاتی ہے۔ اصل کامیابی ان لوگوں کیلئے ہی ہے جو ٹھٹک کر رک نہیں جاتے،اکڑ کر تن نہیں جاتے بلکہ سراج منیر کی طرف پلٹ آتے ہیں، ان کا نام کچھ بھی ہو وہ کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتے ہوں کامیابی انہیں کا مقدّر بنتی ہے
رمضان مبارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً مبارک مگر کس کیلئے
ذرا رکئے اور سوچئے ہمارا شمار کن لوگوں میں ہو رہا ہے

جمعرات، 19 جون، 2014

ایک سال بیت گیا

5 comments
دن ہفتوں ،مہینوں اور مہینوں کو سالوں میں ڈھلتے دیر ہی بھلا کتنی لگتی ہے،19 جون 2013 سے 19 جون 2014 میرے بلاگ کو ایک سال مکمل ہوا
ابھی کل ہی کی تو بات ہےدوسروں کو بلاگنگ کرتے ہر طرف بلاگنگ کا شور سنتے ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہ جائیں ،سو ہم نے بھی شغل ہی شغل میں بلاگ بنا ڈالا، بلاگ بناتے وقت یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ "گلے کا ڈھول" بھی بن جائے گا جسے "بجانا" بھی پڑے گا لیکن اب کیا کیا جائے جب "ڈھول" گلے میں لٹکا ہی لیا تو پھر شرمانا کیسا سو ہم بھی لگے رہے ڈھول بجتا رہا اور اس کی "تھاپ" پہ "بھنگڑا" ڈالنے والے امڈ امڈ کے ہماری حوصلہ افزائی کوآتے رہے۔ بھنگڑا ڈالنے والوں کو دیکھتے، دل خوشی کے مارے بلیوں اچھلتا اور ہم مست ہو کے ڈھول بجاتے چلے گئے۔
19 جون 2013 کو بلاگ بنایا 20 جون کو پہلی پوسٹ ڈالی اور پھر تو یہ سلسلہ چلتا ہی چلا گیا۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا، مطالعے کا شوق بڑھا، نئے دوست بنے ، عزت اور پہچان ملی۔
ایک سال میں ان سبھی 12583 افراد کا شکریہ جو میرے بلاگ پر تشریف لائے، ان 230محترم ہستیوں کیلئے سلامِ تشکر کہ جنہوں نے میری 38 بلاگ پوسٹس پر اپنے قیمتی کمنٹس کے ذریعے میری حوصلہ افزائی کی۔اسی دوراناردومنظر نامہنےایک بلاگر کی حیثیّت سے میرا انٹرویوشائع کیا جو بلاشبہ میرے لئے ایک اعزاز تھا۔
ایک سال پہلے بلاگ بناتے وقت یہ خیال دور دور تک بھی نہیں تھا کہ کبھی ایک سال بعد بلاگ کی سالگرہ کے حوالے سے کوئی تحریر لکھ رہا ہوں گا،ایک سال مکمل ہوا جو دل میں آیا لکھا پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی نے مزید لکھنے کا حوصلہ دیا اور آج جب ایک سال بعد یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو بلاشبہ یہ آپ کی محبّت ہی ہے جو میں اس قابل ہوا سو آپ سب کا شکریہ
 یہ "تحریر" آپ سب کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے اگلے برس بھی انشاءاللہ لکھنے اور پڑھنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا

................................................................................

................................................................................
.