بدھ، 7 اگست، 2013

یہی پیغامِ عید ہے

3 comments
عید الفطر کی مبارک ساعتیں لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہیں۔اللہ رب العزت بندوں کومزدوری دینے میں قطعی دیر نہیں لگاتے۔ ادھر ان کی ایک مہینے کی تربیت کے مراحل ختم ہوئے، ڈیوٹی پوری ہوئی اور اِدھر عید الفطر، انعام یایوں کہیے کہ مزدوری کی شکل میں ہمارے ذہن وفکر پر مسرتوں کا نغمہ گانے لگی۔یہ عید واقعتاً ان لوگوں کے لیے عید ہے جو رمضان کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوئے۔عیدکا دن ان روزہ داروں کے لیے خوش خبری کا دن ہے جنہوں نے اس ماہ مبارک میں عبادت کی، اپنے رب کو راضی کیا اور اس کے بدلے میں اس کی رضا بھی پائی اور اس ماہ کی برکات و فضائل سے فیض یاب ہوئے۔ انہوں نے اپنی عبادات اور روزوں سے اللہ رب العزت کی رحمت و مغفرت کو اپنے لیے برحق بنایا اور اپنے لیے ”جہنم سے خلاصی“ کا ایک بہت عمدہ پروانہ حاصل کیا۔ رسول کریمﷺ کا ارشادہے:”جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلةالجائزہ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رحمن و رحیم اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جسے جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں:’اے محمدﷺ کی امت! اس کریم رب کی (بارگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور معاف فرمانے والا ہے۔‘
پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے:’کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں:’ہمارے معبود اور ہمارے مالک!اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔‘
اس پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:’اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ رہوکہ میں نے انہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔‘
پھر وہ اپنے تمام بندوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت و جلال کی قسم! آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔ اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (انہیں چھپاتا رہوں گا) میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں ( اور کافروں) کے سامنے رسوا نہیں کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاﺅ، تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘
اسلام دین فطرت ہے اسکی یہی خوبی اسکو دوسرے مذاہب سے ممتاز کر تی ہے۔ اسلام سے پہلے عربوں کی زندگی میں تہواروں کو اک خاص اہمیت حاصل تھی۔ مگر ان کی افادیت سوائے عیش و عشرت، دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نہ تھی۔ مگر اسلامی تہواروں نے نہ صرف عرب رسوم و رواج کی جگہ لے لی بلکہامّتکی تربیت پر ایسے نقوش چھوڑے کے ایثار و قر بانی انکی زندگیوں کا نمونہ بن گیا۔عید خوشیاں بانٹنے کا نام ہے ، آنسو پونچھنے کا نام ہے ۔اپنی خوشیوں میں ان لوگوں کو نہ بھول جائیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ہو سکتا ہے ساتھ والے گھر ، ساتھ والی گلی ، ساتھ والے محلے میں عید کسی کے لئے امتحان بن رہی ہو۔ہو سکتا ہے کوئی غریب ویران آنکھوں سے نئے کپڑوں کی فرمائش کرتے اپنے بچوں کو دیکھ رہا ہو،ہو سکتا ہے اس عید پہ کوئی سفید پوش اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی ناکام کوشش میں ہو،ہو سکتا ہے کہیں کوئی یتیم بچہ حسرت بھری نظروں سے اپنے چاروں طرف عید کے ہنگاموں کو دیکھ رہا ہو۔عید کے اس پر مسرّت موقع پر ان کو بھی یاد رکھئے ۔آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش کسی کے چہرے پر خوشیوں کی بہار بن سکتی ہے ۔
بس یہی پیغامِ عید ہے اور یہی حقیقی عید ہے






3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

................................................................................

................................................................................
.