برسوں پہلے جب اس کے والد کی مالی حالت اتنی اچھی نہ تھی کپڑے تو لے دے کے نئے بن ہی جاتے وہ بھی کبھی عید ،بقر عید پر لیکن سویٹر یا جوتے تو اکثر ہی "لندن بازار" سے خریدنے پڑتے،اللہ کے سہارے زندگی کی گاڑی چلی جارہی تھی شکر تھا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آتی اور گزر بسر اچھے انداز میں ہو ہی جاتی روکھی سوکھی کھانے کو مل جاتی اور یوں سفید پوشی کا بھرم قائم تھا، وقت اپنی رفتار سے چلا جا رہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا بازار سے گزرتے ہوئیے اس کے والد نے اسے نئے جوتے خرید دئیے اور "بچہ" نئے جوتے خرید کے پھولے نہ سمایا، نئے جوتوں سے اس کی محبت "دیکھنے والی" تھی، ذرا مٹی لگ جاتی تو فوراً کپڑا لے کے اسے صاف کرتا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو قمیض کے کونے سے ہی اپنی "گرگابی" صاف کر لیتا اس کے دوست جوتوں سے اس کی "محبت" پر اس کا مذاق اڑاتے لیکن وہ دیوانہ اپنے جوتوں کی محبت میں دو سال تک گرفتار رہا تاآنکہ اس کی "گرگابی" موسموں کے سردوگرم کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی وہ تو اب بھی اسے اپنے سے جدا نہ کرتا لیکن ایک دن جب وہ گھر پر موجود نہ تھا اس کی بڑی بہن نے ان ٹوٹے جوتوں کو اٹھا کے گھر کے پچھواڑے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ مہینہ بھر گزرا ہوگا کہ چھت پہ کھیلتے ہوئیے "کپڑے کی بنی گیند" بھی اسی پچھواڑے جا گری. گیند تلاش کرتے کرتے جونہی اس کی نظر اپنے جوتوں پہ پڑی اس نے جھٹ سے آگے بڑھ کے انہیں اٹھا لیا، کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے "ہونٹ" اپنی گمشدہ "گرگابی" پر رکھ دئیے اور اسے "چوم" لیا
کہ "محبت" تو "محبت" ہوتی ہے ناں جو ٹوٹے پھوٹے، پھٹے پرانے ہونے کی دلیل کی محتاج نہیں ہوتی
ڈاکٹر صاحب ، ہمیشہ کی طرح ایک اور پر اثر تحریر
بہت اعلیٰ
بہت اعلی اور پر اثر تحریر ۔۔۔۔ واقع میں اُنسیت کسی بھی چیز سے ہوجائے تو وہ چیز دنیا کی قیمتی ترین چیز بن جاتی ہے
زبردست
واللہ ایک عجیب و غریب اور بہترین تحریر
جس نے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے، محبت تو الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔
وقاراحمد
آہاں جناب... اعلی لکھا...
محبّت معنی و الفاظ میں لائی نہیں جاتی
یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی
بہت خوب!
بہت کوبصورت تحریر ۔۔محبت واقعی دلیل کی محتاج نہین ہوتی
Bout khoob