جمعہ، 3 جولائی، 2015

32 برس پہلے کا روزہ

17 comments
جی ہاں 32 سال پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب نہ امن وامان کی صورتِ حال خراب تھی نہ نفرتوں کے بیج پھوٹے تھے،جب ایک ہی پیڈسٹل فین گھر کے سبھی افراد کو ہوا دینے کو کافی تھا اور جب نہ فریزر تھا تو نہ کولڈ ڈرنکس کی بہتات روزہ تو بس لسی اور تنور کی روٹی کھا کے رکھ لیا جاتا اور شکر یا گڑ کا شربت ہی سافٹ ڈرنک ہوتا اور اگر کہیں کسی گھر میں تھوڑی خوشحالی تھی تو وہاں "روح افزاء" ہی سب کچھ تھا، روزے پکوڑوں کے بغیر بھی افطار ہو جاتے اور جب پکوڑوں کی خواہش میں ہمارا پہلا "مکمل روزہ" میڈیسن کے ہاتھوں افطاری سے محض چند لمحے قبل جان ہار گیا 
سحری میں تنور پر پکتی روٹیوں کی "پٹک پٹک"کےساتھ بھی جب آنکھ نہ کھلتی توپاس سے گزرتی باجی چپکے سے پانی کا چھینٹا ہم پر مار جاتی اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کوئی کزن ایک چٹکی ہی کاٹ جاتا اور ہم بھی اٹھ جاتے،جب سخت گرمی کے موسم میں ہم جیسے"چھوٹے بچوں" کو روزہ نہ رکھنے دیا جاتا توسبھی کزنز آپس میں طے کرکے سوتے کہ جس کی بھی آنکھ کھل جائے وہ دوسروں کو لازماً جگائے گا تاکہ سب مل کے روزہ رکھ سکیں کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا کہ کوئی کزن اٹھ جاتا اور دوسروں کو نہ جگاتا کہ اس کے روزے دوسروں سے زیادہ ہو جائیں لیکن ہم بھی کہاں پیچھے رہنے والے ہوتے اگلے دن ، دن میں چار کی بجائے پانچ رزے رکھ کے حساب برابر کردیتے
میرے بچپن کا رمضان بھی آج ہی کے رمضان کی طرح خوب "گرما گرم" تھا۔ سحری میں تنور کی روٹی اور ساتھ میں دہی ، لسی اور گھی شکر توافطاری میں روح افزاء ، شکر کا شربت اور فروٹ میں تربوز ہی اس دور کی سوغات تھی لیکن ایک "عجیب" بات یہ تھی کہ اس دور کا روزہ "پکوڑوں" کے بغیر بھی افطار ہو جاتا تھا۔ ابا جی تراویح پڑھنےجاتے تو ہم بھی گھر سےسر پر ٹوپی سجائے بڑے نمازیوں کی طرح تراویح پڑھنے کے بہانے ساتھ آجاتے ادھر تراویح کی جماعت کھڑی ہوتی ادھرہم دوستوں کی فوج گلی میں "چھپن چھپائی" کھیلنے کو نکل پڑتی اور جب معلوم ہوتا کہ تراویح اختتام کے قریب ہے تو ہم بھی چپکے سے جا کے "آخری صف" میں ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوجاتے۔ افطاری میں روزے داروں سے بڑھ کے اپنے سامنے شربت کا گلاس رکھنا تو معمول تھا ہی تربوز پر بھی خوب ہاتھ صاف کرتے اور رات سونے سے پہلے صرف اس لئے "واش روم" نہ جاتے کہ سحری کے وقت پیشاب کے دباؤ سے آنکھ کھل جائے گی اور پھر کل روزہ رکھیں گے۔
وہ ایسا ہی گرمی کا اک دن تھا جب میں نے ضد کرکے پورا روزہ رکھنے کی ٹھان لی دوپہر بارہ بجے تک تو کام ٹھیک ہی چلتا رہا لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی عصر کے قریب میں نے ضد شروع کی کی افطاری میں میں تو "پکوڑے" بھی کھاؤں گا۔ ابا جان سے "دوروپے" لے کے جو پکوڑوں کی ریڑھی کے پاس پہنچا تو سر ہلکا سا چکرایا فوراً واپسی کی راہ لی لیکن ابھی "کلینک" سے چند قدم دور ہی تھا کی زور سے لڑکھڑایا ابا جان جو میری واپسی کے منتظر تھے کہ میں لوٹوں تو گھر جایا جائے فوراً مجھے تھامنے کو آگے بڑھے لیکن میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا چکا تھا ، میڈیسن کے ہاتھوں افطاری سے چند لمحے پہلے میرا "پہلا روزہ" دم توڑ گیا
رمضان کی سحری اور افطاری کے ساتھ وابستہ حسین یادیں جہاں زندگی کا خوبصورت سرمایہ ہیں وہیں ہر سال آنے والا "رمضان" ایک مہربان "ہستی" کی یادوں کو بھی تازہ کر جاتا ہے ایسے ہی ایک "رمضان" میں جب میں چوتھی کلاس کا طالب علم تھا 1983 کے 9 رمضان المبارک میں میری "ماں" اس دنیا سے رخصت ہو گئیں زندگی کے گزرتے لمحوں میں دکھ اور تکلیف کی بجائے سکھ اور چین کے لمحے ہمیشہ ان کی یادوں کو تازہ کر دیتے ہیں۔
میں شکر گزار ہوں محترمہ کوثر بیگ صاحبہ کا جن کی پہلی"رمضان تحریر"نے بچپن کےرمضان کو ایک تحریری چین(Chain) بنا دیا
خصوصی شکریہ محترم رمضان رفیق صاحب کا جنہوں نے مجھے خصوصی طور پر ٹیگ کیا اور یہ تحریر ضبطِ قلم میں آسکی
اختتام پر میں بھی کچھ لوگوں کو ٹیگ کرتا چلوں تاکہ کچھ اور خوبصورت یادوں سے ہم لطف اندوز ہو سکیں
محترم محمد سلیم ، نورین تبسّم ، اسرٰی غوری ، ایم بلال ایم ، غلام اصغر ساجد ، وجدان عالم اور محترم مصطفٰی ملک صاحب کی"رمضانی" تحریروں کا انتظار رہے گا

17 comments:

  • 3 جولائی، 2015 کو 11:43 AM

    بلکل جی تب روزہ پکوڑوں کے بغیر بھی کھل جاتا تھا۔
    اچھے محبت کے وقت

  • 3 جولائی، 2015 کو 3:02 PM

    آپ کے روزوں کی طرح ہمارے بھی بچپن کے روزے ایسے ہی تھے۔ صبح پراٹھے پر گھی اور شکر کے ملاپ سے میٹھی روٹی اب بھی یاد آتی ہے۔ شام کو شکنجوی یا ستو گرمیوں میں پینے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ بعض اوقات تو گرمی کی پیاس کی وجہ سے مشروب اتنا زیادہ پی لیا جاتا کہ اٹھنے کی ہمت ہی جواب دے جاتی۔

  • 3 جولائی، 2015 کو 5:19 PM

    جب ایک ہی پیڈسٹل فین گھر کے سبھی افراد کو ہوا دینے کو کافی تھا۔۔۔۔۔۔واہ کیا خواب لکھا آپ نے۔۔۔۔۔ہر لکھنے والا اس موضوع کو اپنے انداز سے لکھ رہا ہے۔۔اور کیا خوب ہے۔۔۔۔۔بہت شکریہ آپ نے ہمارے کہے کی لاج رکھی۔۔۔

  • 3 جولائی، 2015 کو 11:41 PM

    بہت اعلیٰ تحریر۔۔۔ پڑھ کر لطف اٹھایا

  • 3 جولائی، 2015 کو 11:42 PM

    بہت خوب لکھا بھائی کتنی سچائی بھر ی ہیں ان رمضان کی تحاریر ۔۔رمضان میں میرے بھی کچھ دکھ بھری یادیں ہیں زندہ رہی تو کبھی وہ بھی ضبطِ قلم کرونگی ۔انشاءاللہ

    شعیب صفدر بھائی نے یہ شروعات کی انہوں نے مجھے ٹیگ اور دوسرے چار بلاگرز کو ٹیگ کیا ۔۔اور کیا ہی اچھا سلسلہ چل نکلا ہے ۔بچپن کی یادیں جیسے سب کی سوئی ہوئی تھی ایک آواز سے وہ چاگ گئی ہیں ۔

    آپ کا پیچھے میڈسن جب سے کررہا ہے ؟اسیلئے آپ نے بھی اسے پکڑ لیا اپنے پیشہ کی صورت میں ۔ہاہاہاہا

  • 5 جولائی، 2015 کو 11:33 AM

    ماشاءاللہ آپ تو خالص دور کے ہیں جب روح افزا اور دیگر چیزیں میں ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ روزے کی لگن کا پڑھ کر خوشی ہوئی، اور افسوس بھی ہوا کہ روزہ کچھ وقت پہلے ہی کھولنا پڑا۔ بہرحال، مجھے پوری امید ہے کہ آپ کی محنت بارگاہ رب العزت میں ضرور مقبول ہوئی ہوگی۔

  • 5 جولائی، 2015 کو 11:50 AM

    سب سے پہلے تو اس عزت افزائی کے لیے دل سے شکر گزار کہ آپ نے بڑے مان سے مجھے کسی قابل جانا۔ اس سے پہلے پیاری دوست کوثر بیگ نے ان باکس میں تحریر لکھنے کے لیے درخواست کی تھی اور میں حسب معمول گڑبڑا گئی۔۔۔۔ کچھ گھر کی جائز مصروفیت کا بہانہ اور کچھ اپنی ناجائز نا اہلیت کا خوف ۔ لیکن جیسے جیسے یکے بعد دیگرے سب کی تحاریر پڑھنا شروع کیں پھر آپ کا ٹیگ دیکھا تو اسی لمحے بس جتنا وقت تھا لکھتی چلی گئی۔ ہم سب ایک دوسرے سے بات ہی تو کر رہے ہیں یا پھر ایک خود کلامی کی کیفیت ہے جو بھی ہے لکھنا اور پڑھنا ۔۔۔اور سب کی خوشیاں اور دکھ سننا اور محسوس کرنا بہت اچھا لگ رہا ہے ۔

  • 5 جولائی، 2015 کو 12:09 PM

    ڈاکٹر راجہ افتخار،رمضان رفیق،نجیب عالم،کوثر بیگ، محمد اسد اسلم اور محترمہ بہن نورین تبسّم آپ کی آمد اور محبتوں کا بہت بہت شکریہ

  • 5 جولائی، 2015 کو 12:10 PM

    میرا پاکستان آپ کا خصوصی شکریہ کہ آپ میرے بلاگ پر تشریف لائے اسی بہانے میں نے بھی آپ کا "چھتیس برس پہلے کے روزے" پڑھ ڈالا

  • 5 جولائی، 2015 کو 1:24 PM

    پڑھ کر لُطف آگیا - بڑی بے ساختہ تحریر بچے کی مسکراہٹ سی جس کی آخری سطریں اُداس بھی کرگئیں
    کہتے بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں لیکن مجھے لگتا مائیں بھی سانجھی ہوتی ہیں اور ان کے دُکھ بھی

  • 6 جولائی، 2015 کو 5:47 AM

    بہت خوب تحریر.
    گرمی کے روزے کافی مشکل ہوتے ہیں کم عمری میں.

  • 6 جولائی، 2015 کو 10:10 AM

    بہت خوبصورت تحریر۔ مجھے بھی پکوڑے کچھ زیادہ اچھے نہیں لگتے اور نہ ہی کبھی ان کی خواہش کی۔ میرے تو تمام روزے بغیر پکوڑوں کے ہی افطار ہوتے ہیں۔ آپ کی اماں جی کی یادیں آپ کی زندگی کا سرمایہ ہیں۔ اللہ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔

  • 6 جولائی، 2015 کو 12:42 PM

    مرزا زبیر،شعیب صفدر اور نعیم خان آپ کی آمد کا شکریہ
    نعیم بھائی دعاؤں کیلئے شکریہ جزاک اللہ خیر

  • 6 جولائی، 2015 کو 8:17 PM

    ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت یادیں آپکی تحریر پڑھ کر ایسا گا جیسے بس آپ کا اور ہمارا بچپن دوچار برس آگے پیچھے ہی دوڑ رہا تھا کہ ہم نے بھی اپنا پہلا روزہ سن 86 کے سخت گرم موسم میں ہی رکھا تھا جب بچپن معصوم اور سادہ ہوا کرتا تھا . بہت خوب یادیں

  • 9 جولائی، 2015 کو 10:38 AM

    آپ کا بلاگ پڑھ تو پہلے لیا تھا مگر تبصرے کی مہلت نہ مل سکی تھی۔ ۔بہت اچھی طرح لکھا ہے۔ماشا ئ اللہ ! رمضان کی یادوں میں ماں کی جدائی کا غم شامل ہو تو وہ کس قدردردسے بھراہوگا تصور مشکل نہیں ! مگر ہر غم میرے محمد کے غم کے آ گے ہیچ ہےکہ انہوں نے ماں کی جدائی کس نوعمری اور عالم تنہائی میںسہا تھا۔ اللہ آپ کوان کی ہمراہی نصیب فرمائے

  • 9 جولائی، 2015 کو 11:35 AM

    شکریہ بہن اسرٰی غوری اور فرحت طاہر
    اللہ تعالٰی آپ کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے آمین

  • 15 جولائی، 2015 کو 9:42 AM
    گمنام :

    بہت خوبصورت تحریر ۔۔۔۔۔ تنور میں لگتی روٹیوں کی آواز۔۔۔۔ اور باجی کی پیار بھری شرارت۔۔۔۔
    پکوڑوں کے بغیر واقعی تب افطاری ہوجاتی ھی ۔۔۔ پر اب یہ لازمی جزو ہیں ۔۔۔۔ اسی لئے میں پکوڑوں کا اہتمام کرتی ہوں کہ کیا پتہ ۔۔۔ زمانے کے ارتقا کے ہاتھوں اگلی جنریشن پکوڑوں کو متروک کردے ۔۔۔
    اللہ سب کے رخصت ہوجانے والوں پہ اپنی رحمتیں نازل فرمائے
    سدا خوش رہیں

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

................................................................................

................................................................................
.