جمعرات، 6 مارچ، 2014

آپاجی

13 comments
چہرے پر وہی 30 سال پہلے جیسا وقار اور سنجیدگی بولتی تھیں تو بس دعائیں ہی دعائیں 30 سالوں میں فرق پڑا تو بس اتنا کہ اب وہ پہلے کا سا دم خم نہ تھا،ان30سالوں میں آج میں ان سے دوسری بار مل رہا تھا آٹھ نو سال پہلے راہ چلتے بس ان سے سلام دعا ہی ہو سکی تھی اور آج جب میں نے فون پر انہیں بتایا کہ میں آپ کو ملنے آرہا ہوں تو وہ کھل اٹھیں میں اپنی اہلیہ،ہمشیرہ اور تینوں بچوں کے ہمراہ ان سے ملنے ،ان سے کچھ باتیں کرنے ان کی دعائیں لینے جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کی خوشی دیدنی تھی، دل کی تکلیف، کمر اور ٹانگوں میں شدید درد کے باوجود میرے بالکل سامنے بیٹھی ہوئی تھیں اور میں چشمِ تصوّر میں 30 سال پیچھے جا پہنچا تھا ٹوٹے پھوٹے دروازوں اور کھڑکیوں والی ایک عمارت اور کلاس ٹیچروں کیلئے موجود کرسی کا ایک بازو بھی استبدادِ زمانہ کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہو چکا ٹاٹ کی پرانی چٹائیوں پر بیٹھے ہوئیےچند طلبہ وطالبات اور انہیں پڑھانے میں مشغول سرخ وسفید اور باوقار چہرے والی "آپا" "جہاں آراء" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 وہ ہستی کہ جس نے مجھے قلم پکڑ کر لکھنا سکھایا میری پرائمری کلاسوں کی میری ٹیچر جنہیں اس دور میں سبھی "آپا جی" ہی کہا کرتے تھے۔ "آپا جی" نہ صرف اپنے شاگردوں کی "آپا جی" تھیں بلکہ سکول میں اپنے بچوں کو داخل کروانے آنے والی سبھی خواتین بھی انہیں "آپا جی" ہی کہ کر پکارتی تھیں، ہر طالب علم ان کیلئے خاص ہوتا، ہر ایک سے اپنے بچوں کی طرح پیار، کلاس ہی میں ان کی قریبی عزیزہ بھی موجود ہیں لیکن ان کے تو سارے ہی بچے ان کے اپنے ہیں،کمال محبّت اور جانفشانی سےتعلیم کے موتی بکھیرتی اور طلبہ کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرتی یہ ہستی آج بھی اسی طرح "سراپا محبّت" تھی۔ میرے بچوں کو باری بای پیار کیا میری ہمشیرہ اور اہلیہ کو کمال محبّت سے گلے لگا کر خوش آمدید کہا، طبیعت کی خرابی کے باوجود ہر ایک سے اس کی مصروفیات جانتی رہیں، میں تھا کہ ان کے سامنے چپ چاپ بیٹھا "اپنا آپ" تلاشتا رہا،ہم کیا ہوتے ہیں اور ہمارے اتالیق ہمیں کیا بنا دیتے ہیں، آج میں جس مقام پر کھڑا ہوں بلاشبہ اللہ رب العزت کے بے بہا احسانات ، والدین کی دعاؤں اور ایسی ہی پرخلوص ہستیوں کی محنتوں اور محبتوں کی بدولت ہی یہ سب کچھ ممکن ہو ہایا۔
اللہ تعالٰی ان لوگوں کو شادوآباد رکھے تاکہ علم کی شمعیں یونہی فروزاں رہیں، محبّتیں قرض ہوتی ہیں لیکن کچھ قرض ایسے ہوتے ہیں جو چکائے نہیں جا سکتے۔

13 comments:

  • 6 مارچ، 2014 کو 5:31 PM

    پہلے زمانے میں چهوٹے چهوٹے مدرسہ سے بڑے بڑے لوگ تیار ہوا کرتے تهے اور اب بڑے بڑے اسکولوں سے پڑهے لکهے جاہل نکلتے ہیں .
    بہت اچهی یادیں شیئر کئے ہیں .شکریہ

  • 6 مارچ، 2014 کو 9:14 PM

    محترم آپ نے پوسٹ کو بہت مختصر رکھا ، اگر کچھ مزید لکھتے تو اور بھی مزہ آتا

  • 7 مارچ، 2014 کو 2:51 AM

    یہ استاد کی ہی ہمت ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے اور خود وہیں کا وہیں۔ ہاں جن لوگوں نے مال بنانا سیکھ لیا وہ استاد ترقی کر گئے۔ استاد کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے شاگردوں کو کامیاب و کامران دیکھتا ہے۔

  • 7 مارچ، 2014 کو 7:21 PM

    کوثر بیگ،ریاض شاہد اور میرا پاکستان آپ کی آمد کا شکریہ،
    میری آپا جی بلاشبہ ایسی ہستی ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے کوشش کروں گا اگلی کسی قسط میں ان یادوں کو احاطہ تحریر میں لاسکوں جو زندگی کا حسین سرمایہ ہیں

  • 7 مارچ، 2014 کو 9:52 PM
    Faseeh :

    اسلم بھائی بہت اچھے انداز میں اپنی استاد محترم کے بارے میں بتایا ہے اور میرا عقیدہ ہے جو اپنے اساتذہ کا دل سے احترام کرتا ہے تو اللہ پاک اسے کبھی ناکام نہیں فرماتے

  • 7 مارچ، 2014 کو 11:34 PM

    اللہ پاک انہیں عمر دراز عطا فرمائیں ۔ آمین

  • 8 مارچ، 2014 کو 7:02 PM
    ‏ Faseeh :


    اسلم بھائی بہت اچھے انداز میں اپنی استاد محترم کے بارے میں بتایا ہے اور میرا عقیدہ ہے جو اپنے اساتذہ کا دل سے احترام کرتا ہے تو اللہ پاک اسے کبھی ناکام نہیں فرماتے

  • 8 مارچ، 2014 کو 8:30 PM

    احترام ایک مقدس رشتے کا۔ خراج تحسین الفاظ کے موتیوں سے۔ بقول سر ریاض شاہد تحریر مختصر لگی۔

  • 8 مارچ، 2014 کو 8:41 PM
    Zia :

    مزیدار، اس تحریر کو مزید لکھتے تو اور بھی لطف آتا

  • 8 مارچ، 2014 کو 9:51 PM

    میں نے ہزار بار سوچا ہو گا کہ اپنے اساتذہ خاص طور پر پرائمری سکول کی مسوں سے جا کر ملوں لیکن بے نام ”مصروفیت“ یا پھر ”فیر سہی“ نے کبھی یہ موقع آنے ہی نہیں دیا :(

  • 9 مارچ، 2014 کو 8:13 AM

    میری خوش قسمتی"محمد سلیم" ، "وجدان عالم" اور "ڈفر جی" آپ میرے بلاگ پر تشریف لائے
    آپ کے تبصرے راہنمائی کا باعث بنتے ہیں

  • 3 اپریل، 2014 کو 2:45 PM
    گمنام :

    تحریر بہت ھی مختصر ھے ۔ میں ایسے اساتذہ کا دل سے احترام کرتا ھوں۔ اگلی قسط جلد شائع کریں

  • 28 مئی، 2014 کو 9:43 PM


    غمِ زندگی تیرا شکریہ تیرے فیض ہی سے یہ حال ہے
    وہی صبح و شام کی الجھنیں، وہی رات دن کا وبال ہے

    نہ چمن میں بُوئے سمن رہی نہ ہی رنگِ لالہ و گل رہا
    تو خفا خفا سا ہے واقعی کہ یہ صرف میرا خیال ہے

    اسے کیسے زیست کہے کوئی گہے آہِ دل گہے چشمِ نم
    وہی رات دن کی مصیبتیں وہی ماہ ہے وہی سال ہے

    میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تُو برا نہ مانے تو میں کہوں
    تیرے حسن کا نہیں فیض کچھ، میری عاشقی کا کمال ہے

    ہے یہ آگ کیسی لگی ہوئی میرے دل کو آج ہُوا ہے کیا
    جو ہے غم تو ہے غمِ آرزو، اگر ہے تو فکرِ وصال ہے

    کوئی کاش مجھ کو بتا سکے رہ و رسمِ عشق کی الجھنیں
    وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

................................................................................

................................................................................
.