آئیے تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں.مدینہ کی اس بستی میں پینے کا پانی نایاب ہے لے دے کےمحض ایک ہی میٹھےپانی کا کنواں ہےجوایک یہودی کی ملکیّت ہےجہاںوہ اپنی من مانی قیمت پر پانی فروخت کرتاہے،مسلمانوں کی اس تکلیف کی خبر نبی مہربان ﷺ تک پہنچتی ہے۔تو آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کون ہے جو اس کنویں کو خرید کر اللہ کیلئے وقف کردے جس کے بدلے میں اللہ تعالٰی اسےجنّت میں ایک چشمہ عطا کرے گا,یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن عفانؓ اس یہودی کے پاس پہنچتے ہیں اوراس کنویں کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں،کنواں چونکہ منافع بخش آمدن کا ذریعہ تھا اس لئے یہودی اسے فروخت کرنے سے انکار کردیتا ہے،اب جنابِ عثمانؓ ایک اور تدبیر کرتے ہیں کہ اچھا پورا کنواں نہ سہی تو آدھا ہی میرے ہاتھ فروخت کر دو،ایک دن کا پانی تمہارا ہو گا ایک دن کا میرا،یہ سن کے یہودی اپنی فطری لالچ کے ہوتھوں مجبور ہوجاتا ہےاورسوچتا ہےکہ شاید عثمانؓ اپنی رقم کو پوراکرنےاورزیادہ منافع کمانے کے لالچ میں پانی مہنگا فروخت کریں گے اور یوں میرے گاہکوں میں کوئی کمی نہ آئے گی اور اس طرح مزید منافع کمانے کا موقع میسّر آئے گا، آدھا کنواں حضرت عثمانؓ کےہاتھوں فروخت کردیا۔حضرت عثمانؓ نے اپنی باری کے دن مسلمانوں کیلئے مفت پانی کے حصول کا اعلان کردیا تولوگ انؓ کی باری کے روز اگلے دن کیلئے بھی پانی ذخیرہ کر لیتے اور یوں یہودی اپنی باری کے روز منہ دیکھتا رہ جاتا اور کوئی گاہک اس کے کنویں کا رخ نہ کرتابس اسی بناء پر کنویں کا باقی حصّہ بھی حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں فروخت کردیااس دوران ایک آدمی نے آپؓ سے تین گنا منافع پر یہ کنواں خریدنا چاہا تو آپؓ نے فرمایامجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیشکش ہے اس آدمی نے کہا میں چار گنا منافع دوں گاتو آپؓ نے فرمایا مجھے اس سے بھی زیادہ کی پیشکش ہے تو اس آدمی نے کہا آخر وہ کون ہے جو تمہیں اس سے زیادہ دے گا تو آپؓ نے فرمایا میرا رب جو مجھے ایک نیکی پر دس گنااجر دینے کی پیشکش کرتا ہے۔وقت تیز رفتاری سے اپنی منازل طے کرتا رہا اور مسلمان اس کنویں سے اپنی پیاس بجھاتے رہے سیّدنا عثمانؓ کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں،کنویں کے گراگرد کھجوروں کا ایک باغ بن گیا،مدینہ میں عثمانی سلطنت قائم ہوئی تو اس باغ کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوئی اور یہ باغ پھلنے پھولنے لگا،بعد ازاں سعودی حکومت کے عہد میں اس باغ میں کھجوروں کے درختوں کی تعداد1550ہوگئی،مدینہ کی میونسپلٹی میں یہ باغ بعد ازاں حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پر رجسٹرڈ ہوا،سعودی وزارتِ زراعت یہاں کی کھجور مارکیٹ میں فروخت کرتی اور اس باغ کی آمدن کو حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام پربنک میں جمع کرتی ہے اور اس کا ایک حصّہ غرباء اور مساکین میں تقسیم ہوتا ہے، اب اس اکاؤنٹ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ مرکزی علاقہ میں ایک پلاٹ خرید لیا گیا جہاں "فندق عثمان بن عفانؓ" کے نام سے ایک ہوٹل کی تعمیرکا منصوبہ بنایا گیاجس کی سالانہ50ملین ریال آمدن متوقع تھی جس کا آدھا حصّہ غرباء اور مساکین میں تقسیم ہوتا لیکن حرم کی توسیع کے منصوبہ کے پیشِ نظر جہاں دیگر تعمیراتی کام روک دئے گئے ہیں وہیں اس ہوٹل کی تعمیر بھی روک دی گئی۔
بے شک سچ فرمایا اللہ رب العزت نے کہ
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالے نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، بڑھا دیتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ہے۔(سورۃالبقرہ۔آیۃ 261)
اللہ تعالٰی حضرت عثمان بن عفانؓ کی قبر کو نور سے منوّر کر دے کہ ان کی قربانی کو اس اندازمیں برکت عطا کی گئی قیامت تک کیلئے ان کیلئے صدقہ جاریہ کا انتظام ہو گیا
برادرِبزرگ ابو احمد مدنی حاجی محمد اقبال مغل کی وساطت سےچند اشعار حضرت عثمان بن عفانؓ کی نذر
برادرِبزرگ ابو احمد مدنی حاجی محمد اقبال مغل کی وساطت سےچند اشعار حضرت عثمان بن عفانؓ کی نذر
اللہ غنی حد نہیں انعام و عطا کی
وہ فیض پہ دربار ہے عُثمان غنیکا
جو دل کو ضیاء دے جو مقدرکوجلاء دے
وہ جلوہ دیدار ہے عثمان غنی کا
جس آئینہ میں نوُر الہی نظر آئے
وہ آئینہ رُخسار ہے عُثمان غنی کا
جی ماشاء اللہ جــــــبـــــرد ســـــت لکھا ھے اللہ تعالی زور قلم میں اور طاقت دے
یہ بندہ ناچیز اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب ؟
اللہ کریم آپ کو جزائے خیر سے نوازے
اور ہم سب کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تکریم عطا فرمائے
یہ اشعار جو میں نے پیش کئے ہیں میرے نہیں البتہ میرا انتخاب ہے
ماشاء اللہ آپ نے بھی اتنا اچھی اور خوبصورت بات پہنچا کر اپنے آپ کو صدقہ جاریہ پانے والوں میں شامل کرلیا۔
کمال ویرجی
اللہ تعالی آپ کے قلم سے امت کو نفع بخشے۔۔۔۔۔آمین
جزاک اللہ
حضرت عثمان ِ غنی رضی اللہ عنہ جیسی اس ہستی کی شان الفاظ میں کیا بیان ہو پائے گی جو ذوالنورین ہیں ۔ پیکر ِ حیا ہیں، چشمہء سخاوت اور خاص دستِ عنایت ہیں۔ مرحبا حبیبِ نبیء آخرالزماں ص مرحبا ۔۔۔۔ اللہ کریم آپ کی اس عقیدت بھری تحریر پر راضی ہو ۔۔۔سدا خوش آباد و خوش مراد
اللہ تعالی آپ کے قلم سے امت کو نفع بخشے۔۔۔۔۔آمین
اللہ پاک آپ کو اور جزائے خیر عطا فرمائے
ﻣﺼﻠﺤﺖ ﻧﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﺍﺧﺘﻼﻑ...
ﻭﺭﻧﮧ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﺎ ﺑﺮﺍ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ