ایک ایسے دور میں جب لوگ کہیں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کی بجائے اس کی فوٹیج بنانے، کسی ڈوبتے کو بچانے کی بجائے اس کی ویڈیو بنانے اور گرتی نعشوں کو سنبھالا دینے کی بجائے ان کی تصویریں بناتے پھرتے ہوں تو ایسے میں اگر کوئی شخص ایک بچے کو بچانےکیلئے اپنے آپ کو دریا کی موجوں کے حوالے کر دے تو یقیناً یہ بات اس پر صادق آتی ہے کہ وہ شخص تو "پہاڑی کا چراغ" ہے جو خود تو جلتا ہے اور جلتے جلتے اس کی زندگی تمام ہوجاتی ہے لیکن دوسروں کیلئے نشانِ منزل چھوڑ جاتا ہے
میں نے مظفر آباد میں دو نوجوانوں کو دریائے نیلم کی تندوتیز بپھری ہوئی موجوں میں گم ہوتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جسم میں ایک سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھلتی کودتی راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست ونابود کرتی بپھری موجیں
اور دریائے کنہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ان دنوں اس قدر بپھرتا ہے کہ سینکڑوں جانیں اس کا لقمہ بن جاتی ہیں میں نے اس کی طغیانی بھی دیکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا سکوت بھی
کراچی ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں وہی جو کبھی روشنیوں کا شہرتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کراچی سے تعلق رکھنے والا شاہین صفت نصراللہ شجیح جو یقیناً "پہاڑی کا چراغ" تھا جو خود تو جلتا ہے لیکن دوسروں کو راستہ دکھاتا ہے۔
ذرا دیکھئے تو کس قدر اعتماد ہے اس ماں کے لہجے میں جس نے اپنے بیٹے کو نصراللہ شجیح کے حوالے کر دیا،یقیناً وہ اسی اعتماد کے قابل تھا
"میں ارسل کو کبھی نہ جانے دیتی میں نے تو کبھی اسے گھر سے مارکیٹ تک نہیں بھیجا تھا تو اتنی دور ٹور پر کیسے جانے دیتی مگر جب اس نے آکر بتایا ماما ہمارے ساتھ سر نصراللہ جارہے ہیں تو میں ایک لمحہ کو بھی انکار نہ کرپائی کہ اب انکار کوئی جواز ہی نهیں بچا تھا وہ جو ایک باپ سے زیادہ حفاظت کرنے والے وہ جو بچوں پر شیر کی سی نگاہ رکھنےکے باوجود ان کے لیے سراپا محبت تھے اب میں بھلا کیسے انکار کرتی اور ارسل کے جانے تیاری کرنے لگی ۔۔۔ میں اکثر ارسل کی شرارتوں پر اسے دھمکی دیتی کہ کل ہی میں آتی ہوں اسکول شجیع بھائی کو بتاتی ہوں اور ارسل وہیں ایک دم ڈھیر ہوجاتا مما نہیں بس سر نصراللہ کو نہیں بس انکو نہیں شکایت کیجیے گا مما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ !!
جانے والا اپنے پیچھے کیسی یادیں چھوڑ گیا
لیکن وہ گیا ہی کب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا
کہ وہ جو یادوں میں بس جاتے ہیں
کب جاتے ہیں
ہر آن ہمارے درمیان موجود
اسی طرح مصروفِ عمل
وہی پہلے کی طرح بھلائیاں بانٹتے ہوئے
ہم ان سے راہنمائی پاتے ہیں
ہم ان کی باتیں سنتے ہیں
انہی کی باتیں کرتے ہیں
ان کا زندگی بھر کا کام ہمیں زندگی بھر یاد دلاتا ہے کہ
زندگی تو اسے کہتے ہیں
دنیا انہیں نگاہوں سے اوجھل پاتی ہے
لیکن
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں
ہمارے دکھ سکھ میں شریک
ہم تو ان کی ایک مسکراہٹ نہیں بھول سکتے
زندگی بھر کا احسان کیسے بھلایا جا سکتا ہے
وہ جو اپنا سب کچھ ہمیں سونپ گئے
اور پھر بھی خالی ہاتھ نہیں
ان کا زادِ راہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا اثاثہ
ہمسفری کی یہ جانی پہچانی روایت
قافلہ چل رہا ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے
کہ کسی کا سنگِ میل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی منزل
نصر اللہ شجیع عظیم انسان مجاہد اور اللہ کے سوا کسی کا خؤف نہ رکھنے والے سچے مومن ہیں۔میں تو اب بھی امید کی شمع روشن کیئے ہوں کہ وہ ہمارے درمیان واپس آجائے
قصہ کہانی کے لوگ ہمارے عصر میں بهی ہوتے ہیں ؟ اللہ بلند درجہ دے انہیں
اسے کہتے ہیں اللہ جسے توفیق دے لیکن اللہ اُسے ہی توفیق دیتا ہے جو اللہ پر یقین رکھتا ہو ۔ ایسے لوگ گفتار کے نہیں کردار کے غازی ہوتے ہیں