جمعرات، 27 فروری، 2014

پاکستان زندہ باد

5 comments
ہاکی کھیلنا زمانہ طالب علمی میں میرا جنون رہا ،ایک عجیب سی بات ہے کہ جہاں ہر کوئی کرکٹ کا دیوانہ ہے وہاں  مجھے کرکٹ سے کبھی دلچسپی نہیں رہی نہ کھیلنے سے نہ دیکھنے سے، لیکن یہ بات بھی عجب ہے کہ آج کے میرے بلاگ کی اس تحریر کی وجہ کرکٹ کا ایک میچ ہے
 بنگلہ دیش کے شہر"فتح اللہ" میں منعقد ہونے والے" ایشیا کپ" کے دوران سری لنکا اور پاکستان کے کرکٹ میچ کے دوران سٹیڈیم میں موجود بنگالی تماشائیوں کے گالوں اور ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اور ان کے ماتھوں پر لگی پاکستانی جھنڈوں کی پٹیوں کی تصویر انٹر نیٹ پر دیکھنے کے بعد میرا جی چاہتا ہے اپنے بنگالی بھائیوں کی اس محبت کو "سلیوٹ "کروں کہ جنہوں نے اس دعوے کو غلط ثابت کر دیا کہ"ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا" 
بنگالی بھائیوں نے یہ بات ثابت کردی کہ "نظریہ پاکستان ابھی زندہ ہے "
پاکستان زندہ باد کے نعرے، گالوں پرپاکستانی پرچم کی پینٹنگ اور ہاتھوں میں پاکستان کے جھنڈےدیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ میچ بنگلہ دیش میں نہیں کراچی یالاہور میں ہو رہا ہو
میں سلام کرتا ہوں ان شہداء کو جن کی محنتوں اور قربانیوں کے طفیل یہ نظریہ آج بھی زندہ ہےاور"دوستی بسوں" "دوستانہ تجارت اور"ثقافتی طائفوں"کے تبادلوں کے باوجود زندہ رہے گا۔
یہ ثمر ہے اس تحریک کا جس کی آبیاری عبدالمالک شہید سے عبدالقادر ملا شہید تک ہزاروں شہداء نے اپنے خونِ جگر سے کی
یہ پھل ہے اس تناور درخت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے وقت کی کڑی دھوپ بھی جھلسانے میں ناکام رہی
یہ روشنی ہے اس چراغ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے ظلم وستم کی آندھیاں بجھانے میں ناکام رہیں
لیکن مجھے دکھ ہو رہا ہے کہ جب اسی پاکستان کی محبت کے جرم میں عبدالقادر ملا کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا توپاکستان نے اس کے لیے آواز نہیں اٹھائی بلکہ اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا گیا
سلامتی ہو ان شہداء پر جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے لوحِ ایّام پر یہ تحریر ثبت کردی،
ہم کل بھی ایک تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم آج بھی ایک ہیں
جیو بنگلہ دیشی عوام 
تمہاری پاکستان سے محبت کے نعرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ"دوقومی نظریہ" آج بھی زندہ ہے 
حسینہ واجد ڈوب مرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ تم سروں کو تن سے جدا تو کر سکتی ہو انہیں جھکا نہیں سکتی

5 comments:

  • 27 فروری، 2014 کو 9:42 AM

    آپ نے بالکل درست لکھا ہے ۔ ماضی میں ایسا منظر میں نے بھی ٹی پر دیکھا ۔ مگر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ قابض انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے میرزا محمد سراج الدولہ اور فتح علی ٹیپو کا تعلق بنگال سے تھا ۔ تحریکِ پاکستان نے بنگال میں جنم لیا ۔ جنرل ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہ جناح ڈھاکہ سے جیتیں ۔ اُن کا وہاں پولنگ ایجنٹ مجیب الرحمٰن تھا ۔ 1965ء میں بھارت کی ہوائی فوج کے ساتھ ٹکرا کر ریکارڈ بنانے والا ایم ایم عالم بنگالی تھا

  • 27 فروری، 2014 کو 12:18 PM

    ایسا ہی ایک منظر 80 کی دہائی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہاکی میچ جو ڈھاکہ میں کھیلا گیا تھا، دیکھنے میں آیا جب بنگلہ دیشی پاکستان کی فتح پر دیوانہ وار ناچ رہے تھے۔
    علحیدگی اور آزادی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ علحیدگی کی تلخیاں کتنی ہی اور کیسی ہی کیوں نا ہو۔ساتھ حاصل کی گئی آزادی کے رومان کو دبا نہیں سکتیں۔

  • 27 فروری، 2014 کو 5:50 PM

    جیو بنگلہ دیشی عوام
    تمہاری پاکستان سے محبت کے نعرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ"دوقومی نظریہ" آج بھی زندہ ہے
    حسینہ واجد ڈوب مرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ تم سروں کو تن سے جدا تو کر سکتی ہو انہیں جھکا نہیں سکتی
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب لکھا ہے ، ڈاکٹر صاحب

  • 27 فروری، 2014 کو 11:06 PM

    ہم نے بھی یہ منظر کئی بار دیکھ رکھا ہے۔ بس کریں ہمارے نالائق حکمرانوں کی خودغرضیاں ہمیں ملنے نہیں دیتیں وگرنہ اگر ایک حصہ تھوڑی سی قربانی کا مظاہرہ کرے تو دونوں حصے پھر ایک ہو سکتے ہیں۔

  • 28 فروری، 2014 کو 11:55 AM
    جبران :

    یہ منظر کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، کیونکہ بنگلہ دیش ہی وہ اصلی پاکستان ہے جو انیس سو سینتالیس میں بنا تھا۔ اکہتر والے نے بس نام ہتھیا لیا۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

................................................................................

................................................................................
.