بات ہی کچھ ایسی تھی کہ میں تو خوشی کے مارے ایسے اچھلاگویا کسی نے مجھے420وولٹ کا کرنٹ لگا دیا ہو۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹریشن پر 25000 روپے کے بعدموبائل کمپنی کی قرعہ اندازی میں 500000روپے کے انعام کی اوپر تلے خوشیاں ہی سنبھالے نہیں پا رہا تھا (ویسے یہ دونوں انعامات 500روپے کے کارڈز کے نمبر نوٹ کروانے کے باوجود ابھی تک مجھ تک نہیں پہنچے)کہUnique Foods کراچی کی طرف سے سالانہ لکّی ڈرا
میں 1300ccسوزوکی سوئفٹ کار کے انعام کے رجسٹرڈ لیٹرکی وصولی نے تو گویا ہم پر وارفتگی کو عالم طاری کر دیا ۔جو کوئی سنتا مبارکباد کو بھاگا چلا آتااور ہم تھے کہ خوشی خوشی سب کو مٹھائی کھلاتے چلے جاتے اور ساتھ میں ایک دو ٹکڑے برفی اور رس گلے خود بھی خوشی میں کھا لیتے خوشی کے ساتھ ساتھ برفی اور رس گلوں نے ہمارے وزن میں ہی نہیں بلکہ ہمارے اخراجات میں بھی اضافہ کر دیا تھاکہ آخر کو مبارکباد دینے آنے والوں کی کچھ نہ کچھ خدمت تو کرنا ہی پڑرہی تھی،کمپنی کے دئیے گئے ایڈریس کے فون نمبر پر رابطہ کرنے پر ہمیں مبارکباد دی گئی اور بتایا گیا کہ یا تو آپ گاڑی کی وصولی کیلئے خود کراچی تشریف لانا پڑے گا یا پھر گاڑی بذریعہ کارگو آپ کے ایڈریس پر ڈیلوّر کر دی جائے گی ہم نے دوسرے طریقے کو ترجیح دی کیونکہ خود کراچی جاتے تو بھی گاڑی لانا مسئلہ ہی ہوتا کمپنی کے جنرل منیجر صاحب نے ہمیں بتایا کہ گاڑی کے کارگو سروس کے اخراجات آپ کو ادا کرنے ہوں گے جو گاڑی کی بکنگ کے فوراً بعدآپ کو بذریعہ آن لائن ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کروانے ہوں گے ہمیں کارگو آفس سے متعلق انہوں نے تمام معلومات ارسال کردیں اور ہم نے مبلغ 10000روپے کرایے کی مد میں روانہ کر دئیے۔ کارگو آفس رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ گاڑی کو کراچی سے راولپنڈی پہنچنے کیلئے چار دن لگیں گے ۔ہم تصوّر ہی تصوّر میں اپنے آپ کو گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھتے اور اپنے پڑوسی "سردار صاحب" کی طرح گردن کو اکڑائے پھرتے کہ آخر کو ہم چار دن بعد گاڑی کے مالک بننے والے تھے کہ تیسرے دن کمپنی کی طرف سے ہمیں کال موصول ہوئی کہ جی چونکہ آپ کی طرف سے گاڑی پر لاگو ٹیکس ادا نہیں کیا گیااس لئے اسے پنجاب کے بارڈر پرٹیکس حکام نے روک رکھا ہے،ہمارے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ٹیکس کی رقم مبلغ 20000روپے بنتی ہے جو فوری طور پر ادا نہ کرنے کی صورت میں انعام کینسل ہونے کا خطرہ تھا سو ہم نے بہت مشکل سے دوستوں عزیزوں سے ادھار رقم اکٹھی کی اور بغیر کسی سے مشورہ کئے فوری طور پر کراچی روانہ کردی۔ فون پر تصدیق ہوگئی کہ آپ کی رقم ہم تک پہنچ گئی ہے اور دو دن بعد آپ اپنی گاڑی راولپنڈی کارگوآفس سے وصول فرما لیں۔ دو دن بعد جب ہم "سوٹڈ بوٹڈ" ہو کر راولپنڈی پہنچے تو کارگو آفس والوں نے بتایا کہ جو بکنگ کی رسید آپ کو دی گئی ہے وہ تو جعلی ہے اب کراچی UNIQUE FOODS والوں کو فون کرتے ہیں تو نمبر بند ملتا ہے اور جن سے رقم ادھار مانگ کر بھجوائی تھی وہ الگ سے تقاضا کر رہے ہیں۔ اور محلّے میں الگ سے عزّت افزائی ہو رہی ہے کہ
"جی ڈاکٹر صاحب کی گاڑی آرہی ہے کراچی سے"
لیکن مجھے حیرانگی تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ جس لکّی ڈرا میں میں نے حصّہ ہی نہیں لیا اس میں سے میری کار کیسے نکل آئی ؟؟؟
نوٹ: میرے ساتھ ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی البتہ گاڑی نکلنے کا خط ضرور ملا ہے بلکہ ہمارے شہر میں کئی لوگوں کو آیا ہے ،اس تحریر کے ذریعےصرف ان فراڈیوں کے طریقہ واردات کے بارے میں آپ تک کچھ معلومات پہنچانا مقصود تھیں)
ڈاکٹر صاحب ، ہن مکرو تے ناں ،
بس مٹھائی بھیج دیو سانوں وی
ملک صاحب ایسی امید نہ رکھیں۔۔ ان تلوں میں تیل نہیں ہے
Ahaa awla brO (Y)
شکر ہے آپ نے آخر میں وضاحت کر دی ورنہ میں تو اس مشکل میں آپ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے پر غور کر رہا تھا
جس روانی اور انداز سے آپ کہانی آگے بڑھا رہے تھے میں سوچ رہا تھا کہ سستے سے اخبار یا رسالے سے نقل کر رہے ہیں کیونکہ متذکرہ انعامات آپ کو ملنے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ جب گاڑی آپ نے پنجاب کی سرحد پر پھنسا دی تو میں آپ کی سادگی پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ آنے والی گاڑی پنجاب کی سرحد پر نہیں روکی جاتی ۔ یہ جگا ٹیکس لگانا صرف کراچی میٹروپولٹن کارپوریشن کا طرّہ امتیاز ہے ۔ وہ پنجاب کی طرف جانے والی ہر گاڑی سے ٹیکس یہ کہہ کر وصول کرتے ہیں کہ اگر ایک ماہ کے اندر گاڑی صوبہ سندھ سے نکل گئی تو پیسے واپس مل جائیں گے ۔ پھر مہینہ بھر کسی نہ کسی بہانے گاڑی کو کراچی سے ہی نکلنے نہیں دیتے
بہت خوب لکها یہ جهانسا دینے والے لوگ ایسا ہی کرتے ہیں .شکر یہ کہ آپ بچ گئے.
مختلف لکھا اور بہت پیارا لکھا۔ مٹھائی کیسے بھجوائیں گے مجھے؟ کوریئر یا بذریعہ کارگو؟
سلیم بھائی مٹھائی آپ کو بذریعہ کارگو بھجوائی جارہی ہے لیکن اس کا کرایہ آپ کو ہی ادا کرنا ہوگا :)
افتخار احمد بھوپال: لکھنے کے بعد میں اسے شائع کرنے کے بارے میں شش وپنج میں ہی تھا لیکن آپ جیسے سینئرز کی میرے بلاگ پر آمد میرا حوصلہ بڑھا دیتی ہے آپ کی آمد کا شکریہ آباد رہیں
آپ نے مجھے سچ مچ میں ڈرا ہی دیا۔۔۔۔دل دھک سے نیچے چلاگیا اور سوچا کل بی بی سی اردو پر ایک بھارتی غریب بندے کی روئےداد پڑھ رہا تھا جس میں انہیں بی بی سی لاٹری کا جانسا دیا جاتا ہے اور وہ اس جانسے میں آکر ایک ہزارمیل کا سفرکرکے بی بی سی دہلی دفتر پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔کہیں ایسا ہی آپ کے ساتھ بھی تو نہیں ہوگیا۔
خدا کا شکر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آپ داد کے مستحق ہیں کہ انتہائی ذہانت سے ایک ایسی کہانی کے ذریعے انتہائی خوبصورتی سے عوام کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے
فہیم بھائی! 2011 میں میں نے تین مرد اور ایک خاتون پر مشتمل ایک ایسا ہی گینگ لالہ موسی سے پکڑوایا تھا لیکن کچھ سیاست دان اور میڈیا پرسنز ان عزت دار نوسر بازوں کو دوسرے روز ہی انتہائی باعزت طریقے سے چھڑوا لے گیے۔ میری تحقیق کے مطابق ایسے گروہوں میں کسی نہ کسی موبائیل نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے ضرور شامل ہوتے ہیں۔
Hahahaha
بہت عمدہ تحریر، مزآ آیا پڑھ کر۔ آپ نے مزاح کے انداز میں ایک بہت اہم معاشرتی مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
جزاک اللہ ابو شامل
تشریف آوری اور حوصلہ افزائی کیلئے شکریہ
افسوس اس بار بهي ميري پاس کال کرني جتني پيسه نهين هين ورنه مين ضروربضرور کال کرتا ۔
شروغ مين ميني جس جس نمبر سي ايسي پيغامات موصول هوئي ان نمبرو والي موبائل کمپني کي لوکل آفس سي رابطه بهي کيا ليکن اپني پياري وطن مين کو شکايت درج کروانا بهي کتنا آسان هي يه آپ اور مين بخوبي واقف هين
یہ کہانی تو جنگ میں شایع ہوچکی ہے جناب
جنگ کا تو مجھے علم نہیں لیکن ایکسپریس نے میرے ہی نام سے شائع کی تھی ممکن ہے کسی اور نے بھی اس سے کچھ ملتا جلتا لکھا ہو