منگل، 22 ستمبر، 2015

طلاق

4 comments

موبائل کی مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے مجھے گہری نیند سے بیدار کر دیا تھا لیکن اتنی دیر میں کال کٹ چکی تھی،نمازِفجر کے فوراً بعد سے مسلسل سفر کے بعد واپس لوٹتے ہی میں ذرا کمر سیدھی کرنے کو جو لیٹا تو جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا,تھوڑی ہی دیر میں کال دوبارہ آنے گی کال اٹینڈ کرنے پر بتایا گیا کوئی نور شاہ صاحب بات کر رہے ہیں میں نے عرض کیا جی فرمائیے کہنے لگےوہ جی آپ سے معلومات لینی ہیں کہ میرے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے اور اس کی بیوی تین ماہ کی حاملہ ہے تو کہیں سے کوئی فتوٰی مل جائے ہم نے سنا ہے کہ حاملہ عورت کو طلاق نہیں ہوتی، میں نے اپنی معلومات کے مطابق ان کی خدمت میں عرض کیا کہ دیکھئے کہ طلاق ایک ایسی چیز ہے جو مذاق میں بھی واقع ہوجاتی ہے، کہنے لگے نہیں جی دیکھیں ناں وہ غصے میں تھا تو اس نے یہ حرکت کر ڈالی میں نے پوچھا کہ کیا کوئی خوشی سے بھی طلاق دیتا ہے طلاق تو ہمیشہ غصے ہی میں دی جاتی ہے، کہنے لگے پھر بھی اگر مسئلہ حل ہو جائے میں نے انہیں کہا کہ یہ مسئلہ تو پھر کوئی "مفتی صاحب" ہی حل کر پائیں گےان صاحب کا فون بند ہو گیا لیکن میرے لئے مطالعے کی جستجو پیدا کر گیاقرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے طلاق کے احکامات پر مشتمل "سورۃ الطلاق" کے نام سےایک پوری سورۃ نازل فرمائی،میں نے اس کا مطالعہ کیا اور جو باتیں مجھے قرآن وحدیث کی رو سے سمجھ آئیں سوچا آپ سے بھی شئر کرتا چلوں،امید ہے اہلِ علم حضرات میری کسی بھی غلطی کی تصحیح فرمائیں گے۔
طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔ چار الفاظ پر مشتمل ایک ایسا لفظ ہے جو منہ سے نکالنے کے ساتھ مرد اورعورت ایک دوسرے کیلئے حرام ہو جاتے ہیں،اورشوہر کسی بات کے رد عمل یا بغیر رد عمل کے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔چونکہ جنابِ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ثلاث جدهن جد وهزلهن جد : النکاح والطلاق والرجعة.(ترمذی، ابوداؤد) تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کریں پھر بھی درست ہیں اور مذاق کریں پھر بھی صحیح مراد ہے اور وہ تین چیزیں  نکاح، طلاق اور رجوع ہیں بیوی حاملہ ہو یا غیر حاملہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ بیوی مرد پر حرام ہو گئی ہے بغیر حلالہ کے اسکے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔
طلاق کی تین اقسام ہیں
نمبر 1:طلاق بدعت--------  ایک ساتھ میں تین طلاقیں دینے کو طلاقِ بدعت کہا جاتا ہے جو غیر شرعی اور غیر پسندیدہ طریقہ ہے ۔ اس میں رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی،طلاقِ بدعت کی کئی صورتیں ہیں مچلاً یہ کہ ماہواری کے دوران طلاق دینا،یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں میاں بیوی آپس میں جنسی تعلق قائم کر چکے ہوں یا ایک ہی مجلس یا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں بیک وقت دے ڈالے۔ اس طرح طلاق دینے سے طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے لیکن طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ ایک طلاق دے دو دے یا تین، جتنی طلاقیں دے اتنی ہی دفعہ طلاق واقع ہو جاتی ہے 
نمبر 2:طلاق حسن -------- اس طریقے میں عورت کو تین طہر میں الگ الگ تین بار طلاق دی جاتی ہے لیکن یہ طریقہ بھی ٹھیک نہیں کہ اس طرح عدّت کے اختتام پر دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہتی
نمبر 3:طلاق احسن -------- طلاق دینے کا یہ طریقہ سب سے بہتر ہے کی ایک طہر میں ایک طلاق دو اور پھر عدت گزر جانے دو اس طریقے میں عدت کی مدت کے دوران دوبارہ رجوع کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے اور اگر فرض محال عدّت گزر جاتی ہے تومرد اور عورت دوبارہ نکاح کرکے پھر سے میاں بیوی بن سکتے ہیں طلاق کا یہ طریقہ سب سے بہتر تصوّر کیا جاتا ہے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طہر سے کیا مراد ہے ----------- عورت ماہواری (Manses) سے پاک ہو اور میاں بیوی نے اس دوران آپس میں جنسی تعلق قائم نہ کیا ہو اس عرصے کو طہر کہتے ہیں 
سورۃ طلاق میں اللہ رب العزت نے طلاق کا طریقہ کار بہت واضح انداز میں بیان فرما دیا ہے اور عدّت کی مدّت،حاملہ عورتوں کی عدّت اورجنہیں ماہواری نہیں آتی ان کی عدّت کے متعلق بہت وضاحت فرمائی ہے
ارشادِ ربانی ہے
اے نبی ﷺ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کیلئے طلاق دیا کرو۔اورعدت کا زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو ، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔ (زمانہ عدت میں ) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں،  الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی )کوئی صورت پیدا کر دے  پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں ) روک ر کھو، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں۔ اور (اے گواہ بننے والو ) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیۓ ادا کرو۔
یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوۓ کام کرے گا اللہ اس کے لیۓ مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیۓ وہ کافی ہے ۔ اللہ اپنا کام پورا کرے کے رہتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کے لیۓ ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ اور یہی حکم ان کا ہے ۔ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو ۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو  جاۓ ۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ۔ جو اللہ ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔
ان کو (زمانہ عدت میں ) اسی جگہ رکھو جو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیۓ ان کو نہ ستاؤ۔
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جاۓ ۔ اور پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو ) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو، بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو ۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں ) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلالے گی۔ خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے ، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے ۔

4 comments:

  • 23 ستمبر، 2015 کو 2:59 PM

    یہ تو وہی سارا بیان ہے جو ڈاکٹر زاکر نائیک نے بیان کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    طلاق بدعت کی تفصیل بھی جانئے۔

  • 23 ستمبر، 2015 کو 3:35 PM

    جو طلاق بھی غیر شرعی طریقے سے دی جائے گی وہ طلاق بدعت کہلائے گی، خواہ وہ ایک وقت میں تین طلاقیں ہوں ،خواہ ایک ہی طہر میں تین طلاقیں ہوں یاایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں میاں بیوی کا تعلق قائم ہو چکا ہو یا بیوی کو حاملہ ہو اور اسے طلاق دی جائے

  • 14 اکتوبر، 2015 کو 12:44 PM

    مجھے تو یہ طلاق کی باتوں سے بڑا خوف آتا ہے ۔ یہ ہے تو بہت چھوٹی مگر بہتوں کی زندگی پر بہت بڑا برا اثر کرتی ہیں ۔۔۔ اللہ بچاتا رکھے ہم سب کو

  • 21 اکتوبر، 2015 کو 9:42 AM

    واقعی تلاق تک بات نہ پہنچے ہمارے بڑوں کو چاہے کے بات تلاق تک نہ پہنچنے دیں کیوں کے تلاق کے بعد انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ تلاق کیا ہے ۔ کافی اچھا لکھا جناب نے شکریہ

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شکریہ

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

................................................................................

................................................................................
.